پاکستان کی زرعی زندگی کے خاتمے کا دور شروع ہو گیا ہے۔ گزشتہ 25سال سے ہمارے ملک پر صنعتی عہد کے اجارہ دار قبضہ کرتے آ رہے ہیں۔ اس عرصے کے دوران کیسی کیسی حکمت عملیاں اختیار کر کے‘ زراعت کے شعبے کو پیچھے دھکیلا گیا؟ یہ بے رحم سرمایہ دارانہ پالیسیوں کی عبرتناک داستان ہے۔دنیا کے دوسرے ملکوں میں صنعتکاری غالب آئی‘ تو یہ آزاد شعبے کی حیثیت سے آگے چل رہی تھی۔ لیکن سرمائے میں صبر نہیں ہوتا۔ یہ صرف زراعت کا شعبہ ہے‘ جس میں صبر بھی ہوتا ہے۔صبرکا وقفہ طویل ہو جائے‘ تب بھی زراعت کا ڈھول بجتا رہتا ہے۔ شروع میں ان معصوموں کو تو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ ان کے شعبے کو کس طرح پامال کیا جا رہا ہے؟ مگر کسی آزادانہ قوت مدافعت کے بغیربھی یہ شعبہ پیروں پر کھڑے ہونے کی اہلیت سے محروم نہیں ہوتا۔ یہ سادہ لوح غریب مخلوق ‘ آخری دم تک اس کوشش میں رہتی ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ مختلف فصلوں پرقدرتی آفات کے جو حملے ہوتے ہیں‘ کسان کا خاندان اور ارد گرد کے پرندے ‘سب جمع ہو کر اس سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کسان معاشرہ عجیب طرز کا ہوتا ہے۔ ایک ملا جلا‘ خالص اشیاء کا مجموعہ‘ جس میں چرند پرند‘ کیڑے مکوڑے‘ سب مل جل کر اپنی امانتوں کا تحفظ کرتے ہیں۔اناج کے ڈھیر پر کیڑے حملہ آور ہوں‘ تو پرندے اپنی پتلی پتلی چونچوں سے دبوچ دبوچ کر انہیں باہر نکال دیتے ہیں۔
گائوں قدرت کا بنایا ہوا شاہکار ہوتا ہے۔ زندگی کا ایک مکمل یونٹ‘ جو ٹکڑوں میں بٹا نہیں ہوتا۔ یہاں کی ہر چیز‘ دوسری کی محافظ ہوتی ہے۔ کتے‘ گلیوں اور بازاروں میں گھروں اور دکانوں کی پہریداری کرتے ہیں۔ جب ساری بستی سوتی ہے‘ تو وہ پہرہ دیتے ہیں کہ کوئی چور‘ اجنبی یا لٹیرا آ کر‘ انہیں لوٹ کر نہ لے جائے۔ ایک گھر کی بیماری‘ سب کی بیماری ہوتی ہے۔ وہ اپنے علاج معالجے کا ایک علیحدہ نظام بنا چکے ہوتے ہیں۔ بستی کا ہر مکین‘ کسی نہ کسی بیماری کے علاج کا طریقہ جانتا ہے اور اس علاج کے لئے بازار سے وہ کچھ نہیں خریدتے۔ کہیں نمک رگڑ کے کام چلا لیا جاتاہے۔ گڑ گھسا کے بیماری کا سامنا کیا جاتا ہے۔ کہیں اناج کے دانے پیس کر کام میں لائے جاتے ہیں۔ کہیں پتے رگڑ کر دوائیں تیار کر لی جاتی ہیں۔ یہ تھا ہمارا خود کفیل زرعی معاشرہ‘ جس میں لوگ صحت مند زندگی گزارتے تھے۔ ان کے کھیت اور ان کی فصلیں بھی اپنے علاج خود کر لیا کرتیں۔ وہ اپنی دنیا میں خوش تھے۔ اپنے وسائل میں مست تھے۔ کسی سے کچھ نہیں مانگتے تھے۔ ہر ایک‘ دوسرے کی ضرورت محسوس کر کے‘ خود اس کی مدد کو پہنچ جاتا۔پھر کیا ہوا؟ صنعتی معاشرے نے ان سادہ لوح انسانوں پر ہلہ بول دیا۔ انہیں بتایا کہ زیادہ فصل لینے کے لئے ان پر ہماری دوائیں چھڑکو۔ ان دوائوں کے ساتھ فصلوں کی بیماریاں آ گئیں۔ اب فصلوں کو بیماریوں سے بچانے کے لئے طرح طرح کے سپرے آ گئے۔ وہ سپرے اپنے ساتھ نئی نئی طرح کے کیڑے مکوڑے لے آئے۔ انہوں نے فصلوں کوگھن کی طرح چاٹنا شروع کر دیا۔ ہمارا سادہ لوح زرعی معاشرہ ‘جو تباہ کن دشمنی کے طور اطوار سے مکمل ناآشنا تھا۔ وہ نام نہاد ملکی دشمنیوں کی لپیٹ میں آ گیا اور ترقی نے ہمارے سادہ لوح کسان معاشرے کو اپنا ہدف بنا کر‘ نئے نئے انداز سے حملے شروع کر دیئے۔ آزادی کے بہت عرصہ بعد تک بھی پنجاب میں دونوں طرف کے کسان‘ قدیم دیہی تہذیب کے مطابق ایک دوسرے کے مددگار بنتے۔ وہ فصلوں کے تحفظ کے لئے کوئی چیز ایجاد کرتے‘ تو وہ بازاروں میں پہنچ جاتی اور ہمارے ہاں فصلوں کو بچانے کی کوئی چیز دریافت ہوتی‘ تو وہ سرحدپار کسانوں کے کام آتی۔ پھر سیاستدانوں کی پیدا کردہ دشمنیوں نے ہمیں ایک دوسرے سے بیگانہ کرنا شروع کر دیا۔ اب وہ ہماری فصلوں پر وائرس چھوڑ کے انہیں تباہ کرنے لگے ہیں۔ مگر ہم اتنی ترقی نہ کر سکے کہ وائرس وار کا مقابلہ کر سکتے۔ ایسی ایسی باریکیاں آئیں کہ بھنڈی کا وائرس پیدا کر کے‘ کپاس کی فصل تباہ کر دی جاتی اور کپاس کا وائرس ‘ سبزیوں اور پھلوں پر چھوڑ دیا جاتا۔ میں آج بھی پاکستان میں سیب کے ہرے بھرے درختوں پر ‘بیمار اور داغدار سیب لگے دیکھتا ہوں‘ تو دکھ ہوتا ہے کہ یہی موسم تھے‘ یہی پیڑ تھے‘ جب ان میں گول مٹول‘ بچوں کے سرخ گالوں جیسے سیب لگا کرتے تھے۔ اب وہ بیمار ہو کر ہریالی کی حالت میں رہ جاتے ہیں۔ان کے اندرکیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ پھل ہمارے غریب کسانوں کے ہاتھوں میں آ جاتا ہے۔
پاکستان میں صنعتکاروںاور تاجروں کی حکومتوں نے‘ جس بے رحمی سے ہماری دیہی زندگی اور کسانوں کی معیشت کو تباہ کیا ہے‘ ہم اس کے آخری دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ صنعتی حکمرانوں نے دنیا بھر سے قرضے مانگ مانگ کر ملکی معیشت کا بیڑا غرق کر رکھا ہے اور جب ان کی کرپشن‘ بدمعاشی اور ننگی بھوک‘ ہماری سرمایہ کارانہ معیشت کو زخمی کر دیتی ہے اور یہ قرض مانگنے سے معذور ہو جاتے ہیں‘تب ایسے وقت میں کسان ہی چھاتی پہ ہاتھ مار کے نکلتا ہے۔ اس کے بیل‘ اس کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کا موسم اس پر مہربان ہو جاتا ہے۔ اس کی ہوائیں‘ اس کے جسم اور فصل کو توانائیاں دیتی ہیں اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے‘ معیشت کے مرض کو چار سے چھ مہینے کے اندر ختم کر کے‘ اتنے زرعی ذخیرے فراہم کر دیتا ہے کہ عالمی منڈیوں میں زرعی اجناس فروخت کر کے‘ حکومتی قرضے بھی اتار دیتا ہے اور سرمائے کی بیماریاں بھی دور کرنے لگتا ہے۔ لیکن سرمایہ دار اپنی مٹی اور اپنے کسانوں کا یہ احسان نہیں بھولتے۔ ان کی فطرت سانپ کی طرح ہوتی ہے۔ یہ سنبھلتے ہی سب سے پہلے اپنے محسن کسان کو ڈسنا شروع کر دیتے ہیں اور اس کے جسم میں بچا کھچا خون چوسنے لگتے ہیں۔
ان دنوں بے رحم سرمایہ دار حکمرانوں نے کسان کے منہ کا نوالہ بھی چھین رکھا ہے۔ یہ چاولوں کی پیداوار کا موسم ہے۔ خدا نے ہمارے کسان کو جی بھر کے فصل کی فراوانی سے نوازا ہے۔ لیکن منڈیوں کے کیڑے مکوڑے‘ سرمایہ دار حکومت کی مدد سے ان پر حملہ آور ہو چکے ہیں۔ جو آڑھتی بنکوں سے پیسہ لے کر کسان کو فصل پیدا کرنے کے لئے ایڈوانس رقوم دیا کرتا تھا‘ آج وہ فصل اسے منافع کے لئے دستیاب نہیں۔ سرمایہ داروں نے منڈیوںکے نرخ‘ پیداوار پر ہونے والے خرچ سے بھی کم کر ڈالے ہیں۔ آڑھتی کا مال بازار میں نہیں بک رہا۔ بنکوں سے لئے ہوئے اس کے قرض پر سود بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کسان کے گھر میں پڑی مونجی خراب ہو رہی ہے۔ دوچار بارشیں آ گئیں‘ تو یہ اناج بھی مٹی بن جائے گا۔کسانوں کے ہر گھر میں مایوسی اور ناامیدی پھیلی ہے۔ مارکیٹ نے انہیں شکنجوں میں کس کے رکھ دیا ہے۔ نئی فصل بونے کا کسی کے پاس بندوبست نہیں۔ وہ اپنی مونجی مویشیوں کو کھلا رہا ہے۔ برے وقت میں یہی اس کے ساتھی ہوتے ہیں۔ بھوک تھوڑی ہو‘ تو دودھ سے پیٹ بھر دیتے ہیں۔ ورنہ بے چارے اپنے آپ کو خوراک بناکر ‘ کسان کے سامنے پیش کر ڈالتے ہیں۔
حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کے منہ بند کرنے کے لئے ایک کسان پالیسی دی ہے‘ جس کے سارے فوائد مونجی کے تاجروں کے لئے مخصوص ہیں۔ براہ راست کسان کے لئے اس میں کوئی رعایت نہیں۔ صرف گندم کی آنے والی فصل کے لئے سستی کھاد فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ مگر عملی صورتحال یہ ہے کہ نہ تو کھاد لائی گئی ہے اور نہ ہی اس کے ریٹ مقرر کئے گئے ہیں۔ اگلے چند روز میں گندم کی بوائی شروع ہو جائے گی۔ اس وقت کھاد کے نرخ نکلیں گے۔ لیکن کسانوں کو ابھی سے معلوم ہے کہ انہیں مقررہ سرکاری نرخ پر کھاد نہیں ملے گی۔ وہ ن لیگ کے شکرے اپنے اپنے لیڈر کی پرچی لے کر‘ حاصل کر لیں گے اورپھر یہ کھاد ‘من مانے نرخوں پر کسانوں کے ہاتھ فروخت کریں گے۔کسان کا ایک معمولی سہارا مونجی کی نئی فصل ہے‘ جو چند روز میں تیار ہو جائے گی۔ جبکہ آڑھتیوں کے ذخیروں میں پرانی فصل کے ڈھیر لگے ہیں۔ نئی کون خریدے گا۔ یہ میں اپنے کسان کی ان دو فصلوں کا ذکر کر رہا ہوں جن کے بل بوتے پر ان کی معیشت چلتی ہے۔ اس بار ظلم کی انتہا یہ ہے کہ کسان کے پاس پرانی مونجی کے بھی ڈھیر لگے ہیں اور تھوڑے دنوں کے بعد نئی مونجی کے ڈھیر لگنا شروع ہو جائیں گے۔ گندم بونے کے لئے قرضے پر بیج لینا پڑے گا اور نئی گندم اگانے کے لئے جن کھادوں اور دوائوں کی ضرورت پڑے گی‘ وہ مہنگے داموں خریدنا پڑیں گے۔ یہ سب کچھ کر کے‘ کسان کے ہاتھ میں جو نئی اور پرانی مونجی اور آنے والی گندم آئے گی‘ اسے تاجر خریدلیں گے۔ تاجروں کی کمر پہلے ہی ٹوٹی پڑی ہے۔ وہ حکمران تاجروں کے ہاتھوں میں فروخت کریں گے اور کسان کا خون بیچ کر‘ لوہے کے نفعے میں بدل دیں گے۔ اگلے چند روز میں گنے کی فصل بھی اپنے انجام کی طرف بڑھنے والی ہے۔ شوگر ملز کے مالکان‘ جن کی اکثریت حکومت پر قابض ہے‘ گزشتہ سال کے گنے کا معاوضہ دبائے بیٹھے ہیں اور اب نئی فصل کا گنا‘ اونے پونے خریدنے کی تیاریاں کئے بیٹھے ہیں۔ ان غریبوں کو گزشتہ فصل کے پیسے نہیں ملے۔ ان کی نئی فصل بٹور لی جائے گی۔ مفت کے مال میں چینی جتنی سستی پڑے گی‘ اتنی مہنگی کر کے صارفین کو فروخت کر دی جائے گی۔ حکمران ٹولہ مزید سرمایہ دار ہو جائے گا۔ کسان کی بھوک مزید بڑھ جائے گی اور اس طرح بے رحم سرمایہ دار حکومت صدیوں سے معاشرے اور معیشت کو چلانے والے کسان معاشرے کو ملیا میٹ کر دے گی اور پاکستان کی اکثریتی آبادی‘ حکمرانوں کی محتاج بن کر رہ جائے گی۔ انہیں ملوں کے لئے بھی سستا انسانی ایندھن دستیاب ہو جائے گا اور سارے ملک کے باقی ماندہ محنت کش‘ بھٹہ مزدوروں کی حالت میں فیکٹریوں ‘ کارخانوں اور تعمیراتی منصوبوں کی اپنے لہو سے آبیاری کریں گے۔میں صرف خیال آرائی نہیں کر رہا۔ آنکھیں کھول کر دیکھئے! بہت کچھ ہو رہا ہے اور بہت کچھ ہونے والا ہے۔