تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     29-09-2015

ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی

کسی بھی ملک کے نظام کی ریڑھ کی ہڈی اُس کا نظام عدل و انصاف ہوتا ہے۔ یہ نہ موقع ہے اور نہ دستور کہ اس کالم کی تنگ دامانی کے پیش نظر ہماری اعلیٰ عدلیہ کے عروج و زوال کی خون کے آنسو رُلا دینے والی داستان یہاں بیان کی جائے۔ چیف جسٹس منیر سے لے کر چیف جسٹس ڈوگر تک زوال ہی زوال ۔ پستی ہی پستی۔ ہمارے آئین کی محافظ عدلیہ کے پائوں تلے اُسی آئین کی پامالی کے بھیانک اور بدبودار نشانات ہر قدم پر نظر آتے ہیں۔ ایک فوجی آمر کی خوشنودی کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کو قانونی طور پر بے حد مشکوک اور کمزور مقدمہ قتل میں پھانسی کی سزا دی گئی۔ بے ضمیری اور بے اُصولی پر مبنی شرمناک فیصلوں کا جواز بنانے کے لئے نظریہ ضرورت تراشا گیا۔ (یہ وہ دلیل ہے جو زنا بالجبر کا ہر مجرم دے سکتا ہے۔) صد آفرین ہے جسٹس وجیہہ الدین احمد‘ جسٹس سعید الزمان صدیقی‘ جسٹس فخر الدین جی ابراہیم اور ان جیسے دوسرے جج صاحبان پر جنہوں نے ایک فوجی آمر (پرویز مشرف ) کے نافذ کردہ PCO پر حلف اُٹھانے سے انکار کر دیا اور اتنے بڑے عہدہ سے مستعفی ہو گئے‘ جس کو حاصل کرنے کے لئے لوگ ساری عمر خواب دیکھتے ہیں۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اس فوجی آمر کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا۔ ایک عرصہ تک اپنے گھر میں بال بچوں کے ساتھ نظر بندرہے‘ ایک زبردست عوامی تحریک کی بدولت بحال ہوئے اور صرف ہماری ہی نہیں بلکہ عالمی تاریخ میں ایک نیا باب لکھا گیا۔ اُن کی جُرأت‘ بہادری‘ پامردی اور استقلال پر پہلے ہی ہزاروں من پھول نچھاور کئے جا چکے ہیں۔ مزید تعریف غیر ضروری ہوگی۔ آج کا کالم جناب جسٹس جواد ایس خواجہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے لکھا جا رہا ہے۔ یہ سُطور اُن کی نذرہیں۔ گم شدہ افراد کی بازیابی سے لے کر (آئین کے مطابق) اُردو کو سرکاری زبان بنانے کے احکامات تک‘ وہ نہ صرف سنگ میل ہیں بلکہ روشنی کے مینار بھی۔ اُنہوں نے اپنی عدالتی زندگی کی سب سے اچھی‘ فکر انگیز اور موجودہ نظام کُہنہ اور نظام بَد Status Quo پر کاری ضرب لگانے والی تقریر اپنی الوداعی تقریب میں کی۔ یہ تقریر بالِ جبریل اور ضرب کلیم ہے اور بانگ دِرا بھی۔ شاعر مشرق و مغرب اقبالؔ نے وہ چار عناصر گنوائے تھے جو اکٹھے ہوں تو ان کے مجموعہ سے وہ مسلمان بنتا ہے۔ جو قدم بڑھائے تو دریائوں کے دل دہل جاتے ہیں اور دیکھے تو اُس کی نگاہ سے تقدیر بدل جاتی ہیں۔ اقبال ؔکے تین مندرجہ بالا شعری مجموعوں کے نام اکٹھے کئے جائیں تو جناب جواد خواجہ کی وہ تقریر مرتب ہوتی ہے‘ جو اُنہوں نے 9 ستمبر کی شام اسلام آباد میں اپنے الوداعی ریفرنس میں کی۔ یہ کالم نگار اپنے قارئین سے درخواست کرتا ہے کہ اگر آپ احوال وطن کی بہتری میں تھوڑے سے بھی سنجیدہ ہیں تو اس تقریر کو غور سے پڑھیں۔ بار بار پڑھیں‘ بقول اقبالؔ (شاعر مشرق و مغرب) جب سے ہمارے دلوں میں اجتماعی عدل‘ سماجی انصاف‘ مساوات اور انسانی حقوق سے عشق کی آگ بجھ گئی ہے‘ ہم اندھیرے میں ڈوب گئے ہیں۔ ہم راکھ کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ جواد خواجہ نے الوداعی تقریر میں موجودہ نظام کی خرابیاں‘ ہمہ گیر خرابیاں‘ ان گنت خرابیاں جس عالمانہ انداز میں‘ دردمندی اور خرد مندی سے گنوائیں اُس سے وطن عزیز سے ہزاروں میل دُور رہنے والے اور دُنیا بھر میں بیٹھے ہوئے محب وطن پاکستانیوں کی یہ جان کر ڈھارس بندھی کہ ع
ایسی چنگاری بھی یارب اپنی خاکستر میں تھی
اس Land Mark (عہد ساز) تقریر کے بعد جناب جواد خواجہ صاحب کا کام ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا ہے۔ رب ذوالجلال نے اُنہیں حکم اذاں دیا ہے‘ تاکہ وہ جماعت (برسر اِقتدار اور مراعات یافتہ طبقات) کی آستینوں میں چھپے ہوئے تمام بتوں کو توڑنے کے جہاد کی قیادت کر سکیں۔ ایوب خان کی فوجی آمریت کے سامنے ہزاروں وکیلوں میں سے کوئی نہ بولا نہ کوئی صحافی اور نہ کوئی سیاست دان (ماسوائے عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی مرحوم کے)۔ قائداعظم کی بے خوف اور بہادر بہن فاطمہ جناح نہ ہوتیں تو شاید کوئی اور شخص ایوب خان کے خلاف صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی جرأت بھی نہ کرتا۔ دس سالہ طویل فوجی آمریت کے خلاف باغیانہ آواز بلند کرنے کی سعادت تین شاعروں کے حصہ میں آئی۔ فیض احمد فیض‘ حبیب جالبؔ اور احمد فراز۔ حبیب جالبؔ کے وقت ہماری آبادی آج کے مقابلہ میں نصف تھی‘ اس لئے انہوں نے دس کروڑ انسانوں کو مخاطب کرتے بلکہ للکارتے ہوئے کہا کہ دس کروڑ انسانو‘ زندگی سے بیگانو! ع
دوستوں کو پہچانو، دُشمنوں کو پہچانو
پاکستان کے متوسط اور تعلیم یافتہ طبقہ کے ضمیر میں مغرب کی ذہنی اور ثقافتی غلامی رچ گئی ہے۔ وہ صرف انگریزی بولتا نہیں بلکہ سوچتا بھی انگریزی میں ہے۔ وہ پرائمری سکول کی تعلیم سے لے کر زندگی کی آخری سانس تک شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان اُٹھانے کا اتنا ہی عادی ہو جاتا ہے جتنا سانس لینے کا۔ جناب اقبالؔ اُس سے توقع رکھتے تھے کہ وہ سفال پاک سے مینار وجام پیدا کرے گا‘ وہ جوئے شیر تو لا سکتا ہے مگر یہ کٹھن کام ہر گز نہیں کر سکتا۔ اقبال کے وقت میں مشرقی اقوام اتنی کمزور تھیں کہ اُنہیں ممولہ سے تشبیہہ دی گئی اور بالا دست مغربی سامراج کو شہباز سے۔ طاقت میں اس عدم توازن کے باوجود اقبال انسانی تاریخ کے جدلیاتی عمل پر یقین رکھتے ہوئے نہ صرف ممولہ کو شہباز سے لڑنے کی ترغیب دیتے تھے بلکہ اُس کی فتح کی بشارت بھی دیتے تھے۔ یہ ایک فتح نہیں بلکہ فتوحات کا ایک سلسلہ ہے جو ویت نام سے لے کر افغانستان‘ مشرق وسطیٰ میں حماس اور حزب اللہ اور شمالی افریقہ میں الجزائر کی جنگ آزادی میں کامیابی تک پھیلا ہوا ہے۔ اِن مشرقی ممالک میں جو بھی حملہ آور ہوا‘ اُس کو زبردست شکست ہوئی۔ چاہے وہ امریکی ہو یا برطانوی یا فرانسیسی یا رُوسی یا اسرائیلی یا نیٹو افواج۔ ممولہ کی فتح در فتح۔ شہباز کی شکست در شکست۔ انجیل مقدس میں اسے غلیل چلانے والے نوخیز David (حضرت دائود) اور گرز برسانے والے رستم زمان پہلوان (Goliath) کے درمیان اُس جنگی مقابلہ کی صورت میں بیان کیا گیا ہے جس میں غلیل چلانے والا نوجوان اپنی کم عمری اور مضحکہ خیز ہتھیار کے باوجود جیت گیا اور رُستم زمان چاروں شانے چت کر گیا۔ فوجی ماہرین کہتے ہیں کہ دور حاضر میں جنگ میں کامیابی کے لئے تین چیزیں درکار ہیں۔ فضائیہ‘ ٹینک اور بڑی توپیں۔ کتنے کمال کی بات ہے کہ ویت نام‘ افغانستان‘ مشرق وُسطیٰ سے لے کر الجزائر تک جہاں بھی آزادی کے لئے مسلح جدوجہد کی گئی‘ وہاں مجاہدین کے پاس نہ فضائیہ تھی‘ نہ ٹینک اور نہ بڑی توپیں مگر کامیابی نے ہمیشہ ان کے قدم چومے ۔ ذلت اور شکست غاصبوں اور حملہ آوروں کے حصہ میں آئی۔ تقدیر کے قاضی کا یہی فتویٰ ازل سے چلا آرہا ہے اور ابد تک چلتا جائے گا۔
یہاں تک سطور لکھی جا چکی تھیں کہ مجھے پڑوسی ملک آئر لینڈ جانا پڑا۔ صرف ایک دن کے لئے اور ایک عدالتی کام کے سلسلہ میں ۔ اگلے ہی دن مجھے لندن کی ایک عدالت میں مقدمہ میں وکالت کرنا تھی۔ پرواز اتنی صبح سویرے تھی اور ڈبلن (آئرلینڈ کے دارالحکومت) کی سیر کرتے کرتے اتنی دیر سے رات کوسویا کہ ڈر تھا کہ بر وقت جاگ نہ سکوں گا اورایئر پورٹ نہ پہنچ سکوں گا۔ ہوٹل والوں نے میری یہ مدد کی کہ اُنہوں نے مجھے جگانے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ ہوٹل کی زبان میں اسے Wake up Call کہتے ہیں۔ میں جب تک نہ جاگا (جو کافی مشکل کام تھا) ہوٹل کا شب بیدار عملہ بار بار فون کی گھنٹی بجاتا رہا۔ سانحہ ماڈل ٹائون سے لے کر سانحہ قصور تک۔ گدھے کے گوشت کی فروخت سے لے کر نندی پور سیکنڈل تک‘ یہ پوری قوم کے لئے Wake up Calls ہیں ۔برائے مہربانی آپ خود جاگیں اور دوسروں کو بھی جگائیں۔ بقول شاہ دین ہمایوںع 
اُٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved