تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     25-09-2015

میں نے اصلی شیر کی وردی کو سینے سے لگا لیا!

میں نے اپنی زندگی میں زیادہ تر جس شیر نما انسان کے بھی قریب ہو کر دیکھا‘ اسے بھیڑیا ہی پایا۔ یوں سادہ لوح جسے شیر کہتے تھے‘ مجھے اس سے نفرت ہونے لگ گئی تھی۔ اس دوران پاک فوج کے شیروں میں سے ایک شیر اچانک سامنے آیا۔ اس کا نام اسفند یار ہے۔ یوں میں نے ایک شیر دیکھا‘ جو نام کا بھی شیر اور کام اور کردار کا بھی شیر تھا۔ میں اس کے گھر گیا۔ جس باپ یعنی جناب فیاض بخاری نے اس کا نام اسفند یار رکھا‘ میں اس کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہا۔ اصلی اور حقیقی شیر کی باتیں سنتا رہا اور سنتا چلا گیا۔ ایمان تھا کہ بڑھتا ہی چلا گیا، آنکھیں تھیں کہ بار بار ڈبڈبا رہی تھیں۔ خیر! یہ ساری باتیں ذرا بعد میں۔ قارئین! آیئے کچھ دیر کے لئے ایک دلفگار اور دلدوز حقیقت ملاحظہ کرتے ہیں۔
یہ خارجی اور تکفیری دہشت گرد بھی کیا چیز ہیں کہ حملہ کرتے ہیں تو مسلمانوں پر‘ اور جگہ کا انتخاب کرتے ہیں تو مسجد کا، تعلیمی ادارے کا، مسلمانوں کے دفاع پر حملہ آور ہوتے ہیں، عورتوں اور بچوں پر حملہ کرتے ہیں۔ حضرت علیؓ حیدر کرار تھے یعنی پلٹ کر جھپٹنے والے شیر ببر ۔ ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم نے ان پر مسجد میں حملہ کیا،اور سترہ رمضان کو کیا یعنی وہ اپنی دانست میں فتح مکہ جیسا کارنامہ سرانجام دینے آیا تھا۔ ''اللہ کی لعنت ایسی ابلیسی سوچ پر‘‘۔ آج پھر وہی خارجی حملہ آور ہوئے۔ حملے کے لئے جس مہینے کا انتخاب کیا وہ حرمت والا مہینہ ہے، یعنی ایسا مہینہ جس میںلڑائی اور خون بہانا منع کر دیا گیاہے۔ یہ حج کا مہینہ ہے۔ پھر اس مہینے کے جو ابتدائی دس دن ہیں، اس قدر فضیلت والے کہ ان میں کیا ہوا کوئی نیک عمل باقی سارے سال میں کئے ہوئے نیک عمل سے کہیں افضل و برتر ہے۔ اس فضیلت اور برتری کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے آگاہ فرمایا ہے۔ پہلے دس افضل ترین دنوں میں سے دوسرا ہی دن تھا کہ خارجیوں نے حملہ کردیا، جمعہ کے دن کا انتخاب کیا اور آغاز مسجد سے کیا۔ وہ لوگ جو وضو کر رہے تھے‘ خارجیوں نے ان کو شہید کر دیا۔ پھر مسجد میں قیام، رکوع اور سجدے میں پڑے ہوئے نمازیوں کو شہید کر دیا۔ یہ عام بچے، بوڑھے اور نہتے جوان تھے جو شہید ہو گئے۔
اب اپنی کچھار سے ایک شیر نکلا، اصلی شیر، اس نے جلدی سے وردی پہنی، بوٹ پہنے اور گن اٹھائی۔ جس کچھارمیں وہ موجود تھا، وہ مکمل طور پر محفوظ تھی، اسے کوئی خطرہ نہ تھا‘ مگر وہ نکلا، اس کے کمانڈر بریگیڈیئر نے اسے کہا: اسفند یار تم مت جائو، چند سپاہی چلے گئے ہیں، باقی فورس بھی آدھے گھنٹے تک پہنچ رہی ہے‘ مگر اس نے کہا: سر! اگر وہ اس طرف آ گئے جہاں سات سو لوگ ہیں تو وہ سب کو مار دیں گے۔ اگر مزید آگے بڑھ گئے تو سکول میں تیرہ سو بچے ان کی زد میں ہوں گے۔ سر! مجھے جانے دیں، میں ایک اور اے پی ایس نہیں بننے دوں گا، ان کو وہاں تک پہنچنے سے پہلے ختم کروں گا۔ پھر وہ بھاگتا ہوا گیا اور خارجیوں کے اس گروہ کے سامنے چٹان بن گیا جو سات سو اور پھر تیرہ سو کی جانب جا رہے تھے۔ ایک شیر افسر تھا اور تین اس کے سپاہی تھے۔ انہوں نے سب کو گھیر لیا۔ وہ لڑتا رہا، اس نے کسی کو چھپنے نہیں دیا۔ وہ کوئی آدھ گھنٹے تک لڑتا رہا اور دہشت گردوں کو ڈھیر کرتا گیا۔ اب پاک فوج کی ''کوئیک رسپانس فورس‘‘ کے جوان بھی پہنچ گئے تھے۔ میں اس فورس کو اردو میں ''شاہین رفتار جوابی فوج‘‘ کہوں گا۔ اس فوج کے آنے تک اسفند یار نے خارجیوں کا صفایا کر دیا تھا۔ اسفند یار نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی۔ یہ سائز میں ذرا بڑی تھی اور یہ ذرا تنگ کر رہی تھی۔ اسفند یار پانچ کو مار کر واپس پلٹ آیا اور بلٹ پروف جیکٹ اتار دی۔ اپنے کمانڈر بریگیڈیئر سے کہنے لگا: سر! ابھی ایک اور پاکٹ ہے، میں وہاں جا رہا ہوں۔ اب اللہ کا شیر ادھر کو دوڑا۔ شاہین رفتار جوابی فوج کے شاہین بھی پہنچ چکے تھے اور گھیرا تنگ کر چکے تھے۔ اسفند یار پھر لڑنے لگ گیا۔ ایک دہشت گرد خارجی جو کہیں چھپا ہوا تھا، نے برسٹ مارا، اسفند یار کے سینے پر گولیاں لگیں۔ اللہ کا شیر شہید ہوگیا۔ شاہین رفتار جوابی فوج کے ایک شاہین نے یہ منظر دیکھا تو چھپے ہوئے خارجی دہشت گرد کو تاک کر نشانہ لگایا اور وہیں ڈھیر کر دیا۔
جناب ڈاکٹر فیاض بخاری صاحب مجھے بتلا رہے تھے: میں بیٹے کی لاش دیکھنے گیا تو فوجی جوانوں نے مجھے حوصلہ دینا شروع کیا۔ میں نے کہا: میں حوصلے میں ہوں، مجھے جلدی اپنے اسفند یار کے پاس لے چلو۔ وہ مجھے اس کے پاس لے گئے۔ مجھے جلدی اس بات کی تھی کہ دیکھوں میرے اسفند نے گولیاں کہاں کھائی ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اس کا سینہ دیکھا، گولیاں وہیں لگی تھیں، خون رِس رہا تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرے بیٹے نے لڑتے ہوئے سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔ میں نے کہا: جوانو! مجھے مبارکباد دو، میں ایک شہید کا باپ بن گیا ہوں، ہاں ہاں! اس شہید کا باپ‘ جس نے شہادت کے لئے مانگ کر کمانڈ لی۔ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف وزیرستان میں بھی لڑتا رہا۔ وہ مجھے کہتا تھا: ابوجی! یہ بچوں پر حملے کرتے ہیں، ہم سے لڑیں ناں، پھر ان کو بتلائیں، لڑائی کیا ہوتی ہے؟ اور پھر اسفند یار نے اپنا عہد نبھا کر پوری پاکستانی قوم اور فوج کو ایک نیا حوصلہ اور ولولہ دیا‘‘۔ جناب ڈاکٹر فیاض بخاری صاحب بتا رہے تھے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں شہید ہونے والے بچوں اور اساتذہ کے والدین اور لواحقین ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: اسفند یار نے ہمارے معصوم بچوں کا بدلہ لے لیا ہے اور ایک اور آرمی سکول کے بچوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ ہم اس پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور مبارکباد دیتے ہیں۔
اسفند یار پانچ وقت کا نمازی تھا۔ فوج میں جو اسمبلی ہوتی ہے‘ اسے فالن کہتے ہیں۔ کپتان اسفند یار نے اپنے ماتحتوں سے کہہ رکھا تھا: پہلا فالن اللہ کے دربار میں ہو گا یعنی سب لوگ فجر کی نماز پڑھا کریں گے، اس کے بعد فوجی فالن ہوا کرے گا۔ اسفند یار تو پاک فوج کی پریڈ میں بھی باوضو ہو کر شامل ہوتا تھا۔ اسے پہلی تنخواہ ملی تو اپنے ابا جی سے کہنے لگا: ابو جی! وہ کون سا اکائونٹ ہوتا ہے جس میں سود نہیں ہوتا، والد نے بتایا کہ بیٹا! اسے کرنٹ اکائونٹ کہتے ہیں۔ جی ہاں! اسفند یار کی پاکیزہ تنخواہ کے پیسے آج بھی کرنٹ اکائونٹ میں پڑے ہیں۔ قارئین کرام! ڈاکٹر بخاری صاحب جب مجھے اکائونٹ کی بات بتا رہے تھے تو ان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ میری آنکھوں میں بھی یہ سوچ کر آنسو آ گئے کہ وہ دنیادار لوگ کیسے ظالم ہیں‘ جو ایسے شیروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ٹیکس سے پلتے ہیں اور یہ کہ ہمارے چوکیدار ہیں۔ اللہ کی قسم! یہ اللہ کے چوکیدار ہیں اور ان کے ایک قطرئہ خون پر پاکستان کے سارے خزانے قربان ہیں کہ خزانے محفوظ ہیں تو اسفند یاروںکے پاکیزہ خون کی برکت سے، اور اس خون کی قیمت تو ساری زمین بھی نہیں کہ یہ خون اللہ کو بہت پسند ہے۔ بھلا اللہ کی پسند کی قیمت بھی کوئی دے سکتا ہے؟
میں سوچتا ہوں، ابوجہل میدان میں لڑ کر مرا۔ راجہ داہر اور پرتھوی راج میدان میں لڑ کر مرے۔ نارائن سنگھ ہمارے شیر میجر شبیر شریف سے لڑ کر میدان میں مرا۔ یہ دشمن تھے ہمارے، انسان تھے، مردِ میدان تھے، واصل جہنم ہوئے، یہ جہنم میں جائیں گے، انسانوں کی شکل میں ہی جہنم میں جائیں گے، مگر یہ جو خارجی اور تکفیری ہیں، ان کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث ہے، سند اس کی صحیح ہے، اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ ''یہ خارجی لوگ جہنم کے کتے ہیں۔‘‘ میں اس کی شرح کروں تو وہ یوں بھی ہے کہ ان کی شکلیں کتوں کی طرح ہو جائیں گی۔ یہ بھونکتے ہوئے جہنم میں داخل ہوں گے۔ میں نے پھر کسی سے پوچھا کہ ان پر اس قدر سختی کیوں ہے؟ جواب ملا، اس لئے کہ یہ مارتے ہیں تو صرف مسلمانوں کو مارتے ہیں، بھونکتے ہیں تو صرف کلمہ پڑھنے والوں پر، لہٰذا ان کی سزا شدید ترین ہے۔ دنیا ہی میں ہم نے دیکھا کہ ان کی لاشوں سے بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے؛ چنانچہ جلدی سے ان کو زمین برد کیا گیا۔ 
میرے حضورﷺ کے ایک اور فرمان کے مطابق ان کے ہاتھوں شہید ہونے والا افضل ترین شہید ہے۔ اسفند یار ‘جو افضل ترین شہید ہے ، اس کے والد گرامی نے میرا ہاتھ پکڑا، تعزیت کرنے والوں کی مجلس سے اٹھایا اور اپنے شیر کی کچھار میں یعنی اپنے گھر میں لے گئے۔ وہاں اسفند یار کی وردی تھی، چھڑی تھی، تلوار تھی، میڈل تھے۔ میں نے چھڑی اپنے ہاتھ میں اٹھائی، وردی کو دونوں ہاتھوں سے تھاما، اپنے سینے سے لگایا کہ یہ اسلام اور پاکستان کے شیر کی وردی ہے، اصلی شیر کی وردی ہے۔ اللہ حافظ اے اسفند یار! اب یاری تو نے لگا لی فردوس میں، حیدر کرارؓ کے ساتھ، خالدؓ بن ولید کے ساتھ، طارقؒ بن زیاد اور محمدؒ بن قاسم کے ساتھ، راجہ عزیز بھٹی اور شبیر شریف کے ساتھ۔ اچھا بھئی! تجھے نئی یاریاں مبارک ہوں۔(پاکستان زندہ باد)

 

میں نے اپنی زندگی میں زیادہ تر جس شیر نما انسان کے بھی قریب ہو کر دیکھا‘ اسے بھیڑیا ہی پایا۔ یوں سادہ لوح جسے شیر کہتے تھے‘ مجھے اس سے نفرت ہونے لگ گئی تھی۔ اس دوران پاک فوج کے شیروں میں سے ایک شیر اچانک سامنے آیا۔ اس کا نام اسفند یار ہے۔ یوں میں نے ایک شیر دیکھا‘ جو نام کا بھی شیر اور کام اور کردار کا بھی شیر تھا۔ میں اس کے گھر گیا۔ جس باپ یعنی جناب فیاض بخاری نے اس کا نام اسفند یار رکھا‘ میں اس کے پاس گھنٹوں بیٹھا رہا۔ اصلی اور حقیقی شیر کی باتیں سنتا رہا اور سنتا چلا گیا۔ ایمان تھا کہ بڑھتا ہی چلا گیا، آنکھیں تھیں کہ بار بار ڈبڈبا رہی تھیں۔ خیر! یہ ساری باتیں ذرا بعد میں۔ قارئین! آیئے کچھ دیر کے لئے ایک دلفگار اور دلدوز حقیقت ملاحظہ کرتے ہیں۔
یہ خارجی اور تکفیری دہشت گرد بھی کیا چیز ہیں کہ حملہ کرتے ہیں تو مسلمانوں پر‘ اور جگہ کا انتخاب کرتے ہیں تو مسجد کا، تعلیمی ادارے کا، مسلمانوں کے دفاع پر حملہ آور ہوتے ہیں، عورتوں اور بچوں پر حملہ کرتے ہیں۔ حضرت علیؓ حیدر کرار تھے یعنی پلٹ کر جھپٹنے والے شیر ببر ۔ ایک خارجی عبدالرحمن بن ملجم نے ان پر مسجد میں حملہ کیا،اور سترہ رمضان کو کیا یعنی وہ اپنی دانست میں فتح مکہ جیسا کارنامہ سرانجام دینے آیا تھا۔ ''اللہ کی لعنت ایسی ابلیسی سوچ پر‘‘۔ آج پھر وہی خارجی حملہ آور ہوئے۔ حملے کے لئے جس مہینے کا انتخاب کیا وہ حرمت والا مہینہ ہے، یعنی ایسا مہینہ جس میںلڑائی اور خون بہانا قرآن نے منع کر دیا ہے۔ یہ حج کا مہینہ ہے۔ پھر اس مہینے کے جو ابتدائی دس دن ہیں، اس قدر فضیلت والے کہ ان میں کیا ہوا کوئی نیک عمل باقی سارے سال میں کئے ہوئے نیک عمل سے کہیں افضل و برتر ہے۔ اس فضیلت اور برتری کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ نے آگاہ فرمایا ہے۔ پہلے دس افضل ترین دنوں میں سے دوسرا ہی دن تھا کہ خارجیوں نے حملہ کردیا، جمعہ کے دن کا انتخاب کیا اور آغاز مسجد سے کیا۔ وہ لوگ جو وضو کر رہے تھے‘ خارجیوں نے ان کو شہید کر دیا۔ پھر مسجد میں قیام، رکوع اور سجدے میں پڑے ہوئے نمازیوں کو شہید کر دیا۔ یہ عام بچے، بوڑھے اور نہتے جوان تھے جو شہید ہو گئے۔
اب اپنی کچھار سے ایک شیر نکلا، اصلی شیر، اس نے جلدی سے وردی پہنی، بوٹ پہنے اور گن اٹھائی۔ جس کچھارمیں وہ موجود تھا، وہ مکمل طور پر محفوظ تھی، اسے کوئی خطرہ نہ تھا‘ مگر وہ نکلا، اس کے کمانڈر بریگیڈیئر نے اسے کہا: اسفند یار تم مت جائو، چند سپاہی چلے گئے ہیں، باقی فورس بھی آدھے گھنٹے تک پہنچ رہی ہے‘ مگر اس نے کہا: سر! اگر وہ اس طرف آ گئے جہاں سات سو لوگ ہیں تو وہ سب کو مار دیں گے۔ اگر مزید آگے بڑھ گئے تو بچوں کے سکول میں تیرہ سو بچے ان کی زد میں ہوں گے۔ سر! مجھے جانے دیں، میں ایک اور اے پی ایس نہیں بننے دوں گا، ان کو وہاں تک پہنچنے سے پہلے ختم کروں گا۔ پھر وہ بھاگتا ہوا گیا اور خارجیوں کے اس گروہ کے سامنے چٹان بن گیا جو سات سو اور پھر تیرہ سو کی جانب جا رہے تھے۔ ایک شیر افسر تھا اور تین اس کے سپاہی تھے۔ انہوں نے سب کو گھیر لیا۔ وہ لڑتا رہا، اس نے کسی کو چھپنے نہیں دیا۔ وہ کوئی آدھ گھنٹے تک لڑتا رہا اور دہشت گردوں کو ڈھیر کرتا گیا۔ اب پاک فوج کی ''کوئیک رسپانس فورس‘‘ کے جوان بھی پہنچ گئے تھے۔ میں اس فورس کو اردو میں ''شاہین رفتار جوابی فوج‘‘ کہوں گا۔ اس فوج کے آنے تک اسفند یار نے خارجیوں کا صفایا کر دیا تھا۔ اسفند یار نے بلٹ پروف جیکٹ پہن رکھی تھی۔ یہ سائز میں ذرا بڑی تھی۔ اور یہ ذرا تنگ کر رہی تھی۔ اسفند یار پانچ کو مار کر واپس پلٹ آیا اور بلٹ پروف جیکٹ اتار دی۔ اپنے کمانڈر بریگیڈیئر سے کہنے لگا: سر! ابھی ایک اور پاکٹ ہے، میں وہاں جا رہا ہوں۔ اب اللہ کا شیر ادھر کو دوڑا۔ شاہین رفتار جوابی فوج کے شاہین بھی پہنچ چکے تھے اور گھیرا تنگ کر چکے تھے۔ اسفند یار پھر لڑنے لگ گیا۔ ایک دہشت گرد خارجی جو کہیں چھپا ہوا تھا، نے برسٹ مارا، اسفند یار کے سینے پر گولیاں لگیں۔ اللہ کا شیر شہید ہوگیا۔ شاہین رفتار جوابی فوج کے ایک شاہین نے یہ منظر دیکھا تو چھپے ہوئے خارجی دہشت گرد کو تاک کر نشانہ لگایا اور وہیں ڈھیر کر دیا۔
جناب ڈاکٹر فیاض بخاری صاحب مجھے بتلا رہے تھے: میں بیٹے کی لاش دیکھنے گیا تو فوجی جوانوں نے مجھے حوصلہ دینا شروع کیا۔ میں نے کہا: میں حوصلے میں ہوں، مجھے جلدی اپنے اسفند یار کے پاس لے چلو۔ وہ مجھے اس کے پاس لے گئے۔ مجھے جلدی اس بات کی تھی کہ دیکھوں میرے اسفند نے گولیاں کہاں کھائی ہیں۔ میں نے سب سے پہلے اس کا سینہ دیکھا، گولیاں وہیں لگی تھیں، خون رِس رہا تھا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرے بیٹے نے لڑتے ہوئے سینے پر گولیاں کھائی ہیں۔ میں نے کہا: جوانو! مجھے مبارکباد دو، میں ایک شہید کا باپ بن گیا ہوں، ہاں ہاں! اس شہید کا باپ‘ جس نے شہادت کے لئے مانگ کر کمانڈ لی۔ وہ ان دہشت گردوں کے خلاف وزیرستان میں بھی لڑتا رہا۔ وہ مجھے کہتا تھا: ابوجی! یہ بچوں پر حملے کرتے ہیں، ہم سے لڑیں ناں، پھر ان کو بتلائیں، لڑائی کیا ہوتی ہے؟ اور پھر اسفند یار نے اپنا عہد نبھا کر پوری پاکستانی قوم اور فوج کو ایک نیا حوصلہ اور ولولہ دیا‘‘۔ جناب ڈاکٹر فیاض بخاری صاحب بتا رہے تھے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں شہید ہونے والے بچوں اور اساتذہ کے والدین اور لواحقین ہمارے پاس آئے اور کہنے لگے: اسفند یار نے ہمارے معصوم بچوں کا بدلہ لے لیا ہے اور ایک اور آرمی سکول کے بچوں کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ ہم اس پر آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور مبارکباد دیتے ہیں۔
اسفند یار پانچ وقت کا نمازی تھا۔ فوج میں جو اسمبلی ہوتی ہے‘ اسے فالن کہتے ہیں۔ کپتان اسفند یار نے اپنے ماتحتوں سے کہہ رکھا تھا: پہلا فالن اللہ کے دربار میں ہو گا یعنی سب لوگ فجر کی نماز پڑھا کریں گے، اس کے بعد فوجی فالن ہوا کرے گا۔ اسفند یار تو پاک فوج کی پریڈ میں بھی باوضو ہو کر شامل ہوتا تھا۔ اسے پہلی تنخواہ ملی تو اپنے ابا جی سے کہنے لگا: ابو جی! وہ کون سا اکائونٹ ہوتا ہے جس میں سود نہیں ہوتا، والد نے بتایا کہ بیٹا! اسے کرنٹ اکائونٹ کہتے ہیں۔ جی ہاں! اسفند یار کی پاکیزہ تنخواہ کے پیسے آج بھی کرنٹ اکائونٹ میں پڑے ہیں۔ قارئین کرام! ڈاکٹر بخاری صاحب جب مجھے اکائونٹ کی بات بتا رہے تھے تو ان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں۔ میری آنکھوں میں بھی یہ سوچ کر آنسو آ گئے کہ وہ دنیادار لوگ کیسے ظالم ہیں‘ جو ایسے شیروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ٹیکس سے پلتے ہیں اور یہ کہ ہمارے چوکیدار ہیں۔ اللہ کی قسم! یہ اللہ کے چوکیدار ہیں اور ان کے ایک قطرئہ خون پر پاکستان کے سارے خزانے قربان ہیں کہ خزانے محفوظ ہیں تو اسفند یاروںکے پاکیزہ خون کی برکت سے، اور اس خون کی قیمت تو ساری زمین بھی نہیں کہ یہ خون اللہ کو بہت پسند ہے۔ بھلا اللہ کی پسند کی قیمت بھی کوئی دے سکتا ہے؟
میں سوچتا ہوں، ابوجہل میدان میں لڑ کر مرا۔ راجہ داہر اور پرتھوی راج میدان میں لڑ کر مرے۔ نارائن سنگھ ہمارے شیر میجر شبیر شریف سے لڑ کر میدان میں مرا۔ یہ دشمن تھے ہمارے، انسان تھے، مردِ میدان تھے، واصل جہنم ہوئے، یہ جہنم میں جائیں گے، انسانوں کی شکل میں ہی جہنم میں جائیں گے، مگر یہ جو خارجی اور تکفیری ہیں، ان کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ ابن ماجہ کی حدیث ہے، سند اس کی صحیح ہے، اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ ''یہ خارجی لوگ جہنم کے کتے ہیں۔‘‘ میں اس کی شرح کروں تو وہ یوں بھی ہے کہ ان کی شکلیں کتوں کی طرح ہو جائیں گی۔ یہ بھونکتے ہوئے جہنم میں داخل ہوں گے۔ میں نے پھر کسی سے پوچھا کہ ان پر اس قدر سختی کیوں ہے؟ جواب ملا، اس لئے کہ یہ مارتے ہیں تو صرف مسلمانوں کو مارتے ہیں، بھونکتے ہیں تو صرف کلمہ پڑھنے والوں پر، لہٰذا ان کی سزا شدید ترین ہے۔ دنیا ہی میں ہم نے دیکھا کہ ان کی لاشوں سے بدبو کے بھبھوکے اٹھ رہے تھے؛ چنانچہ جلدی سے ان کو زمین برد کیا گیا۔ 
میرے حضورﷺ کے ایک اور فرمان کے مطابق ان کے ہاتھوں شہید ہونے والا افضل ترین شہید ہے۔ اسفند یار ‘جو افضل ترین شہید ہے ، اس کے والد گرامی نے میرا ہاتھ پکڑا، تعزیت کرنے والوں کی مجلس سے اٹھایا اور اپنے شیر کی کچھار میں یعنی اپنے گھر میں لے گئے۔ وہاں اسفند یار کی وردی تھی، چھڑی تھی، تلوار تھی، میڈل تھے۔ میں نے چھڑی اپنے ہاتھ میں اٹھائی، وردی کو دونوں ہاتھوں سے تھاما، اپنے سینے سے لگایا کہ یہ اسلام اور پاکستان کے شیر کی وردی ہے، اصلی شیر کی وردی ہے۔ اللہ حافظ اے اسفند یار! اب یاری تو نے لگا لی فردوس میں، حیدر کرارؓ کے ساتھ، خالدؓ بن ولید کے ساتھ، طارقؒ بن زیاد اور محمدؒ بن قاسم کے ساتھ، راجہ عزیز بھٹی اور شبیر شریف کے ساتھ۔ اچھا بھئی! تجھے نئی یاریاں مبارک ہوں۔(پاکستان زندہ باد)

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved