نیویارک میں پاکستان نے جو سفارتی سرکس لگایا ‘ اس کی کہانیاں ختم نہیں ہوئیں۔ اتنے لوگ ایک ہی کام کے لئے اکٹھے وہاں جا پہنچے کہ ان سے کام لینے میں طرح طرح کی مشکلات پیش آئیں۔ سرکس کا ہر رکن اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے ایک دوسرے کو کندھا مار کے پیچھے دھکیل رہاتھا۔جو مائیک قابو کرنے میں کامیاب ہو جاتا‘ وہ اپنی اہمیت اور کارکردگی پیش کرنے سے ذرا نہیں چوکتا تھا۔ لطیفہ یہ ہے کہ سب نے وزیراعظم کو ایک طرح سے گھگھو بنا رکھا تھا۔ سرکس کا ہر رکن‘ بات کرنے کا موقع ملتے ہی اپنی اہمیت ظاہر کرتے ہوئے بتاتا کہ ہمارے وزیراعظم اپنی تقریر میں یہ کہیں گے۔ کس کس نے کیا کیا کہا؟آپ یاد کر کے چکر میں پڑ جائیں گے۔ کونسا موضوع ہے‘ جس پر انہوں نے وزیراعظم کا نام لے کر یہ نہیں بتایا کہ ان کی تقریر میں کیا ہو گا؟ وزیراعظم نے یقینا اپنی تقریر کے لئے بے شمار نکات تیار کر رکھے ہوں گے، مگر ان کی ترجمانی کرتے ہوئے‘ سفارتی سرکس کا ہر رکن‘ کوئی نہ کوئی نکتہ سامنے لا کر یہ کہہ دیتا کہ وزیراعظم یہ کہیں گے۔ بے چارے وزیراعظم سامنے رکھے مسودے پر نظر ڈال کر‘ اپنی تقریر میں درج اس نکتے کی طرف دیکھتے‘ جو ان کے سفارتی سرکس کے رکن اپنی تقریر میں ظاہر کر دیتے اور وہ آہ بھر کے اپنی تقریر میں درج نکتے پر کراس لگاتے ہوئے‘ ایک ٹھنڈی سانس لیتے اور دل میں کہتے ''یہ بھی گیا۔‘‘ سرکس میں شامل ہر شخص نے‘ وزیراعظم کی مجوزہ تقریر کا کوئی نہ کوئی نکتہ بیان کیا اور ان کی تقریر میں ایک اور کراس لگا دیا۔ نکتے کٹتے کٹتے باقی تقریر کے لئے صرف اہم موضوعات ہی بچ گئے تھے۔ اب سرکس ٹیم کے معززین کی باری آئی‘ تو انہوں نے وزیراعظم کی مرکزی تقریر پر ہاتھ مارنا شروع کر دیا۔ ایک نے پاک بھارت تعلقات کے موضوع پر ہاتھ مارا اور جو کچھ وزیراعظم کو کہنا تھا‘ وہ کہہ گزرا۔ دوسرے نے مظلوم کشمیریوں کی حالت زار پر دردبھری تقریر کر ڈالی۔ یہ درد انہوں نے وزیراعظم کے لئے رکھا تھا مگر اپنے دورے کی اہمیت ثابت کرنے کے شوق میں‘ انہوں نے وزیراعظم کی تقریر کا ممکنہ بہترین حصہ بھی افشا کر دیا۔ آخر میں یواین میں پاکستانی مندوب ملیحہ لودھی صاحبہ تشریف لائیں اور جو کچھ وزیراعظم کو کہنا تھا‘ انہوں نے کہہ ڈالا۔ ہماری سفارتی سرکس ٹیم نے جناب وزیراعظم کی ساری تقریر ‘ بوٹی بوٹی کر کے عالمی میڈیا کے سامنے پیش کر دی۔ سنا ہے‘ آخر میں وزیراعظم نے ہاتھ جھٹکتے ہوئے بیزاری سے کہا کہ ''اب میرے بولنے کے لئے کیا رہ گیا ہے؟‘‘ مجھے نہیں پتہ‘ اس کے بعد وزیراعظم خود بولے یا نہیں۔ مگر یہ بات ضرور سامنے آ گئی کہ یو این کے اجلاس میں اتنا بڑا سفارتی سرکس اکٹھا کر کے‘ وزیراعظم کا بنفس نفیس اس میں شامل ہو کر جانا‘کتناصبر آزما ہوتا ہے؟ تقریر ان کے پاس نہ رہی۔ موضوعات ان کے پاس نہ رہے۔ معزز ملاقاتیوں سے رابطوںکی گنجائش ان کے پاس نہ رہی کیونکہ سرکس کا ہر رکن خود آگے بڑھ کر ‘کسی نہ کسی اہم شخصیت سے ملاقات کرنے کے چکر میں تھا۔ جو ہاتھ لگتا‘ اسے اپنا تعارف کرا کے وزٹنگ کارڈ پیش کر دیا جاتا۔ اپنے ذاتی خیالات اور خدمات کا ریکارڈ پیش کیا جاتا اور بتایا جاتا کہ وہ پاکستان کے لئے کیسی شاندار خدمات انجام دے رہا ہے! اگر اسے ضرورت ہو‘ تو یہ شاندار خدمات اسے بھی پیش کی جا سکتی ہیں۔ اندر کی باتیں مجھے معلوم نہیں مگر اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ مختلف شعبوں کے ماہرین‘ جو ان دنوں وزیراعظم کی ٹیم میں شامل ہیں‘ فوج کے خوف سے ‘بیروزگاری کے اندیشوں میں مبتلا ہیں۔ سب کا یہی خیال ہے کہ اگر وہ احتساب سے بچ نکلے‘ تو اپنے کسی گناہ میں دھر لئے جائیں گے اور نالائقی میں پھنسنا تو لازم ہو چکا ہے۔ ہر ذی شعور جانتا ہے کہ نوازشریف حکومت کو موجودہ حالت میں پہنچانے والے کون ہیں؟ اور ان کی نالائقی اتنی قابل اعتماد اور فیصلہ کن ہے کہ حتمی مراحل میں انہی کی گردنوں پر ہاتھ آئیں گے۔
پاکستانی سیاست میں جب آپا دھاپی کا دور شروع ہوتا ہے تو ہر کسی کو اپنی اپنی پڑ جاتی ہے۔ نئے ‘پرانوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ پرانے ‘نئے ٹھکانے تلاش کرتے ہیں۔ کئی راستے میں آتے جاتے ٹکرا کے گر پڑتے ہیں۔ ان دنوں جو ٹوٹے پھوٹے انتخابی ٹکڑے ضمنی انتخابات کی شکل میں نمودار اور غائب ہوتے نظر آ رہے ہیں‘ یہ اصلی انتخابی عمل نہیں، محض چولہے پہ چڑھی ہانڈی میں چمچ ڈال کے صرف ذائقہ چکھا جا رہا ہے۔ لودھراں میں ایک ضمنی الیکشن کی ہنڈیا چڑھی تھی کہ سرکار نے اپنے خلاف عوامی تیور دیکھ کرایک گڑے مردے کو نکالا اور اسے زندگی کی عارضی ڈوز دے کر کھڑا کر دیا اور انتخابی مقابلے سے بھاگ نکلی۔ جہانگیرترین جس مردے کو دفنانے کے بعد‘ کافی دنوںسے انتخابی مہم چلا رہے تھے‘ وہ ایک ہی جھٹکے سے کفن پھاڑ کے کھڑا ہو گیا کہ میں تو لڑوں گا۔ جہانگیرترین عالم حیرت میںگم ہیں کہ میں کیسی جمہوریت میں کود پڑا؟ جہاں الیکشن کے مقررہ ٹائم ٹیبل سے صرف دس بارہ دن پہلے‘ الیکشن نہ صرف ملتوی کر دیا جاتاہے بلکہ بتایا جاتا ہے کہ ٹربیونل کے دفنائے ہوئے جس مردے کی جگہ وہ نئی انتخابی مہم میں حصہ لے رہے تھے‘ وہ تو کفن پھاڑ کے پھر سامنے آ کھڑاہواہے۔ انتخابی عمل کا ٹھیلا چلتے چلتے رک گیا اور جمہوری عمل کا ٹوٹا‘ جہانگیرترین کو ٹھینگا دکھا کے‘ حکومتی گورکھ دھندوں کی آڑ میں جا کھڑا ہوا۔ ضمنی انتخابات کے اب صرف دو ٹوٹے باقی رہ گئے ہیں۔ ایک قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 122 میں ہے اوردوسرا اوکاڑہ 144۔ یہ مضافاتی حلقہ ہے۔ اس پر پہلے ہی 144 کا نمبر لگ چکا ہے اور جہاں 144لکھا گیا‘ سمجھ لیںکہ وہاں تو حکومت کی فیصلہ کن فتح ہے۔ مجھے نہیں معلوم وہاں اپوزیشن کا کونسا امیدوار جام شہادت نوش کرنے کے لئے میدان میں اترا ہے؟ لیکن اس کا حال انہی گمشدہ حاجیوں جیسا ہو گا‘ جن کے ورثا انہیں ڈھونڈتے ہوئے پکار پکار کے پوچھتے پھر رہے ہیں''ہمارے پیارے زندہ ہیں یا شہید ہو گئے؟‘‘ پاکستان کی ''ٹائفون ٹوٹل کنٹرول جمہوری حکومتیں ‘‘ اسی طرح کی ہوتی ہیں۔ ان کے دور اقتدار میں جو بھی الیکشن لڑنے کے لئے میدان میں اترا‘ وہ اترکے سیدھا گھر کو گیا۔ یہ صرف ن لیگ کے طور طریقے نہیں، پیپلزپارٹی کے دور میں بھی یہی ہوتا تھا۔ مصطفی کھر جو اپنے آپ کو بھٹو صاحب کا حریف سمجھا کرتے تھے‘ لاہور کے ضمنی الیکشن میں امیدوار بن کے کھڑے ہو گئے تھے اور بھرے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے اچانک دیواریں پھلانگ کر اتنی تیزرفتاری سے زقندیں بھرتے ہوئے رفوچکر ہوئے کہ ووٹروں کو بھی ڈھونڈنے سے نہیں مل پائے۔ اوکاڑہ میں تو نجم سیٹھی کا راج ہے۔ وہاں اپوزیشن کا جو امیدوار بھی ن لیگ کے مقابلے میں اترے گا‘وہ 10 پنکچروں میں لاپتہ ہو جائے گا۔
جو حالات اس وقت دکھائی دے رہے ہیں‘ ن لیگ سارے معاشرے پر اپنا تسلط قائم کرتی جا رہی ہے۔ جب عام انتخابات آئیں گے‘ تو ان کے مقابلے میں الیکشن لڑنے والے تمام سیاستدان‘ میاں صاحب کے دربار میں حاضری دے کر اجازت مانگا کریں گے کہ انہیں وہ حلقہ بتا دیا جائے‘ جہاں سے انہیں الیکشن لڑنے کی آزادی ہو گی؟ ظاہر ہے‘ میاں صاحب ایک درویش کی طرح پڑیاں بنا کر بیٹھ جائیں گے۔ جس پر مہربان ہوں گے‘ اس کی طرف کاغذ کی ایک بند پڑیا پھینک دیں گے۔ وہ اسے کھول کر دیکھے گا‘ تو اس میں حلقہ نمبر لکھا ہو گا، جس میں اسے اجازت دی جائے گی کہ وہ درج شدہ حلقے میں منصفانہ الیکشن لڑنے کا حقدار ہے۔ لیکن ظاہر ہے بادشاہ ‘بادشاہ ہوتا ہے۔ انتخابات کے عین دوران اگر میاں صاحب کا موڈ بگڑ گیا‘ تو اس کھلے حلقے کو بھی بند کر کے‘ اس کے ہر پولنگ سٹیشن پر تختی لگوا دیں گے ''یہاں ووٹروں کا آنا منع ہے۔‘‘ ساتھ ہی ڈنڈا بردار گلوبٹ کی تصویر لگی ہو گی۔ مجھے بھی آپ لوگوں کی طرح امید تو یہی ہے کہ جمہوری انتخابات میں سب کو آزادی حاصل ہو گی۔ لیکن یہ آزادی صرف حکمرانوں کی خوشنودی سے مشروط ہے۔ موڈ بدل گیا‘ تو آزادی بھی ہضم۔ اگر عام انتخابات ‘ موجودہ منتخب حکومت کے پورے کنٹرول کے اندر ہوئے‘ تو پھر اپوزیشن کے امیدواروں کے حامی اپنے انتخابی نتائج ڈھونڈتے ہوئے‘ حکومتی اہلکاروں سے پوچھتے پھریں گے ''ہمارے پیارے زندہ ہیں یا شہید ہو گئے؟‘‘