عید کی چھٹیوں کے پانچ میں سے تین دن ڈرائیونگ میں گزرگئے۔ اسلام آباد لوٹا تو پرانے دوست انور بیگ سے ملنے گیا۔ میرے چہرے پر تھکاوٹ سے زیادہ خاموشی اور پریشانی دیکھ کر پوچھا، خیریت ہے؟ میں نے کہا بیگ صاحب اللہ کا شکر ہے، سب ٹھیک ہے۔بولے تو پھر؟ میں خاموش رہا۔ سوچتا رہا انور بیگ کو کیا بتائوں۔کیا یہ میری پوری بات سمجھ سکیں گے؟ ہوسکتا ہے جب بات پوری کر چکوں تو کہیں، یارچھوڑو کس چکر میں پڑ گئے ہو! تمہاری اپنی زندگی اچھی گزر رہی ہے، مزے کرو۔
میں نے کہا بیگ صاحب! ہمیں اسلام آباد میں رہتے ہوئے اندازہ نہیں ہوتا کہ ہمارے دوسرے شہر کس طرف چل پڑے ہیں۔ حالت تو اب اسلام آباد کی بھی بد سے بدتر ہو رہی ہے۔ سی ڈی اے کو آصف زرداری کے ایک چہیتے نے رج کر لوٹا۔ پچھلے برس لوگوں نے سب سے زیادہ اسلام آباد کا رخ کیا، یوں اس کی کچی آبادیاں اچانک پھیل گئیں۔ ایک افغان بستی گرائی توکیا ہوا، چند مزید پیدا ہوگئی ہیں۔ یہ شہر جو کبھی دنیا کے خوبصورت شہروں میں ہوتا تھا، اب ہر سیکٹر میں گندگی ملتی ہے۔یوں یہ شہر ہماری آنکھوں کے سامنے برباد ہو رہا ہے۔ کسی کو فکر نہیں۔ فلائی اوور اور ترقیاتی کام کے نام پر اسلام آباد کی بربادی شروع ہوچکی ہے۔ شہرکا نقشہ بدل رہا ہے۔ درخت کاٹے جارہے ہیں۔ ایک حکمران آتا ہے، نئی سڑک بناتا ہے، مال لیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ جنرل مشرف دور میں کامران لاشاری نے ستر ارب روپے اسلام آباد کی سڑکوں اور انڈر پاسز پر لگائے۔ زرداری صاحب آئے تو ان کے ایک چہیتے نے سی ڈی اے سنبھال لیا۔ زیرو پوائنٹ پر فلائی اوور کی تعمیر سے خوب مال بنایا۔ اب حکومت زیرو پوائنٹ سے روات تک نئی روڈ بنا رہی ہے اور وہ سڑکیں جو کچھ عرصہ پہلے بنی تھیں انہیں اکھاڑ کر نئی بنائی جا رہی ہیں۔ تین سو درخت کاٹ لیے گئے ہیں، سب کو مال چاہیے! جسے موقع ملا مال بنانے کے لیے شہرکو برباد کیا۔ زرداری صاحب کے چہیتے نے پارک انکلیوکے نام پر چار ارب روپے بٹورے اور چلتے بنے۔ یہ سیکٹر چھ ماہ میں ڈویلپ ہونا تھا، چھ سال گزر گئے ہیں، ترقیاتی کام کا نام و نشان تک نہیں!
میں نے کہا، اسلام آباد کا جو حشر ہوگا سو ہوگا، جن شہروں کا حشر ہوچکا اس کی بھی کسی کو فکر نہیں۔ آبادی کا جن بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔کسی بھی شہر سے گزریں، لگتا ہے پوری دنیا کے انسان یہیںبستے ہیں۔ آبادی بہت بڑھ گئی ہے، آبادی کوکنٹرول کرنے کے حوالے سے کبھی کچھ نہیں سنا۔ ماضی میں ایک وزارت کبھی کبھار چند اشتہارات چلا دیتی تھی، اب وہ بھی نہیں رہی۔ اٹھارویں ترمیم سب کچھ کھا گئی ہے۔
میں نے کہا، بیگ صاحب! اقوام متحدہ کا کہنا ہے 2050 ء میں (صرف 35 برس بعد) پاکستان کی آبادی 45کروڑ ہوجائے گی۔ ہم سے اٹھارہ بیس کروڑ نہیں سنبھالے جارہے، پینتالیس کروڑکیسے سنبھال پائیںگے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ شہروں میںکوئی پلاننگ نظر نہیں آتی۔ عید پر ملتان شہر سے گزرا۔ سوچا جمشید رضوانی سے ملتے جائیں۔ بیکن بُکس کی یاد بھی ستا رہی تھی۔ ملتان یونیورسٹی کے دنوں میں اس دکان پر جانا ہوتا تھا۔ عبدالجبار صاحب سے ملے پندرہ برس گزرگئے تھے۔ بیکن بُکس گلشت کالونی میں سب سے نمایاں جگہ پر تھا۔ گول باغ میں بیٹھ کر چائے پی جاتی اوردوستوں سے گپ شپ ہوا کرتی تھی۔ سوچا جمشید سے ملنے سے پہلے بیکن بکس سے ہوتا جائوں۔ جونہی چوک میں پہنچا،یوں لگا کسی دوسری دنیا میں پہنچ گیا ہوں۔ رات کے آٹھ بجے تھے، گاڑی پارک کرنا تو دور کی بات وہاں پائوں تک رکھنے کی جگہ نہیں تھی۔ مجھے بیکن بکس نہیں مل رہا تھا۔ جمشید کو فون کیا،پوچھا بیکن بکس کہیں شفٹ تو نہیں ہوگیا۔ بتایا وہیں موجود ہے۔گاڑی مشکل سے پارک کی۔ دائیں بائیں موٹرسائیکل، ناجائز تجاوزات کی بھرمار، زور
سے بجتے ہارن، ہر طرف دکانیں ہی دکانیں، بینرزاوراشتہارات، ہر کوئی جلدی میں! ایسے لگا، پوری دنیا اسی چوک میں اکھٹی ہوگئی ہے۔ میں اکیلا کھڑا پریشان کہ کہاں آگیا ہوں۔ میرے وہم و گمان میں نہ تھا ملتان کی یہ حالت ہوجائے گی۔ بوسن روڈ پر فلائی اوور بن گیا ہے۔ چھوٹے سے روڈ پر اتنی بڑی چھت ڈال دی گئی کہ دم گھٹتا ہے۔ ملتان جو ایک روایتی اور پرانا شہر تھا اس کا حشر کر دیا گیا ہے۔ آپ اسے پہچان نہیں سکتے۔ چند برس پہلے یہ شہر کسی حد تک بہتر تھا، آپ سانس لے سکتے تھے، اب لگتا ہے آپ کسی بڑی جیل میں داخل ہوگئے ہیں۔ گیلانی صاحب نے ملتان شہر کی خوبصورتی برباد کی، اب بقیہ کام شہباز شریف کر رہے ہیں۔ شاید فلائی اوورز میں زیادہ منافع ملتا ہے۔ موٹرسائیکلوں کی بھرمار نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ فضائی آلودگی عروج پر ہے۔ سب دھیرے دھیرے مر رہے ہیں ۔ مجھے اپنے دوست کے درجنوں کالم یاد آرہے ہیںکہ ملتان کوترقی کے نام پر کیسے برباد کیا گیا۔ ملتان، شجاع آباد روڈ کی طرف جانے کے لیے فلائی اوور سے اترا تو انسانوں کا بے پناہ ہجوم نظر آیا۔ دور دور تک انسانی
سر ہی سر تھے۔گاڑی چھوڑ، چلنے تک کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔
سب کواپنے کمیشن کی فکر ہے۔ کوئی پلاننگ نہیں کی گئی۔ ملتان سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ مجھے لگا جس شہر کو میں جانتا تھا وہ کب کا مر چکا، یہ کسی دوسرے زمانے کا کوئی اور شہر ہے جہاں انسانوں کی بھرمار ہوگئی ہے۔ جگہ کم پڑگئی، ہر طرف انسان ہی انسان ہیں۔ کوئی جگہ صاف نہیں رہی۔ بوسن روڈ کے متوازی سڑک جو گول باغ کو جاتی ہے،کبھی ویران ہوتی تھی۔ وہاں سے گزرنے کا اپنا مزہ تھا۔ سایہ دار درختوں کے نیچے آپ چل سکتے تھے۔ چند برسوں بعد یہ جگہ جو رہائشی علاقہ تھا اب کمرشل بن چکا ہے۔ میں نے بیکن بکس کے مہربان دوست عبدالجبارکے سامنے رونا رویا تو بولے کیا بات کرتے ہو،گلگشت کالونی تقریباً پوری کمرشل ہوچکی ہے۔کچھ ہی گھر باقی رہ گئے ہیں۔ جس کا جو جی چاہاکھڑاکرلیا۔کوئی ٹائون پلاننگ نہیں ۔ کمرشل ایریاز بنانے کے بجائے رہائشی علاقوں کوکمرشل بنادیا گیا۔ کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں!
میں بیکن بکس کے اردگرد طوفان بدتمیزی دیکھتا رہا۔ یاد آیا، قریب ہی سات دریائوں کی سرزمین مصر کے قدیم ادب کی کئی جلدوں کے عظیم مصنف ابن حنیف کا گھر تھا۔ وہ اکثر اپنے گھر سے پیدل یا سائیکل پر بیکن بکس یا ہفتہ وار ادبی تقریب میں شرکت کے لیے آتے۔ حیران ہوا، ان جیسا نفیس انسان آج اس طوفان بدتمیزی میں زندہ رہ سکتے تھا؟ اچھا ہوا چند برس قبل چل بسے ورنہ جوکچھ ان کے گھرکے قرب و جوار میں ہوچکا ہے، اسے دیکھ کر تو اچھا خاصا انسان پاگل ہوجائے۔ ایک دفعہ جی چاہا ان کے گھرجائوں جہاں کئی شامیں ان کے ساتھ گزری تھیں۔ پھر رک گیا، اب کون ہمیں جانتا ہوگا اور اگر وہ گھر بھی کمرشل ہوچکا ہوا تو پھر ساری عمر کا ایک اور نفسیاتی عذاب جھیلنا پڑے گا۔ جاتے قدم رک گئے، ابن حنیف کی یادیں باقی رکھنے کے لیے۔
اب ہر جگہ نئی ہائوسنگ سوسائٹیز کے بورڈ نظر آتے ہیں۔ زرعی زمینیں کمرشل ہورہی ہیں۔کسی نے اب تک اسٹڈی نہیں کرائی کتنی زرعی اراضی ہائوسنگ کی نظرہوچکی ہے۔ جنہوں نے یہ سروے کرانا تھا وہ خود ساہیوال میں پچیس مربع زمین کوئلے کے پلانٹ کے لیے دے چکے ہیں۔ اب ہر طرف اب انسانوں کے سر نظر آتے ہیں۔ زمین سکڑ گئی، انسان بڑھ گئے ہیں۔ یہ صرف ایک شہر کی کہانی نہیں ہے، ہر طرف آپ کو یہی حالت نظرآتی ہے۔
لاہور جائیں تو وہاں بھی دم گھٹنے لگتا ہے؛ حالانکہ ہر ہفتے وہاں اربوں روپے کا نیا منصوبہ شروع ہوتا ہے۔ سڑکوں پر بے پناہ ٹریفک ہے۔ جب بھی لاہور جائوں کوئی نہ کوئی نئی سڑک، نیا فلائی اوور یا کھدائی ہو رہی ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی لاہورمیں گھٹن بڑھ رہی ہے۔ جرائم بڑھ رہے ہیں۔ کوئی نہیں سوچتا کہ لوگوں نے اب لاہور کا رخ کیوںکر لیا ہے۔ بارہ کروڑآبادی کا صوبہ دم توڑ رہا ہے۔ آپ بے شک انکار کرتے رہیں، آبادی کا بم پھٹ چکا ہے، شہر پھٹ چکے ہیں، ہر طرف گھٹن ہے،گندگی ہے۔ بیوروکریٹ اور سیاستدان نے مل کر سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔
بیگ صاحب خاموش بیٹھے تھے۔ میں نے کہا، میں اکثر ہندوستانیوں کی یہ بات سنتا ہوں کہ انہیں پاکستان آنے کا شوق ہے۔ اپنے پرکھوں کے گھر، شہر اور گائوں دیکھنے کا شوق ہے۔ ان کے بزرگ تو اڑسٹھ برس پہلے گئے تھے، اب وہ لوٹ کر کیا دیکھ پائیں گے، کیا بچا ہے ان شہروں میں، سب کچھ بدل گیا ہے۔ اب تو ملتانی بھی ملتان کو نہیں پہچان سکتے۔ پنڈی والے خود راستہ پوچھ کر گھر جاتے ہیں۔ اگر پندرہ برس میں ملتان کا یہ حشر ہوگیا ہے کہ میں گلگشت کالونی میں بیکن بکس کو تلاش نہیں کر سکتا جو آپ کو ایک میل سے نظرآتا تھا تو پھر آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اگلے پندرہ برس میں ملتان چھوڑیں، پورے ملک کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔۔۔۔!