عید الاضحی بھی بھاگ دوڑ کے کیسے منظروں سے بھری تھی؟ ایم کیو ایم کے رضاکار قربانی کی کھالیں لے کر بھاگ رہے تھے۔ ان کے پیچھے رینجرز کے سپاہی دوڑ رہے تھے۔ سپاہیوں کے پیچھے نشانے باز گولیاں چلا رہے تھے۔ بیل اپنی ادھ کٹی گردنیں لے کر بھاگ رہے تھے۔ قصائی اپنا معاوضہ اور مالکان قربانی کا مال بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے۔ ادھر تیزرفتاری سے چلتی ہوا اور بارش سے بچنے کے لئے خانہ کعبہ میں بھاگ رہے تھے۔ تعمیراتی مقاصد کے لئے لگی ہوئی کرین کے ٹکڑے حاجیوں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ حاجی ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ کچھ نے کچھ کو گرا دیا اور کچھ ان سے جانیں بچا کر بھاگ لئے۔ منٰی کے مقام پر حاجی‘ اپنا حج پورا کرنے کے لئے ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کے لئے بھاگ رہے تھے تاکہ سب سے آگے جا کر شیطان کو کنکریاں ماریں۔ شیطان تو کنکریوں کے زخموں سے بچ گیا‘ حاجیوں نے ایک دوسرے کو زخمی کر دیا۔ ان میں سے ان گنت گھر والوں کے لئے لاپتہ ہو گئے۔ سعودی حکام‘ زندہ بچ رہنے والوں ‘ زخمیوں اور لاشوں کو اٹھا کر بھاگ رہے تھے۔ کون ہسپتال میں پڑا ہے؟ کس کی لاش دیکھ بھال کے مراکز میں محفوظ ہے؟ یہ بات کوئی نہیں جانتا۔ جو دیار پاک میں جانیں دینے کا ارادہ لے کر سعودی عرب گئے تھے‘ کچھ پتہ نہیں جانیں دینے کے وقت وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہے تھے یا شکایت؟ جہاں تک لواحقین کا تعلق ہے وہ خادم حرمین الشریفین کے انتظامی امور کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔ دوسری طرف پاکستانی سفارتکار‘ سرکاری اہلکاروں کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ سرکاری اہلکار‘ زخمی اور بیہوش حاجیوں کو ان کے ساتھیوں سے چھپا کر بھاگ رہے تھے۔ عجیب منظر تھا۔ عجیب حج تھا۔
ہر سال حج کے موقع پر بڑے بڑے اجتماعات ہوتے ہیں۔ اللہ کی راہ میں قربانیوں پر تقاریر کی جاتی ہیں۔ غریبوں کے حالات پر جی بھر کے آنسو بہائے جاتے ہیں۔ جانور خرید کر اللہ کی راہ میں قربان کئے جاتے ہیں اور خریدوفروخت کے اس مال کو قربان کر کے‘ خیال کیا جاتا ہے کہ ہم اپنا مال اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی خریداری سے اللہ کا مال‘ خریداروں کا کیسے ہو گیا؟ اگر ہو بھی گیا‘ تو غریبوں کی یہ امانت ‘ ان تک پہنچنے کیوں نہیں دی جاتی؟ ایک زمانے میں قربانی کا مطلب بکروں کی قربانی ہوتی تھی۔ تب قریبی عزیزواقارب میں گوشت بانٹ کر ‘باقی غریبوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ پھیپھڑے غریبوں کے لئے رکھ دیئے جاتے۔ سری پائے غریبوں میں بانٹے جاتے۔ کھالیں غریبوں میں بانٹی جاتیں۔ پسلیوں کا گوشت غریب غربا کے لئے رکھا جاتا اور بعض گھروں میں تو صرف رانوں اور دستیوں کا گوشت رکھ کر‘ باقی تقسیم کر دیا جاتا۔ اب غریبوں کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ سب سے پہلے تو گھر والے گوشت کا ہر ٹکڑا مختلف ضروریات کے تحت تقسیم کر کے‘ فریزروں میں رکھ لیتے ہیں۔ کھالیں سیاستدان‘ دہشت گرد اور نمائشی مدرسے لے اڑتے ہیں۔ قربانی کی کھالوں پر گولیوں سے مقابلے ہوتے ہیں۔ کھالیں سب جمع کرتے ہیں۔ سب کہتے ہیںکہ ہم غریبوں کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ لیکن وہ کھالیں غریبوں تک کیسے پہنچتی ہیں؟ کہیں گولیوں کی صورت میں۔ کہیں گرفتاریوں کی صورت میں۔ ایم کیو ایم والے کہتے ہیں‘ ہماری کھالیں چھین کر ہمارے ہسپتال بند کرائے جا رہے ہیں۔ خدا جانے قربانیاں دینے والے‘ ایسے کام کرنے والوں کو کھالیں کیوں دیتے ہیں؟ عبدالستار ایدھی اور متعدد خیراتی ادارے حتیٰ کہ جماعت اسلامی نے بھی کبھی قربانی کی کھالیں چھیننے کے لئے گولیاںنہیں چلائیں۔ ہم لوگ تو کیمپوں میں خودپہنچ کر کھالیں رکھ آیا کرتے تھے اور وہ ان کھالوں کو بیچ کر اپنے اپنے فلاحی ادارے چلایا کرتے تھے۔ اب بھی ایسا ہوتا ہے۔ صرف ایم کیو ایم والوں کے فلاحی ادارے ان قربانی کی کھالوں سے چلتے ہیں اور کھالوں سے محروم ہو کے یوں واویلا کر رہے ہیں‘ جیسے رینجرز نے ان سے غریبوں کا مال چھین لیا یا شاید ان کی اپنی روٹی چھین لی۔ غریبوں کا مال لٹنے پر تو اتنا کوئی نہیں روتا۔ یقین نہیں آتا کہ اللہ کی راہ میں کی گئی قربانیوں کی کھالیں لینے والوں کو پکڑا کیوں جاتا ہے؟ اور وہ پکڑنے والوں پر گولیاں کیوں چلاتے ہیں؟
اب آیئے! غریبوں کے اصل حق یعنی قربانی کے گوشت کے انجام کی طرف۔ اب اس گوشت تک غریبوں کی رسائی نہیں رہ گئی۔ تجارتی نظام نے‘ غریبوں کی ہر چیز چھین لی ہے۔ جن لوگوں کے گوشت کے لئے فریزروں نے جگہ دینے سے انکار کر دیا ہوتا ہے‘ وہ غریبوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ اس بار کڑاہی تکہ والوں نے یہ سہولتیں فراہم کر دیں کہ صرف گوشت لایئے اور کڑاہی تکہ ہم سے بنوا لیجئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر کسی نے 300روپیہ دے کر ایک کلو کڑاہی بنوا لی۔ گویا قربانی کی کھالوں کے لئے بلاوجہ گولیاں چلانے والوں کو پتہ ہی نہیں تھا کہ انہیں ایک کھال پر اتنے پیسے نہیں ملیں گے‘ جتنے پیسے ایک کڑاہی تکے والے نے ایک بکرا پکا کر اڑا لئے۔ ایک بکرا بہت کم ہے۔ جتنے بڑے کڑاہی تکے والے تھے‘ انہوں نے دس دس بیس بیس بکرے پکائے اور ہزاروں لاکھوں روپیہ کما لیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کھالیں جمع کرنے والے کتنا کماتے ہیں؟ اتنا تو ضرور ہے کہ ان پر گولیاں چلتی ہیں۔ ایسا ہی رہا تو آنے والے ایک دو سالوں میں کڑاہی گوشت والوں کے درمیان بھی گولیاں چلا کریں گی۔
اللہ کے نام پر جو کچھ ہوتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں‘ وہ تو کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آیا تھا۔ اب تو بے گناہ انسانوں کو ہلاک کرنے کے لئے خودکش بمبار تیار کئے جاتے ہیں۔ انہیں تیار کرنے کے لئے چندہ جمع کیا جاتا ہے۔ وہ جا کر مسجدوں‘ امام بارگاہوں‘ مارکیٹوں‘ ہسپتالوں اور سکولوں میں بم دھماکے کرتے ہیں۔ بے گناہوں پر گولیاں چلاتے ہیں۔ خود بھی ''شہید‘‘ ہوتے ہیں‘ بے گناہوں کو بھی شہید کرتے ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کی راہ میں ہوتا ہے۔ خودکش بمبار بھی قربانی دیتے ہیں۔ ان کی گولیوں کا نشانہ بننے والے بھی قربان ہوتے ہیں۔ خودکش بمباروں کو گرفتار کرنے والے فوجی اور سپاہی اپنی جانیں قربان کرتے ہیں‘ تو ہم انہیں شہید کہتے ہیں اور جن خودکش بمباروں کو وطن کے غازی ہلاک کرتے ہیں‘ انہیں ان کے کمانڈر شہید قرار دیتے ہیں۔ یہ ملک بھارت میں مسلمانوں کو تباہی اور ہلاکتوں سے بچانے کے لئے امن کی خاطر قائم کیا گیا تھا۔ ہم کافروں سے جانیں بچا کر یہاں آ گئے۔ ہم نے اپنی سرزمین کو کافروں سے پاک کر لیا۔ اب کافر آسانی سے نہیں ملتے۔ مومن کثرت سے دستیاب ہیں۔ ہم انہیں ہلاک کر کے‘ ثواب دارین کمانے کا سلسلہ برقرار رکھنے پر مجبور ہیں۔ یہ ملک قربانیوں سے بنا تھا۔ قربانیوں سے قائم ہے اور قربانیوں پر ہی قائم رہے گا۔ قربانی کی کھالوں سے کاروبار چلیں گے۔ مدرسے چلیں گے۔ خودکش بمباروں کی فیکٹریاں چلیں گی۔ ہماری ہر سرگرمی کی بنیاد قربانی ہے۔ قربانی‘ قربانی‘ قربانی۔ اللہ کو پیاری ہے قربانی۔