تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     29-09-2015

نیویارک میںپاکستان کا سفارتی سرکس

یوں تو جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس پر نیویارک میں ایک میلہ لگتا ہے۔کبھی کبھار اس میں سنجیدہ موضوعات پر ‘حسب ضرورت وسیع اور مختصرمذاکرات بھی ہوتے ہیں۔ جیسے ان دنوں اس سالانہ میلے میں‘ اہمیت رکھنے والے مذاکرات روسی صدر ولادی میر پوٹن ‘ چین کے صدر ژی جن پنگ اور افغان لیڈروں کے درمیان ہو رہے ہیں۔ جہاں چین کی آبی اور خشکی پر بننے والی سلک روڈ کی تعمیر پر ‘بات چیت ہو رہی ہے۔ اس سلسلے کا متبادل مواصلاتی نظام ایران میں تیار ہو رہا ہے‘ جس کی آخری پیوند کاری ہورہی ہے۔ اس کی تفصیل میاں عامر محمود نے گزشتہ روز ‘اپنے ہفتہ وار کالم میں بیان کی ہے۔ یہ منصوبہ 2002ء میں شروع ہو گیا تھا۔ ایران پر تجارتی پابندیوں کی وجہ سے اس کی تعمیر میں تعطل پیدا ہو گیا۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چین نے یہ منصوبہ دو سال پہلے دنیا کے سامنے پیش کر کے‘ اس پر عملدرآمد بھی شروع کر دیا۔ روس اور چین اس عظیم الشان منصوبے میں شراکت دار ہونے پر غور کر رہے ہیں۔ نیویارک میں یہی سوال زیربحث ہے۔ مودی صاحب‘ ایرانی منصوبوں پر تیزرفتاری سے عملدرآمد کے لئے بیتاب ہیں۔ لیکن چین کے اس منصوبے کی طرف‘ روس کے راغب ہونے کے بعد‘ بھارتیوں کو خاص لفٹ نہیں مل رہی۔ چین کاسلک روڈ کا منصوبہ ‘ہر اعتبار سے فائدہ مند اور تیز رفتاری سے شروع ہو چکا ہے۔ سینکڑوں میل سڑک بنائی جا چکی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ مکمل ہو چکی ہے اور اسے تیزرفتاری سے بڑی کارگو سروسز کے لئے تیار کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان اور شمالی علاقہ جات کی سڑکوں کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹیں دور کی جا رہی ہیں۔ روس کی شمولیت کے بعد‘ اس منصوبے کی تکمیل کو تھوڑے ہی عرصے میں حقیقت بنتے ہوئے دیکھا جا سکے گا۔
اب میں آپ کو پاکستان کے سفارتی سرکس کے دلچسپ مناظر کی طرف متوجہ کروں گا۔ آپ نے غور کیا ہو گا کہ نیویارک میں سائیڈ لائنز پر جو انتہائی اہم میٹنگیں ہو رہی ہیں‘ وہاں پاکستان کا اتنا بڑا سفارتی سرکس کس لئے لگایا گیا؟نہ تو ہمارے وزیراعظم کو کسی اہم اجلاس میں فریق کی حیثیت سے بٹھایا گیا۔ نہ ہمارے سفارتی نمائندوں میں ‘نامعلوم عہدوں پر فائز کثرت سے آئے ہوئے جو ''سپیشل ڈیوٹی آفیسرز‘‘ دستیاب ہیں‘ ان میں سے کبھی ایک وزیرخارجہ کا روپ دھار کے سامنے آ جاتا ہے۔ کبھی دوسرا اور کبھی تیسرا۔ان میں ایک سرکاری سمدھی‘ صف اول کی امرت دھارا ڈیوٹیوں کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہیں۔ جہاں پر مالیاتی امور زیربحث ہوں‘ وہاں پر یہ وزیراعظم کے ساتھ والی کرسی پر ڈٹ کر بیٹھ جاتے ہیں اور کیمروں کی طرف سفارتی مسکراہٹ کے شاندار نمونے پیش کرتے ہیں۔ جن کے لئے ان کاآہنی چہرہ کسی بھی طرح موزوں نہیں۔ سفارتکاری میں ایسی آہنی مسکراہٹ‘ دیکھنے والوں کے لئے بڑی حوصلہ شکن ہوتی ہے۔ مگر ہمارے سفارتی سرکس کا یہ عمدہ نمونہ‘ ہمیشہ نمایاں رکھا جاتا ہے۔ جہاں سفارتی امور زیربحث ہوں‘ وہاں ادھر ادھر گھومتے ہوئے وزیرخزانہ کا کردار ادا کرنے والے کسی مہمان اداکار کو ڈھونڈ کے میٹنگ میں بٹھا دیا جاتا ہے۔ ہمارے وزیراعظم کی میٹنگوں میں سوائے رسمی بات چیت کے ‘کسی سنجیدہ مسئلے پر گفتگو نہیں ہوتی۔ اب تک ہمارے وزیراعظم کی جو اعلیٰ سطحی سفارتی میٹنگیں ہوئی ہیں‘ ان میں یو این کے سیکرٹری جنرل بان کی مون‘ جان کیری جو امریکہ کی طرف سے افسر مہمانداری کے فرائض انجام دے رہے ہیں اور مائیکروسافٹ کے بل گیٹس شامل ہیں۔ بل گیٹس نے تو سنا ہے‘ ہمارے وزیراعظم سے پوچھ لیا کہ آپ یہ راز تو بتائیں کہ اتنے چھوٹے سے ملک میں ‘آپ نے تھوڑے سے عرصے میں‘ مجھ سے زیادہ دولت کیسے کما لی؟ اصل میں وہ کچھ دینے نہیںغالباً قرض مانگنے آئے تھے۔ قرض ملتا کہاں سے ہے؟ اس کا بھید ہمارے وزیرخزانہ جانتے ہیں۔ 
ایسا کوئی مہمان ‘ان کی آہنی مسکراہٹ اور مصافحے سے بچ کر نہیں نکل سکتا۔ عالمی بنک کی ٹیم سے ملاقات ہوئی‘ تو اسے دھر لیا اور پتہ نہیں کتنی بڑی تعداد میں ڈالر اینٹھ لئے؟ ڈالروں کا استعمال ان سے بہتر کون جانتا ہے؟ ڈالر ہینڈلنگ کی مہارت میں ‘قدرت نے انہیں پاکستان کا امیر اور بااختیارترین شخص بنا دیا ہے اور ان کی نقل کر کے ایک ماڈل حسینہ ‘کئی ماہ سے مقدمہ بھگت رہی ہے۔ انصاف کے ایوانوں میں اس کی سنی نہیں جا رہی۔ ٹھیک ہے‘ منی لانڈرنگ کے لئے اس کے پاس تھوڑے پیسے تھے۔ اسے وزارت خزانہ کی ٹیم میں تو شامل کیا ہی جا سکتا تھا۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی؟ میں یہ بتا رہا تھا کہ سنجیدہ معاملات پر جہاں بات چیت ہو رہی ہے‘ وہاں ہماری منتخب حکومت کے لیڈروں کا کوئی عمل دخل نہیں۔ اس دوران صرف ایک اہم میٹنگ کی ضرورت پڑی‘ جو آج جرمنی میں ہو رہی ہے اور اس میں ہمارے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف شرکت کرنے کے لئے ‘ایک دن کے سرکاری دورے پر میونخ پہنچے ہیں۔ جہاں وہ سنٹرل اینڈ سائوتھ ایشیا سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ ہے وہ میٹنگ‘ جو جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ایک اہم مقام پر‘ اہم ملکوں کے درمیان‘ اہم موضوعات پر ہورہی ہے۔ 
اگر آپ نے26ستمبر کا ''اکانومسٹ‘‘ پڑھا ہو‘ تو اس میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف ‘اس وقت عوامی امنگوں کی ترجمانی کس طرح کر رہے ہیں۔ اس میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ پاک فوج ‘اقتدار پر قبضہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی۔ پاک فوج کو ایسی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے۔ جن قومی مسائل پر‘ اسے تشویش ہوتی ہے‘ ان کا حل ڈھونڈنے کا اختیار اس نے خود ہی لے لیا ہے۔ موجودہ حکومت‘ دہشت گردی کے خلاف ‘قومی سطح کی وسیع کارروائی کا جو کریڈٹ لے رہی ہے‘ اس کے شروع ہونے سے پہلے‘ ہماری منتخب حکومت‘ دہشت گردوں سے مذاکرات کر رہی تھی۔ قتل و غارت گری اور تباہی پر تلے ہوئے دشمن کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ ‘فوج سے بہتر کس کی سمجھ میں آ سکتا تھا؟ چنانچہ اس نے مذاکرات کے اکتا دینے والے عمل سے بیزار ہو کر‘ ضرب عضب کا آپریشن شروع کر دیا اور دہشت گردوں کا ہوّا ختم کر کے‘ ان کے مضبوط مراکز تہس نہس کر ڈالے اور جن دہشت گردوں سے ہمارے حکمران کانپتے ہوئے‘ سکیورٹی بڑھانے میں مصروف تھے‘ فوج نے انہیں تتربتر کر کے‘ چوہوں کی طرح چھپنے پر مجبور کر دیا۔ جیسے ہی دہشت گرد تتربتر ہوئے‘ ان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے عاجز اور خوفزدہ سیاستدانوں نے‘ سینہ تان کرنعرے لگانا شروع کر دیئے''دیکھے ہمارے حوصلے؟ ہماری حکومت نے دہشت گردوں کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔‘‘ شہروں کے اندر ‘ دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے یقینا موجود ہیں۔ لیکن وہ قابل ذکر کارروائیاں کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہ گئے۔ مذہب کے نام پر انہیں پناہ دینے والے سرپرست سخت دبائو میں ہیں۔ انہیں چندے دینے والوں کی فہرستیں بنا لی گئی ہیں۔ ان کے ذرائع آمدنی کو مسدود کیا جا رہا ہے۔ فوج کی اس اہلیت پر مغرب کی تمام طاقتوں کو پورا بھروسہ ہے۔ دنیا‘ پاکستان سے اس وقت ایک ہی چیز چاہتی ہے کہ ہمارے ملک میں‘ انسان دشمن دہشت گردوں کے مراکز اور سرگرمیاں ختم کی جائیں۔ فوج نے اپنی تلاش کے دوران ایسے ایسے خفیہ کارندے ڈھونڈ لئے ہیں‘ جو دہشت گردوں کو مختلف طریقوں سے مالی وسائل مہیا کرتے ہیں۔ ان میں کراچی کے ٹارگٹ کلرز بھی شامل نکلے۔ سیاسی سرگرمیوں کے نام پر جرائم پیشہ لوگ بھی گرفت میں آئے۔ لیکن فوج سے ان کا بچنا‘ اب محال ہے۔ دنیا کو پورا یقین ہو گیا ہے کہ پاکستان‘ دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کی اہلیت پیدا کر چکا ہے اور یہ صرف فوج میں ہے۔ 
یہاں میں‘ بات بات پر فوج کے اقتدار پر قبضے سے ڈرنے والے‘ سیاستدانوں کی تسلی کے لئے عرض کروں گا کہ انہیںلوٹ مار کا جو مال دستیاب ہے‘ جیسے چاہیں اس کی لانڈرنگ کریں۔ جہاں چاہیں چھپا کے رکھیں۔ اپنی اس رقم کا معمولی سا حصہ بھی دہشت گردوں تک مت پہنچنے دیں۔ بس فوج یہیں پر ان کا ہاتھ پکڑے گی۔ اس کے علاوہ کھائو پیو موج اڑائو۔ باہر جا کر جائیدادیںبنائو۔ فوج فی الحال اس میں دخل نہیں دے گی۔ سیاستدانوں کو عوام کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے‘ کون کس کو زخمی کرتا ہے؟کون ‘بیورو کریسی کی طاقت سے ‘مخالف سیاستدانوں کی انتخابی طاقت کو کچلتا ہے؟ اور یہ بھی کیسے ہمت اور حوصلے والے لوگ ہیں کہ باز پھربھی نہیں آتے۔ جہاں دائو لگتا ہے‘ اپنے حریفوں کو طاقت اور پیسے کے ذریعے‘ چت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ نیا طریقہ یہ نکلا ہے کہ ضمنی انتخابات میں‘ کمزور پارٹی کے امیدواروں کو ووٹوں سے ہرانے کی بجائے‘ خرید کے مقابلے سے باہر کر دو۔ اس کاروبار سے بھاری نفع حاصل ہو رہا ہے۔ انتخابی مہم کے اخراجات بھی کم ہو رہے ہیں اور سیٹوں پر قبضے بھی ہوتے جا رہے ہیں۔ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں ووٹ نہیں خریدے جائیں گے‘ مخالف امیدوار خریدے جائیں گے۔ سیاستدان اپنے ان مشاغل سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ فوج انہیں کچھ نہیں کہے گی۔ جب بھی کچھ کہیں گے‘ عوام کہیں گے۔ جہاں تک نام نہاد منتخب حکومت کا تعلق ہے‘ اس نے اپنا سرکس ‘ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران ‘نیویارک میں دکھا دیا ہے اور دنیا نے سمجھ لیا ہے کہ ہمارے پاس وزیراعظم بھی نہیں۔ صرف آہنی وزیرخزانہ اسحق ڈار ہیں‘ جو اپنے کام میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved