حال ہی میں چین کے ماہرین نے اس امر پر دادِ تحقیق دی ہے کہ انسان اندھیرے سے خوف کیوں کھاتا ہے۔ دور کی کوڑی یہ لائی گئی ہے کہ انسان اندھیرے سے خوف زدہ نہیں ہوتا بلکہ در حقیقت وہ رات سے ڈرتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ انسان رات کی تاریکی سے ڈرتا ہے، دن کی تاریکی سے نہیں۔ اب آپ سوچتے ہی رہیے کہ تاریکی تو تاریکی ہوتی ہے، اس میں دن اور رات کا کیا فرق؟
مرزا تنقید بیگ آج کل فارغ ہیں۔ ہم نے سوچا کیوں نہ ذرا بے باکی سے کام لیتے ہوئے خوف کے موضوع پر ان سے رائے طلب کی جائے۔ مرزا کو تاریکی سے کبھی خوف لاحق نہیں رہا، دماغ کی تاریکی سے بھی وہ بس برائے نام ہی ڈرتے ہیں! انہیں جب کبھی اپنے دماغ کی تاریکی سے خوف محسوس ہوتا ہے تو سارا کا سارا خوف ہماری طرف اچھال دیتے ہیں۔ یعنی ایسے دلائل بروئے کار لاتے ہیں کہ ہمارا دماغ تاریکی میں گم ہوجاتا ہے، بلکہ آنکھوں کے سامنے ''ہنیر پے جاندا اے!‘‘ خوف کے موضوع پر ان کی بے باک گفتگو نے بھی کچھ ایسا ہی ماحول پیدا کیا۔
مرزا نے پہلے تو، حسبِ عادت و توفیق، تحقیق کے نام پر اندھیر اور اندھی مچانے والوں کو پرجوش ''خراجِ تحسین‘‘ پیش کیا۔ اور یہ ''انکشاف‘‘ بھی کیا کہ معاشرتی امور سے متعلق تحقیق کرنے والوں ہی کی مہربانی سے اب لوگ کسی معاملے میں تحقیق کے محتاج و منتظر نہیں رہے اور اپنی صوابدید کو بروئے کار لاکر بہتر زندگی بسر کر رہے ہیں!
محققین و ماہرین سے متعلق ritual سے فارغ ہوکر مرزا نے چین کا رخ کیا۔ خوف اور تاریکی کے تفاعل سے متعلق خبر چین ہی سے تو ''بریک‘‘ ہوئی ہے۔ مرزا بولے : ''چین ہمارا دوست ہے اور ہر برے وقت میں اس نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ از کار رفتہ موضوعات پر چین میں دادِ تحقیق دیئے جانے پر حیران بھی ہوں اور پریشان بھی۔ چین ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں وہ اپنا آپ منوا رہا ہے اور ہم جیسے ناتواں ممالک کو بھی توانا کرنے کی راہ ہموار کر رہا ہے۔ ایسے میں یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ رات کی تاریکی سے خوف کھانے جیسے معاملات پر تحقیق میں وقت ضائع کیا جائے۔‘‘
ہم نے ان کی برق رفتار شعلہ بیانی کو لگام دینے کی کوشش کرتے ہوئے عرض کیا کہ تحقیق کو چند خاص امور تک تو محدود نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کو معلوم تو ہونا ہی چاہیے کہ آخری وہ رات کی تاریکی سے کیوں ڈرتا ہے۔ اگر وہ رات کی تاریکی سے خوف کھانے کا سبب جانے بغیر دنیا سے چلا گیا تو؟
مرزا نے خاصی متوحّش نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور بظاہر کچھ بڑبڑاتے ہوئے جواب دیا : ''جن ممالک نے خوب ترقی کرلی ہے ان کے پاس کرنے کو کچھ خاص رہا نہیں اس لیے وہاں کے محققین انٹ شنٹ موضوعات پر تحقیق میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ اور کبھی کبھی تو وہ اپنے لیے موضوع پیدا کرنے پر بھی مجبور ہوتے ہیں! تحقیق کے نام پر گرانٹ بٹورنے کے لیے موضوع کا ہونا لازم ہے۔ چین ابھی ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔ ایسے میں اس کا ان چونچلوں میں الجھنا ٹھیک نہیں۔
ہم عرض گزار ہوئے کہ دنیا بھر میں لوگوں نے اسی طور ترقی کی ہے۔ موضوعات کے مخصوص دائرے میں رہتے ہوئے کوئی بھی قوم کبھی آگے بڑھی ہے نہ بڑھ سکے گی۔ چین کی 120 خواتین پر کیے جانے والے تجربے سے معلوم ہوگیا ہے کہ انسان کو ڈرانے والی چیز تاریکی نہیں بلکہ رات کی تاریکی ہے۔
مرزا نے اپنی زبان کے گھوڑے کو تپ کر ایڑ لگائی : ''خوف کا سبب جان لینے سے کیا مل گیا؟ جن 120 خواتین نے اپنی طرزِ عمل سے ثابت کیا کہ خوف تاریکی سے نہیں، رات کی تاریکی کے بطن جنم لیتا ہے کیا انہوں نے ڈرنا چھوڑ دیا ہے؟‘‘
ہم نے پھر التماس کا سا انداز اختیار کرتے ہوئے عرض کیا کہ تاریکی سے پیدا ہونے والے خوف کا سبب معلوم ہوگیا ہے تو اب تدارک سے متعلق بھی تحقیق کا ڈول ڈالا جاسکتا ہے۔
یہ سن کر مرزا پھٹ پڑے : ''چینی ماہرین کی اس تحقیق کی روشنی میں تو کسی کو تاریکی سے خوف نہ کھانے کی تحریک اسی وقت دی جاسکتی ہے جب رات کا وجود ختم کردیا جائے! کیا ماہرین کائنات کا نظام تلپٹ کرنا چاہتے ہیں؟ یعنی زمین کی گردش روک کر اس کا منہ سورج کی طرف کردیا جائے تاکہ نہ رات ہو نہ کسی کو خوف محسوس ہو!‘‘
ہمیں کچھ اندازہ نہ تھا کہ 120 چینی خواتین پر کی جانے والی تحقیق کا نتیجہ یوں اچھل کر سورج اور زمین کے تعلق تک جا پہنچے گا اور نظام شمسی کا تکوینی بندوبست خطرے میں پڑ جائے گا!
بحث کا میدان ہو تو مرزا کا دماغ بھرپور اجالے کا ثبوت دیتا ہے۔ فریقِ ثانی کا منہ بند کرنے کے لیے دلائل دینا ہوں تو وہ کائنات کی وسعتوں کو پاٹتے ہوئے کروڑوں نوری سال کے فاصلے پر پایا جانے والا کوئی نکتہ بھی گھسیٹ کر اپنی گفتگو میں داخل کرلیتے ہیں۔ ایک ذرا سے خوف کا معاملہ کہاں سے کہاں نکل جائے گا، ہمیں گمان تک نہ تھا۔ حواس کچھ بحال ہوئے تو ہم نے سوچا مرزا کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہہ رہے۔ کوئی کیوں خوفزدہ ہے یہ جاننے سے زیادہ اہم تو یہ بات ہے کہ اس خوف سے پنڈ کیسے چھڑایا جائے۔ اب دیکھیے نا، ہمیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ہمیں کسی نہ کسی بہانے ذہنی الجھن میں مبتلا کرنے والی ہستی مرزا کی ہے۔ مگر یہ جان لینے سے ہمارے دکھ کم نہیں ہوئے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمارے ذہنی سکون کا تیا پانچا کرنے والی اس ہستی سے جاں بخشی کیونکر ہو!
بے تعلق سے موضوعات پر تحقیق سے دنیا کا کچھ خاص بھلا نہیں ہوتا۔ اسی طور مرزا سے بحث کا بھی کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا یعنی کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کی راہ ہموار نہیں ہوتی۔ مگر ہاں، فضول تحقیق اور مرزا کے لایعنی دلائل سے اتنا تو ہوتا ہے کہ ہمیں کالم لکھنے کے لیے تھوڑا خام مال ضرور مل جاتا ہے۔ چلیے، اتنا تو ثابت ہوا کہ دنیا میں کوئی بھی چیز بے فیض نہیں، بے مصرف نہیں۔ حتّٰی کہ مرزا کی باتیں بھی! ہوسکتا ہے کہ موقع ملتے ہی ماہرین ہماری کالم نگاری پر تحقیق کریں تو انٹ شنٹ نکات کے مآخذ یعنی مرزا تک بھی پہنچ جائیں اور پھر ان کے سامنے شرمندہ ہوکر تحقیق کا مٹکا پھوڑ ڈالیں!