معروف عالمی جریدے اکانومسٹ نے جنرل راحیل شریف کو عوام کے دلوں میں گھر کرنے والا سٹار قرار دے کر پاکستانی عوام کی معلومات میں اضافہ نہیں کیا‘ زمینی حقیقت بیان کی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے بعض غیر مقبول اقدامات کے سبب پاک فوج کا امیج خراب ہوا جس کا ذمہ دار یہ قومی ادارہ ہر گزنہ تھا مگر سربراہ کے بُرے بھلے اقدامات کا بوجھ نظم و ضبط کے عادی ادارے کو اٹھانا پڑتا ہے۔
جنرل راحیل شریف نے صرف وہ کیا جو قوم ‘ملکی دفاع و سلامتی کے ذمہ دار اس طاقتور ادارے اور اس کے سربراہ کو کرتے دیکھنا چاہتی ہے۔ اپنے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے مقابلے کا غیر معمولی عزم اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ اہلیت و صلاحیت کا مظاہرہ ۔دوست اور دشمن میں تمیز اور دشمنوں کے علاوہ اس کے مددگاروں‘ سہولت کاروں اور ہمدردوں سے وہ سلوک جس کے وہ مستحق ہیں کسی فرد اور ادارے کو آزمائش کے مراحل میں سر خرو کرتا ہے۔ اس معاملے میں جنرل نے غیر معمولی یکسوئی ‘ استعداد کار اور چابکدستی دکھائی۔ شمالی وزیرستان سے کراچی اور بلوچستان تک بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالا اورجوابی یلغار سے ہراساں ہوئے نہ کنفیوز۔
مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے منتخب حکمران اور سول ادارے اپنے فرائض کار اس مستعدی ‘ عزم صمیم اور یکسوئی سے انجام دے رہے ہوتے تو ایک باوردی جرنیل کو دلوں میں گھر کرنے والا سٹار قرار دیا جاتا؟ اندرون و بیرون ملک غیر معمولی پذیرائی ملتی؟ اور ٹرکوں‘ بسوں پر نقش و نگار بنانے والے مصور انہیں قابل اعتنا سمجھتے؟ ایوب خان کے بعد کسی پاکستانی حکمران کی تصویر چمن سے طورخم اور واہگہ سے کیماڑی تک چلنے والے ٹرکوں پر کبھی نظر نہیں آئی۔ ایوب خان نے پہلے اقتدار چھوڑا پھر یہ جہاں‘ مگر ٹرک آرٹ کا حصہ رہے۔
بھٹو مقبول عوامی رہنما اور حکمران تھے ۔ضیاء الحق نے گیارہ سال تک اقتدارکا مزہ لیا۔ جبکہ میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی عوامی مقبولیت میں بھی کسی کو کلام نہیں۔ ان کے سیاسی پیروکاروں اور جماعتی کارکنوں کے سوا کسی نے انہیںاساطیری شخصیت سمجھا نہ جانے کے بعد''تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد‘‘کا راگ الاپا۔ کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ ایوب خان کے حق میں کسی فرد یا ادارے نے تشہیری مہم چلائی یا ٹرک مالکان‘ ڈرائیوروں اور پینٹرز کو معاوضہ ادا کیاگیا۔ یحییٰ خان جیسے جانشین کی نالائقی‘ ناکامی اور کوتاہ اندیشی ‘ایوب خان کے حق میں نعمت غیر مترقبہ ثابت ہوئی مگر دیگر عوامل بھی تھے۔
جنرل راحیل شریف کو ملنے والی عوامی مقبولیت بھی کسی تشہیری مہم کا نتیجہ ہے نہ آئی ایس پی آر کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کے ٹوٹیس کا ثمر۔ جنرل باجوہ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے باس اور ادارے کا امیج بنانے کے لیے محنت بلاشبہ کی۔ منہ زور روایتی میڈیا کے علاوہ سوشل میڈیا کو بھر پور طریقے سے استعمال کیا مگر یہ سہولت پرویز مشرف کو حاصل تھی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی۔ متحرک جنرل کیانی بھی کچھ کم نہ تھے اور جناب آصف علی زرداری جیسے غیر مقبول حکمران کے دور میں انہوں نے فوج کا امیج بہتر بنایا مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
آپریشن ضرب عضب کے علاوہ کرپشن کے خلاف مہم نے عوام کے دلوں میںجنرل کی پسندیدگی کے بیج بوئے اور منتخب حکومت کے علاوہ سول اداروں کی سہل کوشی‘ غفلت شعاری‘ بے نیازی‘ اقربا پروری اور لوٹ مار سے تنگ آئی قوم کو امید کی کرن نظر آئی۔ قوم ویسے بھی جنم جنم کی پیاسی ہے۔ شبنم کو سمندر سمجھنے میں دیر نہیں لگاتی اور کسی کی تعریف و تحسین میں بخل سے کام ہرگز نہیں لیتی۔ سو راحیل شریف کے نعرے ہر سُو گونج رہے ہیں اور مختلف النوع سازشی کہانیاں جنم لے رہی ہیں۔
سیاست اور صحافت کے ایوانوں میں جنرل کی ذات‘ خدمات اور مقبولیت زیر بحث ہے اور ہر شخص اپنے اپنے ذوق اور ظرف کے مطابق رائے زنی کر رہا ہے۔ جنرل کی مدت ملازمت اگلے سال کے اواخر یعنی نومبر میں اختتام پذیر ہو گی مگر چودہ ماہ قبل توسیع کی بحث چھڑ گئی ہے جو میری حقیر رائے میں زیادتی ہے توسیع کی حمایت کرنے والے بھی نادان دوست ہیں اور ہر معاملے میں فوج کی مداخلت کے خواہاں بھی۔ جنرل کی مقبولیت سے خوش اور خائف حلقوں کی وضع کردہ سازشی تھیوریاں حکومت کی بے عملی یا غلط ترجیحات کی وجہ سے جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہیں اور ان کا ہر جگہ سنجیدگی سے نوٹس لیا جا رہا ہے۔
جنرل کی مقبولیت کی اہم ترین وجہ ان کی سیاست سے عدم رغبت ‘ اپنے کام سے کام اور ہر جگہ ہر موقع پر سب سے پہلے موجودگی ہے۔ سانحہ پشاور‘ سانحہ صفورا گوٹھ اور دیگر مواقع پر جنرل راحیل شریف نے پہل کی اور ایام عید اپنے بیوی بچوں کے ساتھ گزارنے کے بجائے کبھی شمالی وزیرستان اور کبھی کنٹرول لائن کے اگلے مورچوں پر گزار کر اپنی ترجیحات واضح کیں جبکہ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہمیشہ اپنے خاندان اور دوست احباب کو ترجیح دی۔ آزمائش کی کسی گھڑی میں اقدامات تو خیر دور کی بات ہے۔ بیانات میں بھی پہل کی سعادت ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو کم نصیب ہوئی جس کا ہر منصف مزاج شہری نے نوٹس لیا۔
مقبولیت اور ہر دلعزیزی اعزاز ہے مگر اس سے کہیں زیادہ آزمائش بھی۔ ہر دلعزیزی انسان کو خبط عظمت میں مبتلا کرتی اور ناگزیریت کا احساس دلاتی ہے جبکہ دنیا بھر کے قبرستان خبط عظمت کے شکار ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ ماہ کے عرصہ میں جنرل نے کبھی اپنے منصب کی مقررہ حدود سے قدم باہر نہیں رکھا۔ حکومت اور اس کے مخالفین نے اگرچہ مواقع فراہم کئے اور اب بھی دونوں طرف سے کوششیں جاری ہیں۔ پسندیدگی کا ایک سبب یہ بھی ہے ۔ملازمت میں توسیع کے معاملے پر اس قدر قبل از وقت بحث بھی جنرل کے نادان دوستوں اور دانا دشمنوں دونوں کے نہاں خانہ دماغ میں پرورش پانے والی توقعات اور جنم لینے والے اندیشوں کی آئینہ دار ہے‘ جس کا ادراک فوجی قیادت کو یقینا ہو گا۔
ماضی میں اس طرح کے مباحث نے سول ملٹری تعلقات کو نقصان پہنچایا‘ اب بھی فوج کے حوالے سے اندیشہ ہائے دور دراز کا شکار حلقے بحث کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں لیکن یہ سوچنے کے روادار نہیں کہ صورتحال ماضی سے مختلف ہے۔ جنرل اسلم بیگ ‘ جنرل جہانگیر کرامت اور جنرل پرویز مشرف میں سے کوئی عوامی سطح پر اس قدر مقبول تھا نہ ریاست و حکومت کو دہشت گردی‘ بدامنی‘ بدانتظامی اور کرپشن کے پہاڑ جیسے مسائل کا سامنا۔ جنرل کی مقبولیت دہشت گردی کے علاوہ کرپشن کے خاتمے اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اینٹی ٹیررسٹ امیج کو اجاگر کرنے کے لیے حکومت کے اب تک کام آئی ہے‘ آئندہ بھی کام آ سکتی ہے۔ دہشت گردی‘ ٹارگٹ کلنگ ‘ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے خلاف فوج و رینجرز کے آپریشن نے حکومت کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے میں مدد دی ہے۔ رٹ آف گورنمنٹ بحال کرنے میں فوج کا کردار ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ فوج حکومت کی پشتی بان‘ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم نہ ہوتی تو دھرنا ختم ہونے کے باوجود حکومت ڈانواں ڈول ہی رہتی۔
اس مہلت عمل سے بھر پور فائدہ اٹھا کر حکمران اور اہل سیاست اپنی صفوں سے جرائم پیشہ اور کرپٹ افراد کو بآسانی خارج کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر ماضی کی طرح وہ ''کہیں ایسا نہ ہوجائے ‘کہیں ایسا نہ ہو جائے ‘‘ کی کیفیت کا شکار رہے‘ ایم کیو ایم کی طرح رینجرز کو اپنا حریف اور آصف علی زرداری کی طرح نیب‘ ایف آئی اے اور دیگر قومی اداروں کو صوبائی معاملات میں مداخلت کا مرتکب جانا اور ان کے اقدامات کوسیاسی انتقام سمجھا تو پھر حالات سدھرنے کے بجائے مزید بگاڑ کا شکار ہوں گے۔ آپریشن تو نہیں رکے گا البتہ احتساب کا دائرہ مزید وسیع ہو گا اور پھر معلوم نہیںکون کون اس کی زدمیں آئے۔ مقبولیت سے خائف عناصر کو اپنے گریبان میں جھانکنا اور اپنی کوتاہیوں کا ادراک کرنا چاہیے۔ طوفان بلاخیز کے راستے میں کھڑی ہونے والی چھوٹی موٹی رکاوٹیں اپنا ہی نقصان کرتی ہیں کسی دوسرے کا نہیں ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے