اس میں کیا شک ہے کہ اب ہم ہر معاملے میں شکوک و شبہات کی نذر ہوچکے ہیں۔ ہر قدم پر کوئی نہ کوئی گمان ہماری راہ روکنے پر بضد دکھائی دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یقین کہیں بہت دور، کسی نامعلوم گوشے میں چُھپ گیا ہے۔ جن باتوں پر آنکھوں سے برسات ہوجایا کرتی تھی اب وہی باتیں ہنسنے پر مجبور کرتی ہیں۔ اور جن باتوں پر دل کھول کر ہنسنا چاہیے وہ رلانے پر تُلی دکھائی دیتی ہیں۔ ہر چیز تماشے میں تبدیل ہوگئی ہے۔
عید الاضحٰی گزر گئی ہے۔ قربانی کرنے کا زمانہ گیا، اب پھر قربانی دینے کے دن ہیں اور ہم ہیں دوستو! اب کے عید الاضحٰی عجیب و غریب ذہنی حالت میں گزری ہے۔ جب ہر طرف تشکیک اور تذبذب کی چُھریاں نظر آرہی ہوں تو کون سی عید اور کہاں کی عید؟
ایک زمانے سے سنتے آئے ہیں کہ بعض بدبخت حرام جانوروں کا گوشت بھی بیچ ڈالتے ہیں۔ لوگ بکرے کے دھوکے میں کتا بھی کھا جاتے ہیں۔ چند ہفتوں سے گدھے کا گوشت فروخت کئے جانے کی خبریں اس تواتر سے گردش میں رہی ہیں کہ لوگ اب بڑے جانور کا گوشت دیکھتے ہی تکدّر سا محسوس کرتے ہیں۔ ہر لقمے پر کئی گمان گزرتے ہیں۔ قوم ''گدھا خور‘‘ ہونے کے احساس ہی سے اضمحلال میں ڈوبی ہوئی دکھائی دیتی ہے! ایسے میں بہت سوں نے بڑے کے گوشت سے الرجک سا رہنا شروع کردیا ہے۔
اس خبر نے لوگوں کے دل و دماغ کی کھال (مزید) کھینچ لی کہ گدھوں کو اس لیے زیادہ کاٹا جارہا ہے کہ ان کی کھال بلند نرخ پر فروخت ہوتی ہے۔ ایک ذرا سی کھال کے لیے سالم گدھے کو قوم کے معدے میں دھکیلنا ... مختصراً یہ کہ کوئی حد نہیں ہے زوال کی! ع
بات تو سچ ہے مگر بات ہے ''ڈِھٹائی‘‘ کی!
میڈیا والے اس قبیح فعل میں ملوث افراد کی کھال کھنچوانے کا اہتمام تو کر نہیں سکتے تھے، اس لیے خبریں چلا چلاکر عوام کی ''مزاج پرسی‘‘ کے ساتھ ساتھ ان کے صبر و تحمل کی کھال بھی اتارتے رہے!
اب کے اہل پاکستان کو قربانی کے گوشت کا کچھ خاص شدّت کے ساتھ انتظار تھا۔ سبب اس کا یہ تھا کہ گوشت کے حوالے سے لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات کی کھیتی اتنی پروان چڑھ چکی تھی کہ کچھ بھی کھاتے وقت کلیجہ منہ کو آتا تھا۔ لوگ قربانی کے جانوروں کو دیکھ کر مطمئن ہوئے کہ کچھ تو ایسا کھانے کو ملے گا جس کے بارے میں کوئی شک ہوگا نہ خدشہ!
اور معاملہ صرف گدھے کے گوشت کی فروخت تک محدود نہیں رہا۔ چینلز نے پتہ نہیں کہاں کہاں سے ان لوگوں کو کھوج نکالا جو مردہ اور بیمار جانوروں کے ساتھ خنزیر کا گوشت بھی مارکیٹ میں چلاتے رہے ہیں۔ ع
شام ''ان‘‘ کو مگر نہیں آتی!
ستم بالائے ستم، بلکہ افسوس بالائے افسوس یہ کہ ''دیدہ دلیری‘‘ اور ''بے جگری‘‘ کا مظاہرہ کرنے کے لیے گدھوں اور کتوں کی جان پر کھیل جانے والے ہم ہی میں سے ہیں، کسی دوسرے ملک نے انہیں کوئی مشن سونپ کر ہماری صفوں میں داخل نہیں کیا! کیا وقت آگیا ہے کہ جن ممالک میں جانور کو اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق ذبح کرنے کا تصور تک نہیں وہاں بھی ڈبوں میں بند صاف ستھرا، صحت مند جانور کا حلال گوشت دستیاب ہے اور اِدھر ہم ہیں کہ رب کی ناراضی مول لینے سے ذرا بھی گریز نہیں کر رہے! یعنی ہم نے اپنے دل و دماغ سے خوف کو یوں کھرچ پھینکا ہے کہ اب اللہ سے ڈرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہو رہی! ؎
بے باک طرزِ زیست مبارک ہو قوم کو
خوفِ خدا بھی اِس سے مگر ختم ہوگیا!
کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے بہت سے قبیح افعال انفرادی کارنامے نہیں بلکہ منصوبہ بندی کا نتیجہ ہیں۔ مشکوک گوشت کا معاملہ ہی لیجیے۔ قوم کو مزید خلجان میں مبتلا کرنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اسے مختلف معاملات کے حوالے سے شکوک و شبہات اور خدشات میں مبتلا رکھا جائے۔ مردار، بیمار اور حرام جانوروں کے گوشت کی فروخت کے حوالے سے آنے والی خبروں نے پوری قوم کو پریشانی سے دوچار کر رکھا ہے۔ جسے دیکھیے وہ یقین اور بے یقینی کے درمیان معلّق ہے، گویا تذبذب کی سُولی پر لٹکا ہوا ہے! کہنے کو ایک ذرا سا گوشت کا معاملہ ہے مگر الجھن ایسی پیدا ہوئی ہے کہ بہت کچھ الجھ کر رہ گیا ہے، ذہن وسوسوں میں گِھرا ہوا ہے۔ کئی ماہ سے قوم کا یہ حال ہے کہ کچھ بھی کھاتے پیتے وقت ذہن وسوسوں کی نذر رہتا ہے۔ گویا کھانا پینا بھی اب ایک جاں گسل مرحلہ ٹھہرا۔
معاملہ حکومتی و انتظامی امور کا ہو یا کھانے پینے کی اشیاء کا، قوم کو یقین درکار ہے۔ ذہن کہیں اٹک گیا ہو تو کسی بات کا لطف باقی نہیں رہتا۔ کھانے پینے کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر معاملے میں انہیں بے یقینی کی دلدل میں دھنسنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کھایا پیا ہضم نہیں ہو پاتا۔
لوگ انتظار کرتے کرتے تھک گئے ہیں کہ جنہوں نے عشروں تک ان کی کھال کھنچتی ہے ان کی چمڑی ادھیڑی جائے مگر یہ مرحلہ ہے کہ آکر ہی نہیں دے رہا۔ تھوڑی بہت کارروائی ہوتی ہے اور پھر گاڑی رک جاتی ہے، روک دی جاتی ہے یا رکوادی جاتی ہے۔ اس کے بعد بازار گرم ہوتا ہے ڈھارس بندھانے کا یعنی تان ٹوٹتی ہے یقین دہانیوں پر۔ مگر یقین دہانیوں پر یقین رکھنے کی بھی تو ایک حد ہوتی ہے۔ ایک عام پاکستانی کے لیے وہ حد کب کی آچکی ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ اس راہ پر کچھ آگے بڑھنا بھی نصیب ہو۔
عید الاضحٰی کے دوران لوہے کی روایتی چُھریاں جانوروں کے حلقوم پر پھرتی رہیں اور گوشت کو بوٹیوں کی شکل دیتی رہیں۔ اس سے قبل احتساب کی چُھری چند ایک موٹے بکروں کے گلے پر پھری ضرور مگر پھر یہ سلسلہ تھم سا گیا۔ بعض سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کو اپنی کھال کھچنتی ہوئی محسوس ہوئی تو واویلا شروع کردیا تاکہ اہل وطن کی توجہ اور ہمدردی پاکر احتساب کا عمل رکوایا جائے۔ ایسا کرنے میں وہ بظاہر تھوڑی سی کامیاب بھی رہی ہیں۔ جن کے ہاتھ میں حقیقی اقتدار و اختیار کی چُھری ہے انہیں (عوام کی طرف سے) ان جانوروں کا واسطہ جو ابھی ابھی اللہ کی راہ میں قربان کئے گئے ہیں کہ ہاتھ نہ روکیں، جو لوگ قوم کی محنت کی کمائی چارے کی طرح چَر کر فربہ دُنبوں اور بکروں جیسے دکھائی دے رہے ہیں ان کا احتساب کے تھان پر جھٹکا کردیا جائے۔ جو اب تک قومی وسائل کے بدن سے بوٹیاں بوٹیاں نوچ نوچ کر سال کے بارہ مہینے عیدِ قرباں مناتے آئے ہیں ان کی بوٹیاں نوچنے کا وقت آچکا ہے۔ احتساب کا امکان دیکھ کر اہل وطن کی آنکھوں میں وہی چمک ہے جو نئی نویلی چُھری میں پائی جاتی ہے۔ محض اپنی ہوس کی خاطر قومی خزانے اور عوام کی حلال کمائی کا جھٹکا کرنے والوں کو بھی معلوم ہونا چاہیے کہ بوٹیاں کس طور نوچی جاتی ہیں، کھال کس طور کھینچی جاتی ہے۔ یعنی احتساب ہو تو سفّاک اور بے رحم تاکہ دیکھنے والوں کے لیے بھی عبرت کا کچھ سامان ہو۔ اہل وطن کی کھنچی ہوئی کھال کو اپنے مقام پر واپس لانے کی یہی ایک معقول اور مبنی بر انصاف صورت ہوسکتی ہے۔ ستم رسیدہ صبر سے کام لیں، وہ صبح کبھی تو آئے گی جب مجبوروں کی کھال کھینچنے والوں کی بھی کھال اُتاری جائے گی۔