وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے عید ِقربان کے ایام میں شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنے پر پنجاب پولیس کو شاباش سے نوازا ہے۔ اس پر مجھے تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان کا یہ مطالبہ کچھ بے معنی سا لگا کہ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں بھی رینجرزکو سندھ کی طرح کے اختیارات دئیے جائیں تاکہ دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں، انہیں مالی مدد فراہم کرنے والوں، ملک کا خزانہ اور وسائل لوٹنے اور برباد کرنے والوں کا بھی اسی طرح احتساب کیا جاسکے جیسے سندھ میں کیا جا رہا ہے۔ مجھے اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ ایک چیزجو سندھ میں کی جا رہی ہے اس کی نقل پنجاب میں کرنا کیوں ضروری ہے جبکہ یہاں ہر جانب ''امن و امان‘‘ ہے۔
پنجاب پولیس کو شاباش دیتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے علم میں یہ تو ہوگا، جسے چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کہ گزشتہ تین ہفتوں سے لاہور میں بھتے کی پرچیاں کھلے عام پھینکی جا رہی ہیں۔ غازی روڈ پر اب تک کتنی پرچیاں پھینکی گئیں، اس سے بھی وزیر اعلیٰ یقیناً بے خبر نہیں ہوںگے اور یہ بھی جانتے ہوںگے کہ لاہور میں دن دہاڑے لوگوں سے موبائل، نقدی اور زیورات چھیننے کی وارداتوں میں تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ تھانوں کی ایف آئی آرز پر نہ جائیں کیونکہ عیدکے دن تھانہ نواب ٹائون کی حدود میں مجھے 125سی سی کی موٹر سائیکل پر سوار دو ڈاکوئوں نے ملک افضل کھوکھر کے گھر کی باہر والی سڑک پر دن کے دو بجے لوٹ لیا اور میری ایف آئی آر بھی درج نہیں کی گئی؛ حالانکہ کال کرنے پرکچھ دیر میں 15 والے موقع پر پہنچ گئے تھے۔ جب انہیں ڈاکوئوںکا حلیہ بتایا گیا تو سب انسپکٹر کہنے لگا کہ اس گینگ کی آج کے دن اسی تھانے کی حدود میں یہ تیسری واردات ہے۔ ٹائون شپ میں ایک مو ٹر سائیکل سوار اپنے بچوں کے ساتھ جا رہا تھا، اسے بھی لوٹا گیا، لیکن اس کی ایف آئی آر میں صرف یہ درج کیاگیا کہ میرا شناختی کارڈگم ہوگیا ہے۔
پنجاب پولیس کو شاباش اپنی جگہ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پولیس اورسرکاری اداروں سمیت عوام سے بھتہ وصول کرنے والوںکوکوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عوام نے رینجرز کے بارے میں عمران خان کے مطالبے کو پسند کیا۔ عید سے دو دن پہلے کراچی کے گلستان جوہر کی بکرا منڈی میں پولیس اہلکار بیوپاریوں اور دوسرے لوگوں سے بھتہ وصول کر نے میں مصروف تھے۔ ادھر رینجرز نے بکرا منڈی اور دوسری جگہوں پر لکھ کر لگایا ہوا تھاکہ بھتہ مانگنے والوں کی کراچی رینجرزکو ان کے نمبر پر اطلاع دی جائے۔ چنانچہ کسی نے رینجرز کو فون پر اطلاع کردی اوران کے جوان چند منٹ میں موقع پر پہنچ گئے۔ انہوں نے پولیس کے بھتہ وصول کرنے والے اہلکار کو سب کے سامنے دھکے دیتے ہوئے گاڑی میں بٹھایا اورگرفتارکر کے لے گئے۔ یہ منظر دیکھ کر وہاں موجود عام لوگ اور بیوپاری کثیر تعداد میں اکٹھے ہوکر جنرل راحیل شریف اور رینجرز کے حق میں زندہ باد کے نعرے لگانے لگے۔گویا یہ ایک طرح کا اظہار تشکر تھا جو ان سب کو پولیس کی بھتہ خوری سے نجات ملنے پر کیا جا رہا تھا۔نواز لیگ کے حامیوں کو اس قسم کے نعروں سے نہ جانے کیوں بخار چڑھا ہوا ہے۔
میاںشہباز شریف نے پنجاب پولیس کو شاباش شاید اس خوشی میں دی کہ ا ن کے ایک منظور نظر ڈی پی او(گجرات) کے ماتحت پولیس اہلکاروں نے قربانی کے بکرے لانے والے ایک بیوپاری سے بھتے کی بجائے سالم بکرا ہی مانگ لیا۔ اس کے انکار پر اس قدر مشتعل ہو ئے کہ بیوپاری کے95 بکروںکو ریلوے لائن پر ڈال دیا اور ٹرین قربانی کے ان جانوروں میں سے50 کو کچلتے ہوئے نکل گئی، بہت سے بکرے زخمی بھی ہوگئے۔ بیوپاری کے تو سب جانور ضائع ہو گئے کیونکہ زخمی جانورکی قربانی جائز نہیں ہوتی۔
لاہور میں داخل ہونے کے راستوں پر پولیس مامور ہوتی ہے۔ ان ناکوں پر پھل، سبزیاں، مرغیاں اور دودھ لے کر شہر میں داخل ہونے والوںکو پولیس اہلکار اپنا حصہ لیے بغیر گزرنے کی اجا زت نہیں دیتے۔ کوئی چار پانچ ماہ قبل ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب ناکے پر کھڑے پولیس اہل کاروں نے مرغیاں لے کر آنے والی ایک بڑی سی پک اپ کو روکا تو
ڈرائیور نے ایک شاپر میں ذبح کی ہوئی دو مرغیاں پولیس اہلکارکو تھما دیں جس پر اہلکاروں نے خوش ہوکر اسے لاہور میں داخل ہونے کی اجا زت دے دی۔ پک اپ والے نے جو مرغیاں ناکے پرکھڑے پولیس اہلکاروں کو دیں، وہ مردہ تھیں۔ شنید ہے کہ یہ سلسلہ ہر ناکے پر جاری ہے۔ پک اپ ڈرائیور نے بتایا کہ یہ روزانہ مجھ سے دو مرغیاں لئے بغیر جانے نہیں دیتے تھے جس پر میں نے سوچا کہ ان پولیس والوں نے حرام ہی کھانا ہے توکیوں نہ انہیں اصلی حرام گوشت کھلایا جائے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جو بھی گاڑی لاہور شہر میں مرغیاں لے کر داخل ہوتی ہے، ڈرائیور مردہ مرغیوں کا گوشت پولیس والوں کو ناکوں پر دے دیتے ہیں۔
نام نہیں لکھوں گا لیکن یہ واقعہ بالکل سچ ہے کہ سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہونے والے ایک افسر جب ایک ڈویژن کے کمشنر تھے، اکثر سرکاری دوروں پر جنوبی پنجاب جایا کرتے تھے۔ ان دنوں چولستان کے صحرا میں ایک مخصوص پرندے کے شکار اورگوشت کی دھوم تھی، لہٰذا ان کمشنر صاحب کا اصرار ہوتا تھا کہ ان کے ریسٹ ہائوس میں صرف اسی پرندے کا گوشت پکایا جائے۔ افسروںکے پر تعیش کھانے پینے کا انتظام کرنا تحصیلداروں اور پٹواریوںکے فرائض میں شامل ہوتا ہے۔ ایک دفعہ یہ پرندہ نہ مل سکا تو متعلقہ پٹواری نے''اِل‘‘ کا گوشت بہترین مصالحوں اور دیسی گھی میں پکوا کر کمشنر صاحب کو کھلا دیا۔ وہ مزے لے کر اس سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ یہ بات کو کوئی تیس سال پہلے کی ہے، مجھے لاہورکے باہر ناکے پر پولٹری فارم کے ڈرائیور کی حرکت دیکھ کر پٹواری کی بات یاد آ گئی کہ کمشنر صاحب نے اگر حرام ہی کھانا ہے توکیوں نہ انہیں اصلی حرام کھلایا جائے۔
عید قربان سے ایک دن قبل شوکت خانم ہسپتال سے واپڈا ٹائون کے گول چکر تک گرین بیلٹ میں مزدوری کے لیے انتظار میں بیٹھے ہوئے مزدوروں کے پاس دو پولیس والوں کی موٹر سائیکل آ کر رکی۔ ایک حوالدار ان کے پاس گیا اور ان سب سے وہاں بیٹھنے کے پچاس پچاس روپے بطور بھتہ وصول کرتے ہوئے سب کے سامنے اپنی پتلون کی بائیں جیب میں ڈالنا شروع کر دیئے۔ اس کے قریب اسی طرح کی ایک اور واردات ہوئی۔ واپڈا ٹائون گول چکر سے بائیں ہاتھ مڑیں تو دونوں جانب بہت سی دکانیں ہیں۔ سڑک کے دائیں جانب سبزی اور پھل فروخت کرنے والوں کی کئی دکانیں ہیں۔ میں ایک سبزی والے کی دکان پر کھڑا تھا کہ ایک سوزوکی کلٹس آکر رکی جسے دیکھتے ہی سبزی والا کچھ پریشان سا ہوگیا۔ کلٹس گاڑی میں سے ایک نائب قاصد قسم کا لڑکا نکلا اور پھل سبزی والوںکوایک ایک کر کے گاڑی کی پچھلی نشست پر بٹھا کر بھتہ وصول کرنے لگا۔ اس بلاوے پر وہ سبزی والا جس کی دکان پر میں کھڑا تھا، بے چارگی سے کہنے لگا کہ ہر مہینے پانچ محکموں کو ہم سب بھتہ دیتے ہیں۔ ٹی ایم او کے یہ لوگ ایک ہفتہ پہلے بھتہ لے کر گئے تھے،ان کی خدمت کی، اب کہتے ہیں ''صاحب کوعیدی نہیں دینی!‘‘