حضرت آدم اور حضرت نوح علیھما السلام کے بعد تمام الہامی مذاہب میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت مرکزالمِلَل اور نقطۂ اتصال ہے ۔ تمام شاخیں آپ ہی کی ذات سے پھوٹتی ہیں اور تمام ہی نسبتیں آپ پرجاکر یک جا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عہدِ رسالت مآب ﷺ میں بیک وقت یہود ونصاریٰ ،مشرکینِ مکہ اور دینِ حق اسلام کے علمبردار اپنے آپ کو آپ علیہ السلام کی ذات کی طرف منسوب کرتے تھے ۔اِسی سبب اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہود ونصاریٰ اور مشرکینِ مکہ کی خوش فہمی یا خود فریبی کی نفی کی اور فرمایا:''ابراہیم نہ یہودی تھے اورنہ نصرانی ،بلکہ وہ ہرباطل نظریے سے الگ رہنے والے (خالص) مسلمان تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہیں تھے ،(آل عمران:67)‘‘۔ قرآن کے اِس واضح بیان کے باوجود مشرکینِ مکہ اور اہلِ کتاب اپنے آپ کو دینِ ابراہیم کا علمبردار قرار دیتے تھے ،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:''بے شک تمام لوگوں میں ابراہیم علیہ السلام سے(نسبت کے) سب سے زیادہ حقدار وہی لوگ تھے ، جنہوں نے اُن کی اتّباع کی اور یہ نبی (محمد ﷺ) اور جو اِن پر ایمان لائے ،(آل عمران:68)‘‘۔اِس سے معلوم ہواکہ کسی بات کا اِدّعا(Claim)الگ چیز ہے اور دعوے کی حقانیت الگ چیز ہے ، چنانچہ فرمایا: ''اوراہلِ کتاب( میں سے یہود )نے کہا :یہودی ہوجاؤ(اورنصاریٰ نے ) کہا:نصرانی ہوجاؤ،تم ہدایت پاؤگے ،آپ کہیے!بلکہ ہم ابراہیم کی ملّت پر ہیں جو باطل سے اعراض کرنے والے تھے اور وہ مشرک نہ تھے،(بقرہ:135)‘‘۔
الغرض ابراہیم علیہ السلام مرکزالمِلَل ہیں اور اپنے بعد آنے والے تمام انبیاء کرام کے لیے نقطۂ اتّصال (Centre Point)ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام دینِ حق اسلام کے علمبردار تھے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ''آپ کہیے ! بے شک میرے رب نے مجھے صراط مستقیم کی ہدایت فرمائی ہے ، مستحکم دین ، ملت ابراہیمی (اور) ہر باطل سے اجتناب کرنے والے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ۔ آپ کہیے ! بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور مجھے یہی حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں،(الاَنعام :161.162 ‘‘۔ الغرض رسول اللہ ﷺ بھی اپنے آپ کو ملتِ ابراہیم کی پیرو کار قرار دیتے ہیں اور قرآن یہ شہاد ت دیتا ہے :بے شک ابراہیم (اپنی ذات میں ) ایک اُمت تھے ، اللہ کے اطاعت گزار ، ہر باطل سے اجتناب کرنے والے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ، اس کی نعمتوں کے شکر گزار تھے ، (اللہ نے ) ان کو منتخب کیا اور ان کو سیدھے راستے کی ہدایت فرمائی اور ہم نے ان کو دنیا میںبھلائی عطا فرمائی اور وہ آخرت میں بھی نیکو کاروں میں سے ہوں گے ۔ پھر ہم نے (اے رسول !) آپ کی طرف یہ وحی کی کہ آپ ملت ِ ابراہیم کی پیروی کریں جو ہر باطل سے دور تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے ، (النحل : 120-123)‘‘۔
ملتِ ابراہیمی کی اساس توحید پر تھی ، ان کے لیے اللہ کی احدیّت اوراس کی قدرت میں شرک کی کوئی صورت گوارا نہ تھی اور اسی توحید کی سربلندی کے لیے انہوں نے راہِ حق میں عزیمت و استقامت کی ایک مثالی اور لا زوال جدوجہد کی ۔ان کے عہدکا نمرود اپنی خدائی کا دعویٰ کر رہا تھا اور لوگوں کو اپنی بندگی کی طرف بلارہا تھا ، ابراہیم علیہ السلام ان کے آگے سدِّ راہ بن گئے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :''اور (اے نبی ٔ مکرم! ) انہیں ابراہیم کی خبر بتا دیجیے ، جب انہوں نے اپنے (عرفی) باپ اور قوم سے کہا (یہ تم ) کس کی عبادت کیے جارہے ہو ، انہوں نے کہا : ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں ، سو انہیں کے حضور آسن جمائے بیٹھے رہتے ہیں ۔ ابراہیم نے کہا: جب تم انہیں پکارتے ہو تو کیا وہ تمہاری فریاد سنتے ہیں یا وہ تمہیں نفع یا نقصان پہنچاتے ہیں،(الشُّعرا ء : 69-73 )‘‘۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ''اور (اے رسول )! آپ اس کتاب میں ابراہیم کا ذکر کیجیے ، بے شک و ہ بہت سچے نبی تھے ، جب انہوں نے اپنے (عرفی ) باپ سے کہا : اے میرے باپ ! آپ اُس (معبود)کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نہ سنتا ہے اور نہ دیکھتا ہے اور نہ آپ کے کسی کام آ سکتا ہے ، اے میرے باپ ! بے شک میرے پاس ایسا (یقینی) علم آیا ہے جو آپ کے پاس نہیں آیا، آپ میری پیروی کیجیے ، میں آپ کو سیدھی راہ پر چلاؤں گا ، اے میرے باپ ! آپ شیطان کی پیروی نہ کریں ، بے شک شیطان (اللہ ) رحمان کا نافرمان ہے ، (مریم : 41-44) ‘‘۔
نمرود صرف علامتی خدائی کا دعویدار نہیں تھا بلکہ وہ خدائی اختیار و اقتدار کا دعوے دار تھا ۔ چناچہ قرآن مجید نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کے درمیان ایک مناظرے کا حال بیان کیا ہے ، ارشاد ہوا : '' (اے رسول !) کیا آپ نے اس شخص(نمرود) کو نہیں دیکھا ، جس نے ابراہیم علیہ السلام سے ان کے رب کے بارے میں (مناظرانہ ) حجت بازی کی، (ابراہیم علیہ السلام کا دعویٰ تھا )کہ اسے بادشاہت اللہ نے عطا کی ہے (اور وہ اس سے انکاری تھا )، جب ابراہیم نے کہا : میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ، اس نے کہا : میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ، ابراہیم نے کہا:بے شک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، (اگر تو خدا ہے ) تو اس کو مغرب سے نکال لا ،تو (اس پر )وہ کافر لا جواب ہو گیا ،( بقرہ : 158) ‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام کے اس مناظرے سے پتا چلتا ہے کہ نمرود اُلوہی اقتدار و اختیار کا دعوے دار تھا اور ابراہیم علیہ السلام اللہ وحدہ ٗ لا شریک لہ کے سوا کسی اور ذات کے لیے اس حیثیت کو تسلیم کرنے پر کسی بھی صورت میں تیار نہیں تھے ۔ظاہر ہے حق و باطل میں مفاہمت کی کوئی صورت ممکن ہی نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے :
باطل دوئی پسند ہے حق لا شریک ہے
شرکت میانہ ٔ حق و باطل نہ کر قبول
آج ہم باطل سے کسی نہ کسی درجے میں مفاہمت (Compromise)کے دور سے گزر رہے ہیں ، اس لیے توحیدِ خالص جو روحانی اور ایمانی قوت عطا کرتی ہے اور جس کے نتیجے میں انسان پیکرِ عزیمت و استقامت بن جاتا ہے ، فتح و شکست کے دنیاوی معیارات سے ماورا ہو جاتا ہے اور صرف معبودِ مطلق کی رضا کے لیے اپنی ساری متاع ِ حیات وکائنات کو قربان کرنے میں اپنی نجات ، بقا اور فلاح سمجھتا ہے، ہم توحید کی اس رُو ح سے محروم ہیں۔ اسی ایمانی قوت کے حاملین کے لیے اللہ کی نصرت نازل ہوتی ہے ، علامہ اقبال نے کہا تھا :
فضائے بدر پیدا کر ، فرشتے تیری نصرت کو
اترسکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
اور اگرکلمۂ توحید اورعقیدۂ توحید صرف زبان و بیان تک محدود رہتاہے ، قلب و رُوح میں پیوست ہو کر کردار میں ڈھل نہیں جاتا ، تو اس کی بابت علامہ اقبال نے کہا:
زندہ قوت تھی جہاں میں یہی توحید کبھی
آج کیا ہے ؟ ، فقط اِک مسئلۂ علمِ کلام
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ اہلِ اسلام کی تعداد روئے زمین پر کم وبیش ڈیڑھ ارب بتائی جاتی ہے ، لیکن بے توقیر ہیں ، مقامِ افتخار پر فائز نہیں ہیں ، اُن کی بات میں وزن نہیں ہے ، ان کی کوئی ساکھ اور اعتبار نہیں ہے ۔ قرآن نے ابراہیم علیہ السلام کی شخصیت کو جو ''اُمّتِ قانت ‘‘ کہا ہے ، تو اس لیے کہ وہ عقیدۂ توحید کا کامل مظہر بنے اور تنہا باطل سے ٹکرائے اور پرچمِ توحید کو سربلند کرنے کی راہ میں مصلحت اور نفع و نقصان کی تخمینوں کو حائل نہں ہو نے دیا ، علامہ اقبال نے کہا:
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
ابراہیم علیہ السلام کا ایک اعزاز کعبۃ اللہ کا معمار ہونا ہے ، جس کی شہادت قرآن نے دی ۔ آپ نے تعمیر ِ کعبہ کے بعد چند دعائیں کیں جو آج مجسم تعبیر کی صورت میں دنیا کے سامنے موجود ہیں ۔ اللہ کے حکم سے حج کا اعلان کرنے کے بعد آپ نے دعا کی :''اے ہمارے پروردگار ! میں نے اپنی بعض اولاد کو تیرے حرمت والے گھر کے نزدیک (تیرے حکم کے مطابق ) بے آب و گیاہ وادی میں ٹھہرا دیا ہے، اے ہمارے پروردگار! ( انہیں توفیق عطا فرمانا ) کہ یہ نماز قائم کریں ، لوگوں میں سے بعض کے دلوں کو اِن کی طر ف مائل کردینا اور انہیں پھلوں سے روزی عطا کرنا تاکہ وہ (تیرا ) شکرادا کریں ، (ابراہیم : 37) ‘‘۔ آپ نے تعمیر ِ کعبہ کے بعد اہلِ مکہ کے درمیان ایک رسولِ عظیم کی بعثت کی دعا کی جس نے طویل عرصے کے بعد رحمۃللعالمین خاتم النبیین سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کی بعثت کی صورت میں اپنی تعبیر کو پایا ۔ تعمیر کے ایک معنیٰ ہیں عمارت کو بنانا اور دوسرے معنیٰ ہیں اُسے آباد کرنا ، پہلے معنیٰ کے اعتبار سے معمار ِ کعبہ حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیھما السلام ہیں اور دوسرے معنیٰ کے اعتبار سے معمارِ کعبہ سیدنا محمد رسول اللہ ﷺہیں ۔