تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     28-09-2015

ہجومِ مومنین

سیلاب کی وارننگ دے دی گئی، لوگوں کو بتا دیا گیا کہ ہیوسٹن کا شہر خالی کرنا ہوگا۔
گاڑیوں کے قافلے نکلے اور اس شاہراہ پر ہو لئے جوڈلاس کو جا رہی تھی۔ نزدیک ترین شہر وہی تھا۔ عام طور پر یہ چار گھنٹوں کا سفر تھا مگر جب ہیوسٹن کا سارا شہر ڈلاس کو چل پڑا تو پہنچنے میں تیس گھنٹوں سے بھی زیادہ وقت لگا۔ تیس پینتیس گھنٹے تک کئی لاکھ گاڑیاں شاہراہ پر رہیں۔ چیونٹی کی رفتار سے رینگتی، کبھی پہروں رکتی، کبھی چند انچ آگے بڑھتی رہیں، مگر عینی شاہد بتاتا ہے کہ کوئی لڑائی جھگڑا نہ ہوا، دو آدمیوں کے درمیان تلخ کلامی نہ ہوئی، کسی نے آواز بلند نہ کی، کسی نے لین سے نکل کر آگے بڑھنے کی کوشش نہ کی، کسی نے کسی کا راستہ روکنے کے لئے گاڑی اچانک ایک طرف نہ موڑ لی۔ چیونٹی کی رفتار سے چلتے، سب اپنی منزل پر پہنچ گئے۔
اب دوسرا منظر دیکھیے۔ ریاض الجنہ میں کھڑے ہیں۔ تل دھرنے کی جگہ نہیں! مومنین صبح سے بیٹھے ہیں۔ نفل پر نفل پڑھے جا رہے ہیں مگر ہٹنے کا نام نہیں لیتے۔ سامنے پانچ زبانوں میں ہدایات لکھی ہیں۔ سب سے اوپر اردو میں ہیں کہ دو نفل ادا کیجیے اور پھر دوسرے بھائی کو جگہ دیجیے۔ کوئی ان ہدایات کو پڑھتا ہے نہ عمل کرتا ہے۔ منظر وہ ہے کہ ع 
تری باہیں مری باہیں، مری باہیں تری باہیں 
کوئی کسی کی بغل چیر کر سجدہ کر رہا ہے‘ کوئی تشہد بیٹھنے کے لئے پورا زور لگا رہا ہے اور کوئی کسی کی بانہوں میں گھس کر رکوع کر رہا ہے۔
حج جو نظم و نسق اور سیلف ڈسپلن کے حوالے سے اسلامی عبادات کا سرتاج ہے‘ آج مسلم امّہ کے لئے شرمساری کا باعث بن گیا ہے۔ زائرین کی عظیم اکثریت ناخواندہ اور اکھڑ افراد پر مشتمل ہے۔ دنیا کا علم تو دور کی بات ہے، خود دین کے علم سے ناواقف ہے۔ خدا نے اپنی کتاب میں حکم دیا: 
''اپنے رب کو زاری کے ساتھ اور آہستہ آواز میں (خفیہ) پکارو‘‘۔ مگر گروہوں کے گروہ خوب بلند آواز سے مناجات اور دعائیں پڑھتے ہیں۔ جو لوگ دل میں یا زیرلب دعا کرنا چاہتے ہیں، اس قدرڈسٹرب ہوتے ہیں کہ اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں۔ عمرہ کو لے لیجیے، عمرہ کے آخر میں دو نفل مسجد میں کہیں بھی ادا کیے جا سکتے ہیں، مگر ہر شخص ایک مخصوص جگہ پر ہی ادا کرنا چاہتا ہے‘ یہ سمجھے بغیر کہ لاکھوں افراد کے لئے ایسا ممکن نہیں! حجر اسود کا معاملہ لے لیجیے۔ دین کا تقاضا ہرگز یہ نہیں کہ آپ ضرور بوسہ دیجیے۔ ناشائستگی اور چھینا جھپٹی کو روکنے کے لئے ہی تو ہدایت کی گئی کہ دورسے اشارہ کرلو۔ مگر ہم میں سے ہر شخص نے وہ روح فرسا منظر دیکھا ہے‘ کس طرح لوگ دوسروں کے لئے عذاب بن کر، ہجوم کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ کس طرح خواتین کے سر سے نقاب اور دوپٹے اترتے ہیں۔ کس طرح شرطہ ہجوم کو پیچھے دھکیل کر اپنی بے بسی کا اظہار طاقت سے کرتا ہے۔ اس ساری تگ و دو کے بعد... جو حج کا مقصود ہے نہ مطلوب اور جس سے منع کیا گیا ہے، لوگ فخر سے بتاتے ہیں کہ ''میں بوسہ دینے میں کامیاب ہوگیا!‘‘۔
یہی حال مسجد نمرہ میں ہے۔ چالیس لاکھ زائرین آخر کس طرح مسجد کے اندر سما سکتے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پروردگار اپنے بندوں کو ہلاکت میں ڈالے۔ اس نے تو فرما دیا کہ کسی نفس کو اس کی سکت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دی جاتی! پھر وہ کام ثواب یا افضلیت کے نام پر کیوں کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں مسلمانوں کو تکلیف ہو اور نتیجہ ہلاکتوں تک جا پہنچے!
سعودی عرب میں مقیم، دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مسلمانوں کو معلوم ہے کہ ہر سال حج کرنے سے انہیں منع کیا گیا ہے، مگر وہ اس قانون کو پائوں تلے روندتے ہیں! ان کے لئے خیمے ہیں نہ گنجائش، سامان سروں پر دھرے حج کرتے ہیں، مرتے ہیں اور مارتے ہیں!
پھر کچھ ممالک کے حجاج اس طرح حج ادا کرتے ہیں جیسے وہ کسی لشکر کا حصہ ہوں۔ سعودی عرب کی مخالفت اپنی جگہ مگر حج کے دوران اپنا تشخص نمایاں کرنے کے لئے انتہا درجے کی جارحانہ نقل و حرکت، دستوں کی صورت میں پوری پوری شاہراہوں پر قبضہ اور لاکھوں مسلمانوں سے الگ نظر آنے کی کوشش جس کے ڈانڈے نفسیاتی عارضے سے جا ملتے ہیں، کوئی پسندیدہ رویّہ نہیں ہے۔ کئی بار حج کے موقع کو علاقائی سیاست چمکانے کے لئے کوششیں کی گئیں۔ یہ الگ بات کہ انتظامیہ کی چابک دستی نے ان کوششوں کوناکام بنا دیا۔
اس دلیل میں خاصا وزن ہے کہ منیٰ اور دوسرے مقامات پر متعین پولیس، حجاج سے ان کی اپنی زبان میں نہیں بات کرتی۔ مگر کیا ایسا ممکن ہے؟ سینکڑوں زبانیں بولنے والے حجاج، ایک دوسرے سے خلط ملط ہوکر مناسک ادا کرتے ہیں۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ زبانوں کے حساب سے پولیس کے شرطوں کی تعیناتی ہو۔ ہر لحظہ مسلسل نقل و حرکت کے دوران صرف خواندگی، تربیت، اور شائستگی کام آ سکتی ہے۔ کچھ رپورٹیں یہ بھی کہہ رہی ہیں کہ کسی وی آئی پی کی آمد بد انتظامی کا باعث بنی۔ اگر ایسا ہوا ہے تو قابل مذمت ہے!
اگر ہم اپنے محلے کی مسجد کو بنیادی آلہ پیمائش (بیرومیٹر) قرار دیں تو آسانی سے سمجھ جائیں گے کہ حج کے موقع پر کیا ہوتا ہے۔ نماز جمعہ کو لے لیجیے۔ ہر بار مولوی صاحب اعلان کرتے ہیں کہ پہلے آگے کی صفیں پُر کیجیے۔ آپ لوگوں کو پھلانگتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں تو یہ دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ اگلی صفیں خالی ہیں اور پیچھے لوگ تنگ ہوکر، ایک دوسرے سے پیوست بیٹھے ہیں! وضو خانہ کیا ہے۔ کیچڑ اور پھسلن کا گڑھ ہے۔ برابر میں بیٹھے صاحب جو وضو کر رہے ہیں، منہ پر پانی اتنے جوش اور اس قدر زور سے مارتے ہیں کہ چھینٹے آپ پر پڑتے ہیں۔ ایک اور صاحب وضو کرکے مرمر کی سل پر کھڑے ہیں اور چہرے کا پانی انگلیوں سے نچوڑ کر بازو اس طرح ہلاتے ہیں کہ نتائج دور تک جاتے ہیں۔ نماز پڑھ کر باہر نکلتے ہیں تو آپ کی گاڑی کے عین پیچھے کسی اور کی گاڑی لگی ہے اور نہیں معلوم یہ صاحب کب مسجد سے نکلیں!
اس تمام صورت حال کو مذہب سے یا اسلام سے جوڑنا پرلے درجے کی ناانصافی ہے۔ جو کچھ ہمارے ہاں شادیوں پر ہوتا ہے، جس طرح سڑکوں پر ٹریفک لاقانونیت کی مثال بنی ہوئی ہے‘ جس طرح دکان کے کائونٹر پر آپ سے پیچھے کھڑا گاہک ہاتھ بڑھا کر دکاندار کو آپ سے پہلے سو روپے کا نوٹ پکڑانے کی مکروہ کوشش کرتا ہے، اس میں مذہب کا کیا عمل دخل ہے؟ اگر اس بد نظمی اور حیوانیت کا ذمہ دار مذہب ہوتا تو حج کے موقع پر ملائیشیا، ترکی اور ایران کے حاجی بھی ایسا ہی کرتے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ برصغیر اور افغانستان کے حجاج کا ذکر سوڈان، چاڈ اور کچھ دوسرے ملکوں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کا طرۂ امتیاز جسمانی طاقت کے بل بوتے پر دوسرے حاجیوں کو مات دینا ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved