تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-09-2015

یہ کالم قارئین کے لیے نہیں ہے!

زندگی کے پانچ عشرے لاپروائی اور غیر ذمہ داری کے باوجود نہایت عمدہ عید گزارتے ہوئے گزرے ہوں تو عادتیں تبدیل کرنا خاصا مشکل کام ہے۔ میں گزشتہ تین سال سے اپنی عادتیں بدلنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہوں اور اس میں اس حد تک کامیاب ہوا ہوں کہ مجھے خود بھی حیرت ہوتی ہے کہ میں کتنا بدل گیا ہوں مگر اب ہر چیز اس طرح نہیں بدلی جا سکتی کہ ذہن کے درودیوار سے ہر شے کھرچ دی جائے۔ گھر میں عید کا بڑا اہتمام ہوتا تھا۔ بچپن سے لے کر اب تک۔ اب تک سے مراد تین سال پیشتر تک ہے۔ کبھی یہ علم نہیں تھا کہ یہ اہتمام کیسے ہوتا ہے مگر ہوتا تھا۔ پہلے والدہ کرتی تھیں اور پھر میری اہلیہ۔ درمیان میں کئی سال دونوں مل کر یہ اہتمام کرتی رہیں۔ ادھر بکرا ذبح ہوا اور ادھر اس کی کلیجی‘ گردے اور دل باورچی خانے آگیا۔ والدہ تب تک سارا اہتمام کرکے بیٹھی ہوتی تھیں۔ دیگچی چولہے پر ہوتی تھی۔ پیاز‘ لہسن‘ ادرک وغیرہ بھونے جا چکے ہوتے تھے۔ دوسرے چولہے پر توا رکھا ہوتا تھا اور گرما گرم اصلی گھی کے پراٹھے۔ سوندھی سوندھی خوشبو والے سنہرے پراٹھے جن پر سرخی مائل چیتیاں ہوتی تھیں۔ خستہ اور کرکرے۔ ویسے پراٹھے تو اب خواب ہو چکے ہیں۔ جونہی کلیجی بھونی جاتی ہم باورچی خانے میں آ جاتے۔ لکڑی کی چوکیاں‘ بان کی بنی ہوئی پیڑھیاں اور چپس والی شیلف کے ساتھ پڑی دو کرسیاں۔ جس کو جہاں جگہ ملتی بیٹھ جاتا۔ گھر میں ڈائننگ ٹیبل موجود تھا مگر صرف مہمانوں کے کام آتا تھا۔ والدہ کی زندگی تک ناشتہ باورچی خانے میں عموماً زمین پر بچھی ہوئی پیڑھیوں اور چوکیوں پر بیٹھ کر ہوتا رہا۔ پھر سب کچھ بدل گیا۔ کوکنگ رینج آگیا۔ پیڑھیاں اور چوکیاں اللہ جانے کہاں چلی گئیں۔ سل بٹہ غائب ہوگیا۔ لوہے کا بیس کلو وزنی حمام دستہ بھی اس طرح اڑن چھو ہوا کہ پتہ ہی نہ چلا کہاں گیا۔ دس بارہ کلو وزنی واہ سے آئی ہوئی ''دوری‘‘ گھر شفٹ کرتے ہوئے ایسی ٹوٹی کہ دوبارہ خریدنے کی ہمت ہی نہ ہوئی۔ اس دوری کا لکڑی والا ڈنڈا رہ گیا تھا‘ پھر وہ بھی غائب ہوگیا۔
لے دے کر اب باورچی خانے میں والدہ مرحومہ کے جہیز میں آئے ہوئے چکلے بیلنے کا بیلن تو کہیں گم ہو چکا ہے مگر سنگ مر مر کا سفید چکلہ موجود ہے۔ کام کرنے والی کو کہہ دیا ہے کہ وہ اسے استعمال نہ کرے۔ کیا خبر کس دن اسے گرا کر توڑ دے۔ اسی طرح ایک الماری میں والدہ مرحومہ کے جہیز کا ڈنر سیٹ سجا کر رکھ دیا ہے۔ سالن والے دونوں ڈونگے ٹوٹ گئے ہیں‘ باقی ہر چیز سلامت ہے۔ چوبیس پلیٹیں‘ تین ڈشیں اور ایک دہی وغیرہ کا چھوٹا سا ہینڈل والا پاٹ۔ آخری بار تب نکالا تھا جب میری بڑی بیٹی کی دعائے خیر تھی اور ابا جی نے کہا کہ آج مہمانوں کو کھانا اس خاندانی ڈنرسیٹ میں کھلانا۔ بعد میں سارا سیٹ میری اہلیہ نے خود اپنے ہاتھوں سے دھو کر الماری میں رکھ دیا۔ گزشتہ چھ سال سے اسے صفائی کے لیے بھی الماری سے نہیں نکالا گیا۔ میری اہلیہ کے جہیز میں آیا ہوا کٹلری سیٹ میری بڑی بیٹی اپنے ساتھ امریکہ لے گئی ہے۔ ساگ پکانے کے لیے لی گئی مٹی کی روغنی بڑی سی ہانڈی آخری بار سلامت دیکھی تھی پھر پتہ نہیں کہاں چلی گئی۔ ماں جی کے جہیز کے پیتل اور تانبے کے کچھ برتن پڑے ہیں جن کی قلعی اتر چکی ہے‘ سوچتا ہوں کسی روز انہیں قلعی کروائوں گا۔ اب قلعی والے گلیوں میں ''بھانڈے قلعی کرا لو‘‘ کی آواز نہیں لگاتے۔ شاہ جی نے بتایا ہے کہ دہلی دروازے کے اندر ایک قلعی گر اب بھی بیٹھا ہوتا ہے۔ کسی روز اس کے پاس جائوں گا۔ برتنوں کو گرم کرکے اس میں تیزاب ڈال کر باقی ماندہ قلعی اتارنے اور نوشادر کے ساتھ دوبارہ قلعی کرنے کا عمل دیکھے شاید چالیس سال بیت گئے ہیں۔
قارئین! میں معذرت خواہ ہوں کہ خدا جانے کونسا قصہ لے کر بیٹھ گیا ہوں ۔ممکن ہے میری عمر کے کچھ قارئین کو اس قسم کی باتوں سے اور کالم سے کوئی دلچسپی ہو لیکن نوجوان تو اس سارے ماحول کو گمان میں لانے سے بھی قاصر ہوں گے جس ماحول اور وقت کی میں باتیں کر رہا ہوں۔ خدا جانے میں یہ کس قسم کی باتیں لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ کبھی کبھی مجھے شک سا پڑتا ہے کہ شاید ایسے کالم کو کوئی نہیں پڑھتا ہوگا‘ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ ایسے کالم لکھنے میں آخر حرج ہی کیا ہے؟۔ اس کا ایک قاری تو موجود ہے اور وہ میں خود ہوں۔ کبھی کبھی سال میں ایک دو بار مجھے اپنے لیے بھی لکھنا چاہیے۔ آخر اپنے لیے لکھنے میں کیا حرج ہے؟۔ کسی کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟۔ شاید کسی کا وقت بھی ضائع ہو مگر اس میں خود پڑھنے والے کا قصور ہے۔ اسے پہلی دو تین سطروں کے بعد ہی اسے چھوڑ دینا چاہیے تھا کہ یہ اس کے مطلب کی چیز ہی نہیں تھا۔ پھر ایک خیال تقویت بھی دیتا ہے کہ میرے جیسے دو چار قاری تو ضرور ہوں گے جو میرے گھر کی روشنی میں اپنا گھر دیکھ سکیں گے۔ میرے باورچی خانے کے راستے اپنے باورچی خانے میں جا کر پیڑھی پر بیٹھیں گے۔ لکڑی کی چوکی پر براجمان ہو کر اپنی ماں کے ہاتھ کے پراٹھوں کی سوندھی سوندھی خوشبو محسوس کر سکیں گے۔ اگر آج کی صبح ایسے دوچار قارئین بھی مل جائیں تو یہ صبح غنیمت ہے۔
میرے بچپن میں عید کی صبح کھانے پینے کا آغاز قربانی کے گوشت سے ہوتا تھا۔ پہلے کلیجی اور پھر بھُنا ہوا گوشت۔ صبح اٹھ کر عید نماز سے واپسی تک باآواز بلند تکبیرات ہوتی تھیں اور کھانا پینا مکمل ممنوع تھا۔ عیدگاہ ایک راستے سے جاتے اور تھوڑا گھوم گھما کر دوسرے راستے سے واپسی کی سعی کی جاتی کہ ایسا کرنا سنت تھا۔ پھر آہستہ آہستہ اہتمام بڑھتا گیا۔ میری اہلیہ آئی تو عیدگاہ سے واپسی پر سویوں کی کھیر۔ ہاں سویوں کی کھیر سے یاد آیا۔ ہمارے بچپن میں سویوں کی کھیر صرف عیدالفطر پر بنتی تھی۔ مگر میری شادی کے بعد گھر میں عید کا اہتمام بڑھ گیا۔ ہر دو عیدین پر سویوں کی کھیر‘ فروٹ چاٹ‘ دھی بڑے‘ چٹ پٹے چنے‘ موسم ہو تو گاجر کا حلوہ اور کیک۔ مجھے بالکل علم نہیں کہ یہ سب کچھ کیسے ہو جاتا تھا۔ عید سے دوچار روز قبل میری اہلیہ ڈرائیور کے ساتھ بازار جاتی تھی‘ گھر میں کام کرنے والے ملازمین کے کپڑے خریدتی تھی۔ سویاں اور چھوہارے گھنٹہ گھر کے قریب ایک دکان سے خریدتی تھی۔ عید سے ایک روز قبل وہ دوبارہ بازار جاتی۔ پھل اور دہی ایک دن پہلے آ جاتا۔ دودھ کے لیے ہر عید پر یہ طے تھا کہ صوفی ایک دن پہلے خود پوچھے گا کہ کتنا دودھ زائد آئے گا۔ پہلے پانچ کلو زائد آتا تھا‘ آہستہ آہستہ آٹھ کلو ہوگیا۔ ٹرالی کئی بار سجتی اور کئی بار فارغ ہوتی۔ عید گاہ سے واپسی پر ابا جی میرے ساتھ واپس آتے۔ ساتھ بھتیجے ہوتے۔ پہلے بھانجے بھی ہوتے تھے مگر پھر ایک شہید ہوگیا اور دوسرا سال دو سال بعد ہمت کرکے خوشی غمی پر آ جاتا ہے۔ بہن آ جاتی۔ اس کی بیٹیاں اور داماد۔ بھتیجی اور اس کے بچے۔ سب قسطوں میں آتے۔ پھر میری دونوں بیٹیوں کے سسرال والے بھی نئے مہمانوں میں شامل ہو گئے۔ سارا دن رونق لگی رہتی۔
اب صبح ہوتی ہے۔ میں اور اسد اٹھتے ہیں۔ نہا کر تیار ہوتے ہیں۔ اسی اثنا میں جہاں زیب اور اورنگ زیب آ جاتے ہیں۔ عید نماز پر جاتے ہیں۔ گزشتہ سال تک ابا جی بھی ساتھ ہوتے تھے۔ گزشتہ سال بقر عید ابا جی کے ساتھ آخری عید تھی۔ نماز سے واپسی پر گھر آئے تو ٹیٹراپیک کے ڈبے والے دودھ میں پھینیاں ڈال کر دیں۔ ایک دم سے دکھی ہوگئے۔ کہنے لگے بہن کی طرف چلتے ہیں۔ وہاں سویاں پکی ہوئی ہیں۔ میں نے کہا‘ اب اس عمر میں عادتیں بدلنا مشکل ہیں۔ سب اس گھر میں آتے تھے۔ اب کوئی نہیں آتا مگر میرے لیے کہیں اور جانا بڑا مشکل ہے۔ اس روز خلاف معمول دیر تک میرے پاس بیٹھ رہے‘ وگرنہ انہیں قربانی کے لیے جانے کی بڑی جلدی ہوتی تھی۔ اس سال سب نے پہلی بار اپنے بکرے خود خریدے۔ یہ کام ابا جی کرتے تھے۔ پچھلے سال اپنی کمزوری اور ضعیف العمری کے باوجود بکرے لینے خود گئے۔ ساتھ اسد بھی تھا۔
عید کی صبح نماز سے واپسی پر میں نے اور اسد نے باورچی خانے کی کیبنٹ سے OAT MEAL کے دو پیکٹ نکالے۔ ڈبے کے دودھ میں ڈالے اور برائون شوگر کا ایک چمچ ڈال کر اوون میں ڈیڑھ منٹ پکایا اور لائونج میں بیٹھ کر کھا لیا۔ صوفی نے دودھ لینا بھی بند کردیا ہے کہ کون اسے وقت بے وقت اُبالتا پھرے۔ کل بازار سے سالن اور روٹیاں خریدی تھیں کہ کام والی عید کی چھٹیوں پر تھی۔ آج اسد نے فرمائش کرکے سفید اُبلے ہوئے چاول اور ثابت مسور پکوائے ہیں۔
قارئین! ایک بار پھر معذرت کہ میں نے آپ کی صبح خراب کردی۔ مگر میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ میں نے یہ کالم اپنے لیے لکھا ہے۔ اگر آپ نے پڑھ لیا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved