پاک چین سلک روڈ کی تعمیراتی رفتار تیزہورہی ہے‘ جس پر بھارت چاہ بہار کے ذریعے‘ وسطی ایشیا تک رسائی پانے کی خاطر بے تاب ہے۔ اس سلسلے میں 22ستمبر کو‘ تہران میں ایک نان سکرپٹ ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی۔ یہ خشکی کے راستوں کی دیکھ بھال اور ٹرانسپورٹائزیشن کی میٹنگ تھی جس میں بھارت ‘ایران اورافغانستان کے درمیان ‘ ٹرانزٹ ٹریڈ کوآپریشن کے قیام پر ایک بیوروکریٹک لاجسٹک کی فراخدلانہ تجاویز پر غور کیا گیا۔ ان میٹنگوں میں زیادہ زیربحث آنے والے اہم موضوعات ‘منظر عام پر نہیں آئے۔ ماہر تعمیرات محمد جاوید کے مطابق ‘ان میٹنگوںسے وہ سیاسی عمل دوبارہ حرکت میں آ گیا‘ جس کے سبب اقتصادی اور سیاسی عمل ‘جو کچھ عرصے کے لئے منجمد ہو گیا تھا‘ اب انتہائی تیز رفتاری سے حرکت پذیر ہو رہا ہے۔ نیا معاہدہ جنوری نئے سال میں ‘تیزرفتار تعمیراتی سرگرمیوں کا باعث بنے گا۔ اس ہمہ جہت منصوبے پر آنے والے چند مہینوں میں کام شروع کر دیا جائے گا۔ امریکہ اور اتحادیوں کے ساتھ‘ ایران نے جوہری معاہدہ مکمل کرنے سے پہلے بتا دیا تھا کہ وہ سڑکوں اور بندرگاہوں کی ترقی کے لئے‘ بامعنی اور بامقصد مذاکرات کا سلسلہ پہلے سے شروع کر چکا ہے۔ ایران میں بھارتی سفیر ڈی پی سری وستاوا اور ایران کے دیہی ترقی کے وزیر ‘وزیر عباس اخوندی نے 147ملین ڈالر سے ‘چاہ بہار پورٹ پر کنٹینر ٹرمینل کی تعمیر کے منصوبے کا انکشاف کیا تھا۔ غیرسرکاری حلقوں میں کہا گیا کہ یہ گلیشیئر کا ایک کونہ ہے۔ اس کے علاوہ بہت کچھ پانی کے نیچے ہے۔ یہ جلد ہی عمل درآمد کے مراحل کی شکل میں منظر عام پر آ جائے گا۔
چاہ بہار پورٹ کی ہمہ جہتی تعمیر میں‘ ایران کی دلچسپی عشروں پرانی ہے۔ پاکستان کے ساتھ طویل کشیدگی کے نتیجے میں‘ خشکی کے متبادل راستوں کے لئے کئی تجاویز مدتوں سے زیرغور تھیں۔ اس دور میں روس کو خیبرپاس کا آسان راستہ مشکل نظر آیا۔ ہر بار پاکستان اور بھارت میں اعتماد سازی کے اقتصادی رابطے اور سیاسی کشیدگی کے خاتمے کی کوششیں کی گئیں۔ بھارت نے خیبرپاس کے اس راستے کا متبادل ڈھونڈنے کے لئے ‘چاہ بہار پورٹ سے منسلک سڑکوںاور ریلوے لائنوں کا جال بچھانے کی تجویز سوچی۔ اس طرح سڑکوں کے راستے ‘چاہ بہار پورٹ کے راستوں کو کابل اور شمالی ملکوں سے گزار کر‘ بھارتی شہر ملاک (Milak)سے منسلک کر دیا جائے گا۔ افغانستان اورایران کے اندر ‘چاہ بہار پورٹ سے سڑکوں کے راستے مکمل ہو چکے ہیں‘ جو سارے بھارت نے تعمیر کئے۔بھارت نے 100ملین ڈالر کے خرچ سے‘ اس راستے کو ایران کے اندر زارنج اور مغربی افغانستان کی طرف ‘دل آرام شہر سے ملا دیا ہے۔ یہ سڑک قدیم قندھار ہرات ‘ہائی وے سے ہوتے ہوئے‘ باہر کی طرف ترکمانستان سے جا ملے گی۔ ایک ریل لنک ‘چاہ بہار کو ازبکستان کی سرحد سے جوڑے گا۔ خیبرپاس جیسے متعدد ‘درّوں سے گزرتے ہوئے ‘ریل کا یہ راستہ زیادہ تیزرفتار ہو جائے گا۔ اس کے نتیجے میں تجارتی سامان کی آمدورفت کے وقت میں کمی آئے گی اور چاہ بہارپورٹ ‘وسطی ایشیا اور روس کے اندر تک مربوط ہو کر‘ خشکی کے راستے کم کر دے گی۔یہی وہ سہولتیں ہیں‘ جو قدرت نے پاکستان کو عطا کر رکھی ہیں۔ لیکن سیاسی اور سٹریٹجک ضرورتوں نے پاکستان کو‘ اس عظیم سہولت کی اجارہ داری سے باہر کر دیا۔ پاکستان کو اس کے دیرینہ دوست چین نے‘ دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ‘متبادل راستوں کا ایک منصوبہ مکمل ہونے سے پہلے‘ پاک چین سلک روڈ کی تیزرفتار تعمیر شروع کر کے‘ ہمارے لئے وسیع اور جدیدتر سہولتیں مہیا کر دی ہیں۔ اس راستے کے فائدے چین‘روس‘ وسطی ایشیا اور یورپ تک پہنچیں گے۔ یہی خشکی کے وہ راستے ہیں ‘جو پاکستان قدرتی طور پر اس وسیع خطے کو مہیا کرتا ہے۔
ایران نے چاہ بہار سے سڑکوں اور ریلوں کے وسیع راستے‘ وسطی ایشیا اور یورپ تک لے جانے کے اس منصوبے کو 2002ء میں شروع کیا تھا۔ بھارت‘ ایران اور روس نے سڑکوں کے انتہائی وسیع پراجیکٹ کا جو منصوبہ تیار کیا تھا‘ اس میں ایران اور ایشیائی ریاستوں کو اقتصادی ترقی کا مرکز بنانے کا فیصلہ کیا گیاتاکہ مغربی مارکیٹوں کے لئے آبی راستوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔ خیال یہ تھا کہ آبی راستوں کی مجبوریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ خشکی کے یہ مختصر راستے اختیار کئے جائیں‘ جو ان علاقوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے زیادہ مفید رہیں گے۔ قدرت نے یورپ کی منڈیوں کو ایشیائی ملکوں سے مربوط کرنے کے لئے ‘خشکی کے جو مختصر راستے مہیا کرنے کے مواقع ہمیں دیئے تھے‘ وہ پاکستان اور بھارت کی طویل کشیدگی کے نتیجے میں‘ دنیا کے لئے مشکل ہوتے گئے۔ اسی بنا پر ایران نے اپنے آپ کو متبادل کے طور پر پیش کر کے‘ عملی طور پر چاہ بہار کی بندرگاہ اور اس کے ذریعے ریل اور سڑک کے مختصر اور تیزرفتار راستے تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا‘ جس کا ایک بڑا حصہ پایہ تکمیل کوپہنچ چکاہے۔ اب ان تعمیرشدہ راستوں کی پیوندکاری کے ذریعے ‘سارے نظام کو متحرک کیاجا رہاہے اور ساتھ ہی 147ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے ‘چاہ بہار پورٹ پر بھاری کنٹینروں کی سروس فراہم کرنے کی تعمیرات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ اندازہ ہے کہ یہ سروس گوادر سے پہلے یہاں پر شروع ہو جائے گی۔ یاد رہے ‘ جب یہ منصوبہ شروع ہوا تھا‘ تو مشرقی یورپ کی ریاستیں اور وسطی ایشیائی ممالک اس میں شامل تھے۔ ان سب کا مرکزی نکتہ چاہ بہار کی بندرگاہ تھی‘ جہاں سے سڑکوں اور ریلوں کے راستے روس کی طرف سے سنٹرل ایشیا اور یورپ کو براستہ آرمینیا اور آذربائیجان نکلنا تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ایشیا کے درمیان تجارتی رابطوں کے ذرائع میں اضافہ کیا جائے اور راستوں کی تعمیر کے اخراجات قابل ذکر حد تک کم کر دیئے جائیں۔ اس میں ہونے والی تجارت سے ایک تہائی سے بڑھ کر بچت ہونا تھی۔
ایشیائی ریاستوں اور یورپ کے صنعتی مراکز سے منسلک جو راستے ترقی پذیر دنیا کو میسر آئے تھے‘ وہ نوآبادیاتی مقاصد سے بنائے گئے تھے‘ جہاں سے نو آبادیوں کا خام مال یورپ کو برآمد ہوتاتھا اورتیار مال ترقی پذیر ملکوں کی منڈیوں کو بھیج کر ‘مہنگے داموں فروخت کر دیا جاتا تھا۔ کالونیوں کی نیم آزادی کے دور میں بھی یہی سلسلہ جاری رہا۔ٹرانسپورٹیشن کا قدیم سسٹم نئی ابھرتی ہوئی تجارتی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ناکافی تھا۔نئے آزاد تجارتی ماحول میں بھی یہی پرانا نظام سیاسی نعرے بازی کا موضوع بنا رہا۔اس دوران ترقی کے عمل میں جو تعطل پیدا ہوا‘ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران نے 2002ء میں‘ چاہ بہار کا جو عظیم منصوبہ تیار کیا تھا‘ وہ متعدد وجوہ کی بنا پر بروقت آگے نہ بڑھ سکا۔ جس کی سب سے بڑی وجہ‘ امریکہ اور یورپ کی طرف سے ایران کا تجارتی بائیکاٹ تھا۔ نئے ایٹمی معاہدے کے بعد‘ اس کی پابندیوں میں جزوی نرمی آئی ہے۔ چین‘ جس کی اپنی بڑھتی ہوئی درآمدی اور برآمدی ضروریات کے لئے‘ ایک مختصر اور کم خرچ تیزرفتار ٹرانسپورٹیشن سسٹم کی ضرورت تھی‘ نے سمندری اور خشکی کے راستوں کا ایک بہت بڑا جال‘ یورپ‘ ایشیا‘ امریکہ اور دوسری طرف سنگاپور اور ملائشیا کے سمندروں تک لے جانے کے ایک عظیم منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیاتاکہ ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان باہمی تجارت کی تیزرفتار سہولتیں مہیا کر کے‘ سب کو تیز رفتار ترقی کے مواقع مہیا کئے جائیں۔ یقینا چین کو اس میں سب سے زیادہ فائدہ ہے۔ یورپ کا تھکا ماندہ مالیاتی نظام جدید ضرورتوں کے تقاضے پورے کرنے میں سست رفتاری سے کام لیتا رہا‘جبکہ چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے‘ جس نے ترقی کی حیرت انگیز رفتار سے‘ سارے مالیاتی حریفوں کو پیچھے چھوڑنا شروع کر دیا۔ پاکستان کی جس خوش قسمتی کو‘ بھارت اور ایران نے مل کر ہتھیانے کی کوشش کی‘ چین نے تیزرفتاری سے قدم بڑھا کر‘ اُسے واپس پاکستان کی طرف موڑ دیا۔
اس وقت نیویارک میں جن طاقتوں کے باہمی مذاکرات اہمیت کے حامل ہیں‘ وہ روس‘ چین‘ امریکہ اور یورپ کے درمیان ہیں۔ پاکستانی وفد کی سفارتی سرگرمیاں محض نمائشی ہیں۔ ٹھوس اور نتیجہ خیز مذاکرات ‘دوسری طاقتیں ہی کر رہی ہیں اور سب کی نظریں اسی طرف ہیں۔ غور کیجئے! کوئی قابل ذکر ملک‘ پاکستان کے حکومتی نمائندوں کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کر رہاہے؟ پاکستانی ریاست کا استحکام جو کہ سلک روڈ کے نئے منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی صلاحیتیں رکھتا ہے‘ سب کی توجہ اسی طرف مرکوز ہے۔ ہماری اپنی ترقی‘ استحکام اور خوشحالی کا راستہ بھی یہی ہے اور ہمارا یہ ترقیاتی عمل اللہ کے فضل و کرم سے بھارت اور اس کے حلیفوں کی سازشوں سے محفوظ رہنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور طاقت بھی۔ ہماری مقامی سیاسی جماعتیں ملک کے استحکام میں کوئی کردار ادا کر سکیں‘ تو ان کی اپنی بھلائی ہے۔ نہیں کر پائیں گی‘ تو وقت جس نے پاکستان کو مستحکم اور خوشحال بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے‘ وہ اپنا کام کر کے رہے گا اور پاکستان کی یہ طاقت ‘ریاست کی اپنی طاقت ہے‘ جو حکومتوں کی آمدورفت سے متاثر نہیں ہو سکتی۔