جنابِ جنرل پرویز مشرف کے اقتدار پر ما ورائے آئین قابض ہونے کے بعد انہوں نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے جو قوانین بنائے ، ان میں ایک اہم قانون National Accountibility Bureau Ordinance تھا اور اس کا مقصد ایک ''ادارہ قومی احتساب ‘‘ کا قیام تھا ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، اس کا مقصد نیک تھا ، مگر جنگِ صفین میں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تنازع کے خاتمے کے لیے ایک ثالثی نظام پر رضا مندی ظاہر کی اور باہمی اتفاقِ رائے سے دو حکَم یعنی منصف یا ثالث مقرر کر دیے گئے ، تو آپ کے لشکر سے خوارج کی صورت میں ایک گروہ بغاوت کرتے ہوئے نکلا اور یہ نعرہ لگا یاکہ : ''إِنِ الْحُکْمُ إِلاَّ لِلّہِ ‘‘۔ یعنی حکم توصرف اللہ کا چلنا ہے اور آپ نے بندوں کو'' حَکم ‘‘مان کرمعاذ اللہ! کفر کو اختیار کر لیا ۔ ان کا یہ نعرہ قرآن مجید کی ان دو آیات سے ماخوذ تھا : (1) '' حکم تو بس اللہ ہی کا چلے گا ، وہ حق بیان کرتا ہے اور وہ بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے ، (الاَنعام : 57)‘‘۔ (2) '' حکم کا اختیار تو صرف اسی ذاتِ باری تعالیٰ کو ہے اور وہ بہت جلد حساب لینے والا ہے ، (الاَنعام : 62)‘‘۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ''یہ کلمہ تو بلا شبہ حق ہے ، لیکن اس کو باطل مقصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے ‘‘۔ یہی صورتِ حال ادارۂ قومی احتساب کی تھی کہ اس کے ذریعے سیاست دانوں کو ڈرا دھمکا کر اور گھیر کرسرکاری کارخانے میں نئی تشکیل کر دہ جماعت ''قائدِ اعظم مسلم لیگ ‘‘ کے باڑے میں جمع کیا گیا ۔ چنانچہ جب 2002 ء کے قومی انتخابات کے بعد اہلِ اقتدار کی سعیِ بسیار کے باوجود جنابِ ظفر اللہ خان جمالی بمشکل صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم منتخب ہوئے ،تو انہوں نے کہا کہ ارکانِ اسمبلی نے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیے ہیں ۔ اس پر مولانا فضل الرحمٰن نے پھبتی کسی کہ بلا شبہ ضمیر کے مطابق دیے ہیں ، لیکن سینوں میں دھڑکنے والے ضمیر کے مطابق نہیں بلکہ اُس وقت کے آئی ایس آئی کے ''جنرل ضمیر ‘‘ یعنی جنابِ جنرل احتشام ضمیر مرحوم کی ہدایات کے مطابق دیے ہیں ، کیونکہ وہ وہی الیکشن سیل کے انچار ج تھے ۔
مذکورہ ''ادارہ ٔ قومی احتساب ‘‘ کے دائرہ اختیار میں "Plea Bargain"کی دفعہ بھی موجود ہے ، اس کی رو سے اس ادارے کے سربراہ کو اختیار دیا گیا ہے کہ اگر کوئی ملزَم اپنے خلاف تحقیقات کے کسی مرحلے میں عدالت میںمقدمہ چلائے جانے سے پہلے یہ استدعا (Plea) کرے کہ میں سرکاری خزانے سے ناجائز طور پر لُوٹی ہوئی رقم واپس کرتا ہوں اور میرے خلاف دائر مقدمہ واپس لے لیا جائے تو نیب کا چیئر مین اس استدعا کو قبول کر سکتا ہے اور سرکاری خزانے میں واپس کی جانے والی رقم کی مقدار کا تعین کر کے اور احتساب عدالت سے منظوری لے کر یہ معاملہ طے کر سکتا ہے ۔ بارگین کے معنیٰ سودا کاری کے ہیں ، یعنی سرکاری خزانے میں لوٹائی جانے والی رقم کا تعین بات چیت کے ذریعے کرنا ۔ اِسے ہم اپنی سیاسی اور کاروباری اصطلاح میں ''مُک مُکا ‘‘ سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں ، پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب ِ عمران خان آج کل اس اصطلاح کا بکثرت استعمال کر رہے ہیں ۔
اس عنوان کو میں نے اپنے کالم کا موضوع اس لیے بنایا کہ پاکستان کے دو سابق چیف جسٹس صاحبان یعنی جناب جسٹس (ر) افتخار محمد چوہدری اور جناب جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ اس پر پھبتی کستے رہے ہیں کہ Plea Bargain ایک طرح سے کرپشن کو تحفظ دینا اور قانونی جواز عطا کر نا ہے ۔ بادیُ النظر (Prima Facie)میں عدالت کے یہ ُملاحظات (Observations)اور ریمارکس درست ہیں ، لیکن یہ ملکی قانون (Law of the Land) کے مطابق ہیں ، کیونکہ ادارۂ قومی احتساب کے قانو ن میں اس کی گنجائش رکھی گئی ہے ، حالانکہ اس میں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ملزَ م پر اصل چارج یا دعویٰ کتنی رقم کا تھا اورمعاملہ طے ہونے کے بعد دونوں رقوم میں فرق کتنا رہا اور آیا یہ فرق حقیقی تھا یا دعوے میں دباؤ ڈالنے کے لیے مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا تھا ، مزید یہ کہ اس میں اختیارات کا ناجائز فائدہ تو نہیں اٹھایا گیا ؟ ۔
ہماری نظر میں ہم جیسے اناڑی کا پلی بارگین کے اختیار پر تبصرے اور اس سے اختلاف کا جواز تو بنتا ہے، لیکن ہماری عدالت عظمیٰ کے عزت مآب چیف جسٹس صاحبان کے لیے نہیں بنتا ، کیونکہ ان کی نظر میں اگر یہ قانونی اختیار اور اس کا استعمال فلسفہ ٔ قانون ، روحِ قانون اور تقاضائے عدل کے منافی ہے ، تو انہیں پارلیمنٹ اور حکومت کو اسے تبدیل کرنے کی ہدایت یا کم از کم مشورہ دینا چاہیے ۔ کیونکہ محض عدالتی ریمارکس سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ، اِن سے الیکٹرانک میڈیا کو بریکنگ نیوز یا پرنٹ میڈیا کو جھلکیاں اور سرخیاں تو مل جاتی ہیں ، لیکن کتا کنوئیں ہی میں پڑا رہتا ہے ، جبکہ بااختیار شخصیات کی ذمے داری مسئلے کے حل کی راہ نکالنا ہوتا ہے ۔پلی بارگین کے قانونی اختیار کو ختم کرنے سے پہلے اس امر کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے کہ سرکاری خزانے کو پلی بارگین سے زیادہ فائدہ پہنچا یا بعض مقدمات کو حتمی عدالتی مرحلے تک پہنچانے سے تاکہ نفع و نقصان کا تخمینہ لگایا جا سکے۔
ہماری رائے میں ادارۂ قومی احتساب کے چیئر مین کو یہ اختیا ر دینے کی حکمت یہ ہو سکتی ہے کہ ہمارے فوج داری (Criminal)اور دیوانی (Civil)قوانین کے نفاذ کا طریقۂ کاریا ضابطے (Procedural Law)اتنے پیچیدہ اور تہ در تہ ہیں کہ ان سے گزر کر کسی ملزَم کو مجرِم کے درجے تک پہنچانا عقلاً تو نہیں مگر عادتًا محال ہے اور ہمارے ضوابط کار کی اِسی پیچیدگی سے بچنے کے لیے اکیسویں آئینی ترمیم عمل میں آئی اور دو سال کے عرصے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی گئیں ۔ ان پیچیدہ ضوابط کی نگہداشت و پرداخت کے لیے ہماری قابل ِ احترام بار کونسلیں اور مختلف سطح کی وکلاء انجمنیں ( Bar Associations) ہر آن اور ہر لمحے چو کنّا اور متحرک رہتی ہیں اور ہماری قابلِ احترام عدلیہ بھی کسی حد تک یا کافی حد تک اس کی پشتیبان ہے ۔ہمارے رویوں اور تجزیوں میں ایک بنیادی نقص یہ ہے کہ ہم قوانین اور ضوابطِ قانون اور تفتیش و تحقیق کے معیارات تو مغربی نظام سے مستعار لیتے ہیں ، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ آیا ہمارے زمینی حقائق ان کے مطابق ہیں ،ہمارے تفتیشی و تحقیقی ادارے اتنے آزاد ہیں اور یہ کہ ہمارے ان اداروں کو وہ وسائل اور جدید تحقیقی و تفتیشی سہولتیں دستیاب ہیں ؟۔پس لازم ہے کہ قوانین اپنے معروضی حالات ، زمینی حقائق ،اَخلاقی معیار اور دستیاب وسائل کے گہرے مطالعے کے بعد بنائے جائیں تاکہ وہ محض کا غذ کی زینت نہ بنے رہیں اور اعلیٰ عدالتوں اور بار کونسلوں کی لائبریریوں میں حسین مجلدات میں سجے ہی نہ رہیں بلکہ ان سے ملک و قوم کو فیض بھی ملے ،ہمارا نظامِ عدل بر گ و بار بھی لا سکے ،عوام اس نظامِ عدل کے سائے تلے راحت و سکون کے سانس لے سکیں اور ہم اقوامِ عالم کے درمیان احساسِ افتخار واعتماد کے ساتھ سر بلند نظر آئیں ۔
ہماری پوری تاریخ ِ عدل میں صرف جنابِ جسٹس (ر) جواد ایس خواجہ واحد مثال ہے کہ انہوں نے نظامِ عدل میں رکاوٹوں کا بیان کر تے ہوئے عدلیہ اور ادارۂ وکلاء کو بھی اس میں شامل فرمایا ، پولیس اور تفتیشی اداروں کو تو ہمیشہ ہر ایک ذمے دار قرار دیتا رہا ہے اور بلا شبہ ان پر بنیا دی ذمے داری بھی عائد ہوتی ہے ، مگر ان کی مجبوریاں اور تحدیدات (Limitations)بھی کچھ کم نہیں ہیں ، جن میں ان اداروں کا سیاست زدہ ہونا (Politiciesed)ہونا خشتِ اول ہے اور یہی ہماری بہت سی سماجی اور اَخلاقی خرابیوں کے لیے ''اُم ّالامراض ‘‘ہے ۔
سیاست دانوں کی خود غرضی کا عالم یہ ہے کہ جنابِ جنرل (ر) پرویز مشر ف کے National Accountibility Ordinance سے تو وہ ناراض ہیں ، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کا پنج سالہ اور مسلم لیگ ن کا ڈھائی سالہ دور گزرنے کے باوجود ہمارے پارلیمنٹ احتساب کا قانون نہ بنا سکی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان جب بھی اس طرح کا کوئی قانون بنانے یا اس کا جائزہ لینے یا اس کے بارے میں سوچنے کے لیے بیٹھتے ہیں تو سب سے پہلے اپنی گردن کو ناپتے ہیںاور اپنی فکر انہیں لاحق ہو جاتی ہے کہ ہو نہ ہو یہ پھندا ہماری ہی گردن میں فِٹ ہو گا ، ان کے دل کی کیفیت کا عالم جناب حفیظ جالندھری نے اپنے اس شعر میں بیان کیا ہے :
ارادے باندھتا ہوں ، سوچتا ہوں ، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے ، کہیں ایسا نہ ہو جائے
یہی وجہ ہے کہ ہمارے قانون ساز اپنے وقتی اورعارضی مفاد کو دیکھ کر قانون بناتے ہیں اور ان کے قانون ان کے ساتھ ہی دفن ہوجاتے ہیں ، نہ و ہ دیر پا ثابت ہو تے ہیں اور نہ ہی ان کی برکات سے ملک و قوم صحیح معنیٰ میں مستفید ہوپاتے ہیں ۔