تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-09-2015

آج کا دن کئی ذبیحے چاہتا ہے!

آپ جس وقت یہ کالم پڑھ رہے ہیں، دن چڑھ چکا ہے‘ اور دن چونکہ عیدالاضحیٰ کا ہے اس لیے ہر طرف اللہ کی راہ میں بہایا ہوا خون ہے۔ صد شکر کہ اللہ کے طے کردہ طریق کار کے مطابق سال میں ایک بار اس کی راہ میں بہایا ہوا خون بھی دکھائی دے جاتا ہے ورنہ یہ سرزمین وہی خون دیکھنے کی عادی ہوچکی ہے جو ناحق بہایا جاتا ہے۔ 
قربانی کے جانوروں کی توقیر کا موسم ان پر بہت گراں گزرتا ہے جن کی زندگی اور موت بظاہر کوئی مفہوم نہیں رکھتی۔ حق یہ ہے کہ جنہیں زندگی کی جہدِ پیہم میں مصروف رکھ کر حیوانی سطح پر پہنچا دیا ہے اُنہیں کوئی حیوان تسلیم کرنے کو بھی تیار نہیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں ان کی ویسی ہی تعظیم کرنا ہوگی جیسی حیوانات کا مقدر ہے! ٹھیک ہے، قربانی کے جانوروں کی بھرپور توقیر ہفتہ دس دن کا قصہ ہے۔ مگر صاحب، یہ بھی کیا کم ہے کہ ان آٹھ دس دنوں میں ان کی جو آؤ بھگت ہوتی ہے ویسی تو اس معاشرے کے پِِسے ہوئے لوگوں کو زندگی بھر نصیب نہیں ہو پاتی۔ قربانی کے جانور جیسا چارا کھانا چاہیں، ان کے آگے رکھ دیا جاتا ہے۔ یہاں حال یہ ہے کہ جو لوگ زندگی بھر اہل خانہ کا پیٹ بھرنے کی تگ و دَو میں مصروف رہتے ہیں اور اپنے وجود کو نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن رہتے ہیں‘ انہیں شاذ و نادر ہی اپنی مرضی کی کوئی چیز کھانے کو مل پاتی ہے! یہ غریب اگر کوئی فرمائش کر بیٹھیں تو گھر والے باتیں سُناکر پیٹ بھرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 
قربانی کے جانوروں کو جس پیار سے گلی گلی گھمایا جاتا ہے‘ اسے دیکھ کر حالات کے ستائے اور معاشرے کے نظر انداز کیے ہوئے لوگوں کو اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے اور خون کے آنسو رلا جاتا ہے۔ وہ سوچتے ہی رہ جاتے ہیں کہ اے کاش بچپن لوٹ آئے اور لوگ کچھ دیر پیار کر لیں، گھما پھرا دیں۔ 
خوشیوں سے مزیّن دن ہے اور ہم یہ کیا رونا لے بیٹھے؟ 
قوم آج قربانی کرنے میں مست و مگن ہے۔ جن جانوروں کو بڑے اہتمام سے خریدنے کے بعد بہت ناز و نعم سے آٹھ دس دن اپنے پاس رکھا تھا اللہ کی رضا کے لیے انہی کو قربان کیا گیا ہے۔ ہر سال لاکھوں جانور قربانی کے ہمیں کسی حد تک گناہوں کے ازالے اور اللہ کی رضا کے حصول کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ہم جس طور زندگی بسر کر رہے ہیں اس میں گناہوں سے بچنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ بھرپور ذہنی تیاری اور نظم و ضبط کے ساتھ کوئی اللہ کی رضا کے حصول کے نقطۂ نظر سے زندگی بسر کرنے کا ارادہ کرے‘ تو کسی حد تک کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے بھی اسے بہت کچھ قربان کرنا پڑے گا۔ سوال صرف مال کا نہیں۔ اللہ کی رضا کا حصول اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنے پورے وجود، عادات، خیالات، اعمال سبھی کچھ بدل ڈالیں یا کم از کم انہیں بدلنے کی راہ پر تو گامزن ہوں۔ 
آج کا دن ہمیں کھانے پینے کا بھرپور موقع ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ یہ سوچنے کی تحریک بھی دیتا ہے کہ اللہ کی خوشنودی کی خاطر بہت کچھ کرنا ہے۔ ایسا بہت کچھ ہے جو چھوڑ دینا ہے۔ اور دوسرا بہت کچھ ہے جو اپنانا ہے، زندگی کا حصہ بنانا ہے۔ جب ہم ایسا نہیں کریں گے، کسی بڑی تبدیلی کے لیے خود کو تیار نہیں کرپائیں گے۔ عیدالاضحی کے موقع پر جانور ذبح کرنا اور اس کے گوشت سے لذت پانا ہمیں تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں کردیتا۔ اللہ کو ہم سے قربانی مطلوب ہے۔ اس کا یہ مفہوم نہ لیا جائے کہ اس کی راہ میں جانور ذبح کرکے ہم خود کو سُرخ رُو کرسکتے ہیں۔ اللہ کے نام پر جانور ذبح کرنا ہم اہل ایمان کی آزمائش کا محض ایک حصہ ہے۔ یہ قربانی کا محض مالی پہلو ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سے ہر معاملے میں بے لوث اور پُر اخلاص قربانی کا طالب ہے۔ اللہ کے طے کردہ معیارِ پسندیدگی پر پُورا اترنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے پورے وجود کا جائزہ لیں اور ہر وہ چیز چھوڑ دیں جو اللہ کی مرضی کے خلاف ہو‘ نیز ہر وہ چیز اپنالیں جو اللہ کی مرضی سے مطابقت رکھتی ہو۔ اللہ کے نزدیک مستحسن ٹھہرنے کا یہی ایک معیار ہے۔ 
ہر سال قربانی کے جانوروں کی خریداری اور اس کے بعد اس کی ناز برداری کے عمل کو میلے کی شکل دے دی گئی ہے۔ قرآن کی باترجمہ تلاوت سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ بنی اسرائیل نے اللہ کے احکام نظر انداز کر دیے تھے اور مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے نفس کی غلامی ہی میں رہنا پسند کیا تھا۔ بنی اسرائیل نے جو کچھ کیا تھا وہ بھی قرآن میں پوری صراحت کے ساتھ درج ہے۔ موسیٰ علیہ السلام جب اللہ تعالیٰ سے براہِ راست ہدایت یعنی احکامِ عشرہ لینے کوہِ طور پر گئے تب نیچے وادی میں ان کی قوم نے سونے کا بچھڑا بناکر اس کی پوجا شروع کردی۔ کیا ہم بھی ایسا ہی نہیں کر رہے؟ قربانی کے جانوروں کی خریداری سے ان کے ذبیحے تک جو کچھ مملکتِ خداداد پاکستان میں ہو رہا ہے کیا وہ اللہ کو ناراض کرنے کے لیے کافی نہیں؟ مویشی منڈی میں قربانی کے جانوروں کی رسّیاں ماڈلز کو تھماکر واک کرائی گئی۔ ہم نے اللہ کی خوشنودی کی خاطر کئے جانے والے ذبیحے کو بھی تماشے میں تبدیل کردیا ہے۔ کیا ایسا کرنا اپنی شامتِ اعمال کو دعوت دینے جیسا نہیں؟ 
آج کا دن محض اس لیے نہیں ہے کہ ہم ذبیحے کی منزل سے گزریں اور پھر جانور کے گوشت سے پیٹ کی آگ بجھائیں۔ اِس سے کہیں آگے جاکر ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہمیں اللہ کی رضا مقصود ہے۔ قربانی کا گوشت مستحقین تک پہنچانا بھی ذبیحے سے جڑی ہوئی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ جانور ذبح کرکے اس کی بوٹیاں کردینا ہمیں ذبیحے کی ذمہ داریوں سے سبکدوش نہیں کر دیتا۔ جنہیں سال بھر ڈھنگ سے گوشت کھانا نصیب نہیں ہو پاتا ان تک قربانی کا گوشت پہنچانا بھی ہمارے لیے فرض عین ہے۔ 
دوسری تمام باتوں سے بڑھ کر یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے جو کچھ چاہتا ہے یعنی جس قربانی کا طالب ہے اس کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے پہلی منزل جانور کا ذبیحہ ہے۔ اپنی حلال آمدن سے پسندیدہ جانور خرید کر اسے قربان کرنا ہمیں اِس بات کے لیے تیار ہونے کی تحریک دیتا ہے کہ ہمیں اپنی بہت سی خواہشات بھی اللہ کی خوشنودی کی خاطر ترک کرنی ہیں، اپنے نفس کے گلے پر چُھری پھیرنی ہے۔ یہ نکتہ ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے کہ ہمیں قربانی صرف کرنی نہیں ہے بلکہ دینی بھی ہے۔ جانور کے ساتھ ساتھ ہمارے نفس پر چڑھی ہوئی سرکشی کی کھال بھی کھینچنی چاہیے۔ ایسا کرنے کی صورت ہی میں قربانی کے مفہوم تک رسائی ہو سکے گی اور اللہ کا حق ادا کرنے کی طرف بڑھنے کی توفیق نصیب ہو گی۔

٭٭٭

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved