تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     28-09-2015

سرمایہ دارانہ نظام کے منفی پہلو

گزشتہ تین دن کے دوران سامنے آنے والے مالیاتی سقم ، جس میں دنیا کی سب بڑی کارساز کمپنی وولکس ویگن (Volkswagen)کے شیئرز کے نرخوں میں34فیصدکمی دیکھی گئی، ہماری آنکھوں کے سامنے جدید سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ جرمن انجینئرنگ کی قابل ِ فخر علامت، یہ کمپنی منہ کے بل گرتی دیکھی گئی کیونکہ اس نے ماحولیاتی ریگولیٹرز اور اپنے امریکی گاہکوں کو چکما دینے کی کوشش کی۔ بہت سے لوگ اس سوچ میں پڑگئے ہیں کہ مارکیٹ میں اس قدر اونچی قدر رکھنے والی اس کمپنی کو اتنے گھٹیا اور خفیہ طریقے کیوںاختیار کرنے پڑے۔
اس سوال کے جواب کے لیے اُنہیں بہت دور دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ بینکوں، پٹرولیم کمپنیوں اور ادویہ ساز فرموں کو دیکھ لیں کہ ان کو بھی گزشتہ چند ایک برسوں کے دوران غلط امور کی پاداش میں بھاری جرمانے کیے جاچکے ہیں۔ بینکوں کو کئی مرتبہ Libor ریٹس (لندن کے اہم بینکوں کی اوسط شرح سود) فکسنگ سے لے کر کرنسی ایکسچینج کے نرخوں کو اپنی مرضی کے مطابق طے کرنے تک، بہت سے منفی امور کا ارتکاب کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا جاچکا ہے۔ جب بھی وہ پکڑے گئے اور اُن پر جرمانہ کیا گیا تو اُن کے باس یہی کہتے سنے گئے کہ وہ اپنے سٹاف کے اس ایکشن سے واقف نہ تھے، اور وہ آئندہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان غلطیوں کا اعادہ نہ ہو۔ تاہم غلطیوں کا ایسا سلسلہ رکنے میں نہیں آتا۔ 
وولکس ویگن کے چیف ایگزیکٹو، مارٹن ونٹر کورن(Martin Winterkorn)یہ تسلیم کرتے ہوئے اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے کہ ان کی کمپنی نے کیلیفورنیا کے آلودگی چیک کرنے والے آلہ جات کو دھوکہ دینے کے لیے گیارہ ملین ڈیزل کاروں میں defeat device لگائی تھی۔ تاہم اُن کا اصرار تھا کہ اُنہیں اس ڈیوائس کے بارے میں کچھ علم نہ تھا۔یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اتنی بڑی کمپنی کا سی ای او یہ نہیں جانتا تھا کہ اُس کی کمپنی کس دھوکہ دہی کی مرتکب ہورہی ہے تو اُسے نااہلی کی بنیاد پر برطرف کردینا چاہیے۔ یہ تصور کرنا بھی دشوار ہے کہ اتنی کثیر تعداد میں ایسا سافٹ ویئر مقامی مینیجرز نے اپنی مرضی سے انسٹال کرلیا تھا ۔ 
اسی طرح بڑے بڑے ناموں والے ٹاپ رینکنگ بینک بھی اربوں ڈالر کے سقم کو اپنے ماتحت سٹاف کی غلطی کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اگراُن کے ''ماتحت سٹاف‘‘ کی وہ غلطی نہ پکڑی جاتی تو ان بینکوں کے بگ باسز کے اکائونٹس میں بھاری رقوم منتقل ہوتی رہتیں ۔ دراصل یہ وہ منافع ہے جو موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اُن افراد کے لیے رکھتا ہے جو بظاہر سیدھے رخ پر چلتے ہوئے الٹے ہاتھ سے کچھ بھی جیب میں ڈالنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ مالیاتی کارپوریشنز اپنے سینئر ایگزیکٹوز کو کمپنی کے شیئرز میں حصہ دیتی ہیں، چنانچہ بھاری بھرکم تنخواہ لینے والے افراد اُس کمپنی کو جائز منافع کے علاوہ بھی بھاری رقم کما کر دیتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اکثر قانون شکنی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں لیکن وہ پکڑے نہیں جاتے ۔ درحقیقت جس طرح کے مالیاتی سکینڈلز میں آج کل بینک ملوث ہیں، اس کے سامنے بی سی سی آئی سکینڈل ایسا ہی تھا جیسے کوئی بچہ ٹافیاں چراتے ہوئے پکڑا جائے۔ 
بہت سی کمپنیاں، خاص طور پر جدید آئی ٹی کمپنیاں اپنا منافع تقسیم نہیں کرتیں۔ وہ سوچتی ہیں کہ شیئرپرائس ہی سرمایہ کاروں کے لیے کافی ہے۔ان کے نفع کا حجم بڑھتا رہتا ہے اور اس نفع سے وہ دوسری کمپنیاں خرید لیتے ہیں۔ آج ایپل کمپنی دوسو بلین ڈالر کیش کا عظیم ڈھیر رکھتی ہے۔ دوسری ڈاٹ کام فرمز بھی اس کے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں شریک ہیں۔ دی اکانومسٹ نے میک کنزی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ 1980 ء سے لے کر 2013 ء کے درمیان کارپوریٹ سیکٹر کا منافع تین گنابڑھتے ہوئے عالمی جی ڈی پی کا دس فیصد ہوچکا ہے۔ اسی دوران ان فرموں کے ایگزیکٹوز کی تنخواہوں میں ہوشربا حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں ماتحت عملے کی تنخواہ میں زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔ اس عدم مساوات نے صنعتی ممالک میں غصے بھرے جذبات بھڑکادیے ہیں۔ بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاست دان اس ناانصافی پر آوازبلند کرتے ہوئے اپنی مقبولیت میں اضافہ کررہے ہیں۔ برطانیہ میں جرمی کوبین اور امریکہ میں برنی سینڈرس سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کو اپنے سیاسی بیانیے کا حصہ بنا کر مقبولیت حاصل کررہے ہیں۔ دوسری طرف مرکزی سیاست دان، جو ملٹی نیشنل کمپنیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں،کوسرمایہ دارانہ نظام کے اس پہلو پر کوئی پریشانی نہیں۔ انھوں نے 2008 ء کی کساد بازاری کابھی جواز پیش کیا تھا حالانکہ اس کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر بے روزگاری دیکھنے میں آئی تھی ۔ایسی کثیر ملکی کمپنیوں، جیسا کہ ایمزون (Amazon)کی کہانیاں بھی منظر عام پر ہیں جو منافع تو برطانیہ میں کماتی ہیں لیکن ٹیکس سے بچنے کے لیے اپنی سیل آئرلینڈ میں ظاہر کرتی ہیں‘اس سے اُن افراد کا طیش میں آنا فطری امر ہے جو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ 
اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کا مقصد یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت کما لی جائے لیکن کبھی اس پر حکومتوں کا کنٹرول ہوا کرتا تھا۔ اس کے علاوہ کمپنیاںاپنی ساکھ کا بھی بہت خیال رکھتی تھیں۔ وہ ایسا کوئی بھی کام کرنے سے گریز کرتی تھیں جن سے اُن کی نیک نامی پر حرف آئے۔ اُن میں کام کرنے والا سٹاف برس ہا برس تک اُن میں کام کرتا اور اس پر فخر کرتا۔ اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو با قاعدگی سے منافع میں سے حصہ دیا جاتا۔ تاہم اب یہ روایت ختم ہوتی جارہی ہے۔اب بگ باس بھاری مشاہرے پر کام کرتے ہیں جبکہ مزدور یونینز کمزور پڑنے سے مزدوروں کی طاقت کم ہوتی جارہی ہے۔ چونکہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں، اس لیے اُن کی طرف سے تنخواہوں یا مراعات میں اضافے کے مطالبے میں جان نہیں رہی ۔ اس کے علاوہ کمپیوٹر ، روبوٹ اور خود کار مشینوں کی وجہ سے ملازمت کے مواقع بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ اس لیے محنت کش طبقہ مطالبہ کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے کہ مبادا اُسے گھر کی راہ دکھادی جائے۔ 
دوسری طرف ان کمپنیوں کے باس اور سی ای اوزکی زندگی شاہانہ ہوتی جارہی ہے۔ بہت سے سے سی ای اوز ارب پتی بن چکے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بڑی بڑی کمپنیاں بھاری نفع کمارہی ہیں لیکن وہ اپنے بڑھتے ہوئے منافع کو اپنے کارکنوں کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب برطانیہ کے چانسلر جارج اوسبرون نے اعلان کیا تھا کہ گزشتہ بجٹ میں حکومت کم از کم تنخواہوں میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے تو کمپنی مالکوں نے چیخ وپکار شروع کردی۔ دبے الفاظ میں دھمکی بھی دی گئی کہ اگر حکومت نے کوئی ایسا قدم اٹھایا تو اُسے بے روزگاری کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ کمپنیاں تنخواہیں بڑھنے کا بوجھ کم کرنے کے لیے اپنے بہت سے ملازموں کو برطرف کردیں گی۔ 
تاہم کارپوریٹ سیکٹر کی زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کی ہوس نئی نہیں۔ اس سے پہلے انیسویں صدی میں ہم نے ''ڈاکو نواب ‘‘ دیکھے تھے جو ملازموں کا خون چوس کر دولت مند ہوتے جاتے تھے ۔ ہم سرمایہ داروں اور محنت کشوں کے درمیان تصادم بھی دیکھ چکے ہیں۔ تاہم دنیا کی آبادی میں اضافے کی وجہ سے افرادی قوت بہت بڑھ چکی ہے۔ چین کی معیشت کے پھیلائو نے عام افراد کی حالت بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے لیکن موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کی افادیت پر کڑے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ اگر معیشت کو کنٹرول کرنے والوںنے ان سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب تلاش کرنے کی زحمت نہ کی تو آنے والے برسوں میں ہم دنیا میں بہت سی تبدیلیاںدیکھیں گے۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved