تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     28-09-2015

اسے ایڑیاں رگڑنے دے

ملک کے اندر کھوتا گوشت سے سستے تندور تک۔کھانسی شربت سے دل کی دوائی تک۔پاور پروجیکٹ سے میٹرو ترقی تک۔ نابیناؤں سے لیڈیز ٹیچر تک دھوم مچا نے والی جمہوریت نے اسی کارکردگی کی دھوم حج میں بھی مچا دی۔حکومتی سطح پر نالائقی اور اداروں کی ناکامی کی حد ۔رحم یا خدا رحم،بزرگ،بچوں سمیت سفر کرنے والی حاجی خواتین پیروں میں چھالے اور ہونٹوں پرنالے۔40ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد گرمی میں منیٰ سے مکہ تک آٹھ کلو میٹر کا سفر پیدل ،ایڑیاں رگڑر گڑ کر۔حالانکہ اس سفر کے لیے حج پیکج میں ٹرانسپورٹ کے نام پر ریال علیحدہ بٹورے جاتے ہیں۔ریال بٹورنے کی مشین ہماری وزارتِ حج و اوقاف عرف مذہبی امور کے سارے بڑے جدہ اور مکہ کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں ٹھہرے ،لیکن موبائل ٹیلیفون تک بند رکھے ۔حاجن اور حاجی تو ایک طرف میڈیا بھی رسائی کے لیے ترستارہا۔
کون نہیں جانتا کہ حج کا اجتماع مختلف رنگ،نسل،عمر ،صحت ،تندرستی ،کمزوری و ناتوانی اور جوانی کا ایک خوبصورت امتزاج ہوتا ہے ۔ساری دنیا کے حاجی اپنی علیحدہ علیحدہ شناخت ،علم،معلم اور تربیت یافتہ عملے کے ذریعے کرواتے ہیں۔ہمارا حج‘ بیوروکریسی کی ذمہ داری ہے جس میں وفاقی وزیر کی حیثیت ویسی ہی ہوتی ہے جیسی ماڈل ٹاؤن کے ملزموں میں گلو بٹ کی ۔
حج ایک ایسا فریضہ ہے جس کے لیے چند شرائط لازمی ہیں۔ جن میں جائز ذرائع سے کمائی ہوئی رقم،قرض سے آزادی‘ماں باپ کی اجازت‘اگر وہ بہت ہی بزرگ ہوں تو ان کی سہولت کے انتظامات بھی‘ پھرراستے اور سفر کی مشکلیں سہہ جانے کے قابل صحت اور حج کا محفوظ راستہ وغیرہ شامل ہیں۔ ریاست ہر سال حاجیوں کے ساتھ حج کا معاہدہ کرتی ہے۔ آدھے حاجی اس معاہدے کے تحت حج کرنے کے لیے ایڈوانس پیسے سرکار کے پاس جمع کرادیتے ہیں ۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ اب وہ سفری ،انتظامی ، رہائش ،خوراک وغیرہ جیسے مسائل کی قیمت ادا کر کے آزاد ہو گیا۔پچاس فیصد حاجی پرائیویٹ کمپنی نما اداروں کی کفالت میں چلے جاتے ہیں ۔جہاں ادا شدہ رقم کے مطابق حج کی سہولتوں میں درجہ بندی ہے ۔عام حج سے لے کر خاص وی آئی پی اور وی وی آئی پی حج تک۔
تاریخی طور پر ایک سے زائد مرتبہ مختلف علاقوں سے آنے والے حجاج کرام کی آمد میں خلل بھی پڑا۔اس کی وجوہ بحری قزاق،صحرائی ڈاکو اور حج کے قافلے لوٹنے والے منظم گروہ اور کبھی کبھی معاندانہ ریاست ‘حکومت یا بادشاہ بھی بنے۔سعودی عرب کے موجودہ حکمرانوں نے بہت بڑے پیمانے پر نہ صرف حج کے راستے محفوظ کیے بلکہ حاجیوں کے لئے اعلیٰ انتظامات بھی۔پھر یہ بھی طے شدہ حقیقت ہے کہ جتنے بڑے پیمانے پر مخصوص مقامات پر مناسک ادا کرنے کے لیے ایک ہی طے شدہ وقت پر جتنا بڑا اجتماع حج کے موقع پر ہوتا ہے اس کی کوئی دوسری مثال کرۂ ارض پر نہیںملتی۔اس کے باوجود کچھ ضروری کاموں کی طرف متعلقہ اداروں کی توجہ چاہیے جو یہ ہیں۔
نمبر ایک:حج کرنے والے معلم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک تو میزبان ملک کی سرکاری کمپنی والے۔دوسرے حجاز کے وہ خاندان جن کے باپ دادا اَن گنت صدیوں سے حرم کعبہ شریف کے مہمانوں کی راہ نمائی کرتے آئے ہیں۔یہ اشرافِ مکہ انتہائی بے نام سی اُجرت کے عوض عظیم خدمت انجام دیتے ہیں۔ٹھیکے پر چلنے والی کمپنی اور عرب روایت پر چلنے والوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔عرب بادشاہتیں آج کل کمرشل ریاستوں کا روپ دھار چکی ہیں۔سرکاری معلمین والی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔اسی لیے عرب اداروں سے مذاکرات کی خاطر ان امور کے ماہرین کو سرکاری وفود میں شامل کرنا حاجیوں کے لیے فائدہ مند ہو گا۔
نمبر دو:دنیا بھر میں حج کی تربیت کا یکساں سلیبس ہونا چاہیے تاکہ منیٰ ،مزدلفہ،حرم کعبہ ،عرفات یا جمراد پہنچ کر حاجی ایک طرح کے عمل اور ردِ عمل کا مظاہرہ کریں۔شیطان کو کنکریاں مارتے وقت بھگڈر کا حالیہ سانحہ صدی کا المناک ترین واقعہ ہے‘جس کے حوالے سے کئی مؤقف سامنے آئے۔ایرانی حاجیوں کی طرف سے گیٹ توڑنا۔افریقی حاجیوں کی جسمانی زور آوری۔حج کے ہدایت نامے کی خلاف ورزی۔یہ وہ چند وجوہ ہیں‘جن کی نشاندہی عرب میڈیا نے کی، سعودی وزیر صحت نے بھی حاجیوں کو ہی اس سانحے کا ذمہ دار قرار دیا۔وجہ کوئی بھی ہو یہ طے ہے کہ یہ بہت بڑا انسانی المیہ رونما ہو ا،جس میں اشخاص کے بجائے اداروں کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔ بہر صورت یہ واقعہ انتظامی و ادارہ جاتی ناکامی ہی کہلائے گا۔حج و عمرہ کے امور اور زائرین کی سہولت کے لیے حج عمرہ ڈویژن علیحدہ بننا چاہیے۔اس وقت بظاہر مذہبی امور کی وزارت نے کئی ٹوپیاں پہن رکھی ہیں‘جس کے لیے بیوروکریسی کی نہ تو باقاعدہ تربیت ہے۔ نہ ہی اس کا کوئی ویژن یا سرکار کے پاس روڈ میپ۔مثلاََ مذہبی ہم آ ہنگی اوقاف کی جائدادیں اور حج یا عمرہ بالکل علیحدہ علیحدہ دنیائیں ہیں‘جن کو سنبھالنے کے لیئے جز وقتی ،تکا یا اٹکل پَچو نہیں چل سکتا اس کے لیے کل وقتی تربیت یافتہ عربی دان بریگیڈ کی ضرورت ہے۔
اس سانحے کے حوالے سے حکمران برادرز نے حسبِ سابق اپنا کردار بیان بازی تک محدود رکھا۔نہ کوئی مکہ کے ہسپتالوں تک پہنچا‘ نہ ہی خادم حرمین شریفین تک۔اس موضوع پر فرقہ وارانہ سیاست کرنے والے سیاسی مولوی حضرات بھی اس انسانی المیے سے قطعاََ بے تعلق نظر آئے۔چاہیے تو یہ تھا کہ چیچنیا اور بوسینیا جیسے دور دراز علاقوں میں مسلمانوں کی خدمت کے دعویدار مکہ پہنچ جاتے اور دل کھول کر چندہ دینے والے حاجیوں کی خدمت کرتے۔
با ت ہو رہی تھی وزیراعظم کی۔ موصوف نے لندن اور امریکہ یاترا کو اپنی ترجیح بنائے رکھا ۔چاہتے تو سرکاری جہاز پر چند گھنٹے کے لیے سانحے کے زخمیوں کو دیکھ جاتے۔ایسی ترجیح پر شاعر نے کہا تھا:
سُدھارمیں شیخ کعبہ کو،ہم انگلستان دیکھیں گے
وہ دیکھیں گھر خدا کا، ہم خدا کی شان دیکھیں گے
وزیراعظم ہاؤس کا میڈیا سیل یہ کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوگیا کہ وزیراعظم نے سانحہ منیٰ کا نوٹس لے لیا ہے۔قوم سمجھنا چاہتی ہے نوٹس کا مطلب کیا ہوا۔؟کیا نواز شریف قُم باذن اللہ پڑھ کر کفن پھاڑ ڈالیں گے یا زخمیوں کے لیے امریکی مرہم خرید لائیں گے یا غمزدہ خاندانوں کو سکاٹش انگریزی سکھائیں گے۔ابھی تک وزیراعظم کی پسندیدہ وزارت خارجہ کو یہی پتہ نہیں چل سکا کہ ہمارے کتنے حاجی غائب ہیں اور کتنے شہید۔بڑے میاں کو دیکھ کر چھوٹے میاں کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں ۔ڈینگی سے ہلاک ہونے والی پوٹھوہار کی پہلی خاتون کی موت کا نوٹس خادم اعلیٰ نے لیا۔میٹرو بس کے سائے تلے بینظیر ہسپتال میں خاتون کئی دن ایڑیاں رگڑتی رہی۔کوئی خادم ادنیٰ بھی اس کی داد رسی کے لیے نہ پہنچا۔ مظلوم پوٹھوہار ی خاتون ایڑیاں رگڑتے رگڑتے حاکم اعلیٰ کے حضور پہنچ گئی۔پوٹھوہار کے لوگوں کو کم ازکم خادم اعلیٰ کا ایک پسندیدہ مصرع تو سمجھ آ گیاع
وطن کی مٹی'' اِسے‘‘ ایڑیاں رگڑنے دے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved