نیویارک میں اس وقت اقوام متحدہ کا 70واں سالانہ میلہ جاری ہے۔ ہر سال ستمبر میں منائی جانے والی اس سالانہ تقریب 'یو این جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس‘ میں شرکت کے لیے عالمی رہنما جمع ہوتے ہیں۔ اس سال اس میں ایک جشن کا سماں ہے۔ گزشتہ دو ہفتوں سے نیویارک، جسے اس کے شہری پیار سے بگ ایپل کے نام سے پکارتے ہیں، کی سڑکوں پر ٹریفک جام اور سکیورٹی چیک ایک ڈرائونا خواب بن گیا ہے‘ لیکن یہ عالمی اجلاس ایک طرح کے زرق برق تہوار میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس میں دنیا کے غریب افراد اور عالمی امن کے نام پر بہت سے کھیل تماشے رچائے جاتے ہیں۔
اس میلے کا مرکزی سٹیج اقوام متحدہ کا پلیٹ فارم ہے‘ جہاںدنیا بھر کے حکمران، جن میں بادشاہ، شیخ، سلطان، امیر، خلیفہ شہزادے، ولی عہد، جمہوری حکمران، آمر اور جمہور نما آمر شامل ہیں، سب اس عظیم 'فن فیئر‘ میں خوشگوار موڈ کے ساتھ جمع ہوتے ہوئے دنیا کے مسائل سے نجات پا کر کچھ وقت کے لیے خوشی مناتے ہیں۔ عام طور پر ان کے پروگرام کا آغاز ناشتے سے ہوتا ہے‘ جس کا اہتمام اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل یُو این ہیڈکوارٹرز میں کرتے ہیں۔ اسے معمولی ناشتہ تصور نہ کیا جائے، بلکہ اس کا مینو انتہائی پُرتکلف اور ''عالمی‘‘ ہوتا ہے۔ اس کے بعد لنچ، استقبالیوں، دعوتوں اور روایتی رسومات کا سلسلہ عالمی رہنمائوں کے ''دوطرفہ تعلقات‘‘ کو جلا بخشتا ہے۔
ان ملاقاتوں کے دوران نہایت منظم طریقے سے ایک دوسرے کے ساتھ فوٹو کھنچوائے جاتے ہیں۔ پھر اُنہیں میڈیا کے ذریعے پھیلا کر واپس اپنی اپنی ریاستوں میں یہ رنگین تاثر ابھارا جاتا ہے کہ وہ رہنما عالمی افق پر کس قدر اہمیت رکھتے ہیں۔ اس گہماگہمی کے علاوہ ان رہنمائوں کے اعزاز میں شہر کے فائیو سٹار ہوٹلوں میں چھ یا سات پُرتکلف ڈنر دیے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ دنیا کے غریب اور فاقہ زدہ افراد کے لیے کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی آفیشل کارروائی صرف عالمی رہنمائوں کی طرف سے دس سے پندرہ منٹ کی پہلے سے لکھی گئی ایک تقریر ہوتی ہے‘ جو وہ جنرل اسمبلی کے سٹیج پر آ کر‘ پڑھ کر چلے جاتے ہیں۔ اپنے سیکرٹریوں کی تحریر کردہ ایسی ہی ''دانائی‘‘ عالمی رہنما کئی برسوں سے انسانیت کے گوش گزار کر رہے ہیں۔ وہ اُس پلیٹ فارم پر ایسے ایسے عالمی موضوعات پر اظہار خیال کرتے پائے جاتے ہیں‘ جن سے اُن کے شہریوں کو کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اُن بھاری بھرکم بیانات کی بھرمار کے دوران ہم کچھ اچھی باتیں بھی سنتے ہیں‘ جن میں انسانیت کے پُرامن اور خوشحال مستقبل اور تمام مسائل اور خرابیوں سے نجات کی نوید شامل ہوتی ہے۔ اس دوران وہ یہ عہد بھی کرتے سنائی دیتے ہیں کہ اقوام متحدہ کو بہتر عالمی نمائندگی دے کر، دنیا کے بدلتے ہوئے حقائق کے مطابق ڈھال کر‘ زیادہ موثر ادارہ بنایا جائے گا؛ تاہم ایک مرتبہ جب وہ اپنے اپنے ممالک کی طرف لوٹ جاتے ہیں، تو ''دانائی کے موتی‘‘ یو این کی پھیلتی ہوئی دستاویزات کا حصہ بن کر اور دنیا کی نظروں سے اوجھل ہو کر عملی طور پر تاریخ کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اس عالمی گفتگو کو ایک مشہور محاورے میں کچھ ردوبدل کرکے یوں بیان کیا جا سکتا ہے: ''وہ آئے، اُنھوں نے خطاب کیا اور وہ چلے گئے‘‘۔ یہ گپ شپ اُس عالمی ادارے کے فن فیئر کا حصہ ہوتی ہے‘ جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد ''انسان کی آخری امید کی کرن‘‘ قرار دے کر تخلیق کیا گیا تھا۔ یہ بات تسلیم کی جانی چاہیے کہ کچھ عالمی اجلاس، جیسا کہ ملینیم کانفرنس 2000ء، پیہم ترقی پر عالمی کانفرنس 2002ء اور انٹرنیشنل کانفرنس آن فنانسنگ ڈویلپمنٹ 2002ء واقعی اہمیت کے حامل ثابت ہوئے‘ کیونکہ ان کے ذریعے عالمی سطح پر ترقی کے ایجنڈے پر اتفاق کیا گیا؛ تاہم بدقسمتی سے اُس ایجنڈے کو عملی شکل تاحال نہیں دی جا سکی۔ ایک فرانسیسی کہاوت ہے: ''چیزوں میں جتنی زیادہ تبدیلی آئے، وہ اتنی ہی غیر متبدل رہتی ہیں‘‘۔ گویا زیادہ تبدیلی بذات خود تبدیلی کی نفی کر دیتی ہے‘ اس لیے نہ تو دنیا اور نہ ہی اقوام متحدہ نے بہتری کی طرف کوئی تبدیلی ظاہر کی۔ ان دونوں کی حالت اب بھی ویسی ہی ہے‘ جیسی دوسری جنگ عظیم کے بعد تھی۔ یقینا آج ''آہنی پردہ‘‘ (دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کو نظریاتی طور تقسیم کرنے والی دیوار) باقی نہیں رہا‘ لیکن غربت کی آہنی دیوار دنیا کو غیر مساوی طور پر تقسیم کر رہی ہے۔ ایک حصہ انتہائی امیر جبکہ دوسرا انتہائی غریب ہے۔ عالمی امن کا خواب ہنوز شرمندہ ٔ تعبیر نہیں ہوا‘ جبکہ دنیا تاحال دیرینہ حل طلب مسائل کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ ہاں، ایک تبدیلی ضرور دکھائی دیتی ہے... ان مسائل میں اب شدت آ چکی ہے۔ ناانصافی‘ تشدد اور تاریخی طور پر جنم لینے والے مسائل اور تنازعات کا حل تاحال معدوم ہے۔
جارحیت، فتنہ پروری، سیلف ڈیفنس کے نام پر حملہ، فوجی طاقت سے زمین پر قبضہ، قتل عام، انسانی المیے، سانحات، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا پھیلائو ''نئی عالمی بدانتظامی‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اس افسوسناک صورت حال کو تقویت دینے والے عوامل کو روکنے میں عالمی برادری درپیش مشکل چیلنجز سے عہدہ برآ ہونے کے قابل دکھائی نہیں دیتی۔ گزشتہ عشرے کے دوران پیش آنے والے واقعات نے عالمی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ان کی وجہ سے قانون کی حکمرانی اور ریاستوں کے درمیان معمول کے تعلقات کا زمانہ قصہ ٔ پارینہ بن چکا۔ طاقت کو حتمی استحقاق کا ذریعہ کبھی تسلیم نہیں کیا گیا، لیکن دنیا جتنی آج بے حس اور افراتفری کا شکار ہے، اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ نائن الیون کے بعد دنیا نے اقوام متحدہ کے کردار، اتھارٹی اور ساکھ کی دھجیاں بکھرتے اس طرح دیکھیں کہ آج یہ ادارہ عالمی معاملات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہا۔ آج دنیا کی توجہ اور عالمی معاملات میں فیصلہ سازی کا مرکز نیویارک نہیں بلکہ واشنگٹن ہے۔ اقوام متحدہ کو تخلیق کرنے کا مقصد عالمی نظام کو ایک موثر طور پر ایسا اخلاقی جواز فراہم کرنا تھا‘ جن کی بنیاد انصاف، قانون کی حکمرانی، اقدار اور باہمی تعاون پر ہو، لیکن بعد میں عملی طور پر دیکھنے میں یہ آیا کہ یہ نہ تو اہم تنازعات، جیسا کہ کشمیر اور فلسطین، کو نمٹا سکا اور نہ ہی جنگوں کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کر سکا۔
درحقیقت آج اقوام متحدہ عالمی امن اور سکیورٹی قائم کرنے کے حوالے سے اپنا کردار اور اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ آج یہ ایک ایسا کلب ہے‘ جہاں کچھ بحث وغیرہ کی جا سکتی ہے‘ لیکن اس سے کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ کے بار ے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ادارہ نہ صرف دنیا میں کاغذ کا سب سے بڑا صارف ہے‘ بلکہ سب سے زیادہ کاغذ ضائع بھی یہیں ہوتا ہے۔ کچھ ستم ظریف اسے ''تاریخ کی ردی کی ٹوکری‘‘ قرار دیتے ہیں۔ یو این سکیورٹی کونسل اپنے چارٹر کے تحت عالمی امن قائم رکھنے اور تنازعات کو نمٹانے کی ذمہ دار ہے‘ لیکن اس کی فعالیت صرف تقریروں اور بیانات تک محدود ہو چکی ہے۔ دراصل طاقت ور اور بااثر عالمی کھلاڑیوں کے مفادات نے سکیورٹی کونسل کے کردار کو محدود کر دیا ہے۔ اب یہ اُن کی منشا کے خلاف تنازعات کا حل تلاش نہیں کر سکتی۔ اہم بات یہ کہ اس کی کارروائی میں شفافیت کا بھی فقدان پایا جاتا ہے۔ اس کے کھلے اجلاس صرف ایک طربیہ ڈرامہ ہوتے ہیں۔ ان میں عالمی رہنمائوں کی باتیں سنی جاتی ہیں لیکن اُن پر دھیان نہیں دیا جاتا‘ اور اہم معاملات پر فیصلے یا تو واشنگٹن میں ہوتے ہیں یا بگ فائیو کے کمروں میں۔
اکیسویں صدی کی اقوام متحدہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی پیش رو، لیگ آف نیشنز، کے انجام سے دوچار ہونے سے خود کو بچائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ دنیا کے بدلتے ہوئے حقائق اور اُن سے پیدا ہونے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے خود کو تبدیل کرے۔ ضروری ہو گا کہ جنرل اسمبلی کو چیف پالیسی ساز ادارہ بنایا جائے، سکیورٹی کونسل کی تشکیل نو کی جائے اور اس میں موثر نمائندگی کے دائرے کو وسیع کیا جائے۔ اقوام متحدہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ مستقبل ممبران، جنہیں ویٹو کی طاقت حاصل ہے اور جو دوسری عالمی جنگ کی باقیات ہیں، کو حاصل غیر ضروری استحقاق سے جان چھڑا کر آگے بڑھے۔ اب اسے اپنی صفوں میں بھی جمہوریت پیدا کرنا ہو گی۔ اس کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ بے معنی اجلاس، تقاریر اور تقریبات پر وقت اور توانائی ضائع کرنے کی بجائے جامع اصلاحات کے عمل کو تقویت دے۔
(کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)