تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     01-10-2015

نیپال میں وفاقی پارلیمانی جمہوریت کا آغاز

ہمالیہ کی گود میں اور ایشیا کے دو بڑے ممالک یعنی چین اور بھارت کے درمیان سینڈ وچ کی طرح واقع ملک نیپال دنیا کی بلند ترین چوٹی مائونٹ ایورسٹ کے علاوہ لاتعداد چھوٹی بڑی چوٹیوں‘ گھنے جنگلات اور ہزاروں ندی نالوں اور جھرنوں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاحوں کی توجہ کا مرکز چلا آ رہا ہے۔ تاہم قدرتی حسن سے مالا مال تقریباً پونے تین کروڑ افراد کی آبادی والے اس غریب ملک کو گزشتہ کئی دہائیوں سے متعدد مسائل نے گھیر رکھا ہے۔ 1960ء کے بعد تقریباً تیس برس تک یہ ملک آمریت کی چکی میں پستا رہا۔1990ء میں ایک جمہوری تحریک کے نتیجے میں ‘جس کا آغاز دراصل 1979ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف نیپالی طلباء کے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں سے ہوا تھا ‘ ایک آئینی بادشاہت اور پارلیمانی جمہوریت قائم ہوئی ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ملک میںمائو پرست کمیونسٹ باغیوں کی شورش شروع ہو گئی جو دس سال تک جاری رہی۔ اس میں تقریباً دس ہزار افراد لقمہ اجل بنے۔ اس عرصے میں ملک میں سیاحت ‘جو کہ قومی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘ بہت بری طرح متاثر ہوئی۔2006ء میں اس بغاوت کو ختم کرنے کے لئے مائو پرست جنگجوئوں اور ملک کی سیاسی پارٹیوں کے درمیان معاہدہ ہوا۔ باغیوں کا سب سے بڑا مطالبہ یعنی بادشاہت کا خاتمہ تسلیم کر لیا گیا۔2008ء میں ملک نے ایک عبوری آئین کے تحت نئے سیاسی سفر کا آغاز کیا ۔ مگر مستقل آئین کی تشکیل کے راستے میں اتنی مشکلات اور رکاوٹیں پیدا ہوئیں کہ اس کام کی تکمیل میں سات سال لگ گئے (پاکستان کو اپنا پہلا(1956ء کا) آئین بنانے میں 9سال کا عرصہ لگا تھا) بالآخر 601ارکان پر مشتمل ملک کی دوسری آئین ساز اسمبلی ایک آئین بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ 
20ستمبر کو صدر رام بران یادیو نے اس کا باقاعدہ اعلان کیا۔ اگرچہ اس آئین کو اسمبلی میں بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا اور اسے نیپال کی تین بڑی سیاسی جماعتوں یعنی نیپالی کانگرس ‘ کمیونسٹ پارٹی (متحدہ مارکسٹ۔ لیننسٹ) اورمتحدہ کمیونسٹ پارٹی (مائو پرست) کی حمایت حاصل ہے لیکن اس آئین کے منظور ہونے کے ساتھ ہی اس کے خلاف احتجاجی مظاہروں اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ان احتجاجی مظاہروں کا مرکز جنوبی نیپال میں واقع بھارت سے ملحق ترائی کا علاقہ ہے۔ جہاں ملک کی تقریباً آدھی آبادی رہتی ہے لیکن اکثریت کا تعلق مادھیشی نسل سے ہے۔ یہ لوگ نسل ‘ زبان اور ثقافت کے لحاظ سے سرحد پار بھارتی ریاست بہار کے لوگوں کے زیادہ قریب ہیں۔ ان کے علاوہ مسلمانوں اور دیگر چھوٹی اقلیتوں کا مسکن بھی یہی علاقہ ہے جو زرخیز اور ہموار زمین کی وجہ سے نیپال کا سب سے اہم پیداواری زرعی علاقہ ہے۔
مادھیشی اور دیگر چھوٹی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کے احتجاج کا بنیادی سبب یہ ہے کہ نیپال میں وفاقی طرز ریاست کا پہلی دفعہ تجربہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے قبل نیپال وحدانی ریاست تھی‘ حالانکہ جغرافیائی طور پر نیپال تین بڑے اور مختلف حصوں میں تقسیم ہونے کے علاوہ ایک کثیرالنسل ‘ کثیر المذاہب اور کثیر الثقافت ملک ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی تقریباً تمام سیاسی پارٹیوں میں نیپال کو وفاقی ریاست بنانے پر اتفاق تھا۔ دوسرے اصول جن پر نیپال کے نئے آئین کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ وہ سیکولرزم اور پارلیمانی جمہوریت ہے۔
نئے آئین کے تحت نیپال کو سات ریاستوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ملک کا سربراہ صدر ہو گا جس کے اختیارات برائے نام ہوں گے۔ اصل اختیارات پارلیمنٹ یعنی وزیر اعظم کے پاس ہوں گے۔ اس لحاظ سے نیپال کا نیا سیاسی نظام پاکستان اور بھارت کے نظام حکومت سے گہری مماثلث رکھتا ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ نیپال کو سیکولر سٹیٹ قرار دیا گیا ہے۔ حالانکہ اس ملک کی 80فیصد سے زائد آبادی ہندوہے۔ بادشاہت کے دوران میں نیپال سرکاری طور پر ہندو ریاست تھا۔
ترائی کے مادھیشی اور چھوٹی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی طرف سے حکومت کے خلاف جاری احتجاجی تحریک میں دونوں طرف سے اب تک 40کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تحریک کی بنیادی وجہ ان لوگوں کے یہ خدشات ہیں کہ ملک کو سات ریاستوں میں تقسیم کرنے سے ان کی عددی اکثریت منتشر ہو جائے گی اور ریاست کے فیصلہ سازی کے عمل میں اب تک انہیں جو بالادستی حاصل تھی ‘ وہ ختم ہو جائے گی۔ انہیں ڈر ہے کہ نئے آئین میں دیئے گئے انتخابی عمل میں ''پہاڑی‘‘ لوگوں کو میدان میں رہنے والے لوگوں پر بالادستی حاصل ہو جائے گی۔ اس لیے ترائی سے تعلق رکھنے والے اور اپوزیشن کے تقریباً100کے قریب ارکان اسمبلی نے نئے آئین کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
لیکن نئے آئین کو صرف مادھیشی باشندوں اور چھوٹی اقلیتوں کی طرف سے چیلنج درپیش نہیں۔ ہمسایہ ملک بھارت نے بھی‘ جس کے ساتھ نیپال کی طویل جنوبی سرحد مشترک ہے‘ نیپال کے نئے آئین پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر اس نے نیپال کی حکومت سے شکایت کی ہے کہ نئے آئین کی تشکیل میں بھارتی رائے اور مشورے کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ بھارت کی رائے تھی کہ نئے آئین کو اکثریت کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اتفاق رائے (consensus)کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے جس میں مادھیشیوں کے مفادات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے بھارت کی جانب سے نیپال کو یہ مشورہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے ذاتی طور پر دیا گیا تھا جنہوں نے مئی 2014ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد دو دفعہ نیپال کا دورہ کیا ۔
چنانچہ 20ستمبر کو جہاں نیپالی عوام نئے آئین کے نفاذ پر قومی جشن مناتے ہوئے پوری دنیا سے مبارک بادیں وصول کر رہے تھے بھارتی حکومت نے نہ صرف انہیں مبارک باد دینے سے احتراز کیا بلکہ اظہار ناراضگی کے طور پر نیپال سے اپنے سفیر کو ''صلاح مشورے‘‘ کے لیے دہلی طلب کر لیا۔ نیپالی وزیر اعظم نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اصولی طور پر یہ بات درست ہے کہ آئین قومی اتفاق رائے کی بنیاد پر تشکیل دیا جائے لیکن جہاں ایسا ممکن نہ ہو تو بھاری اکثریت سے منظور کردہ آئین کا خیر مقدم کرنا چاہیے اور اگر اس طرح منظور کئے جانے والے آئین میں کچھ خامیاں رہ جاتی ہیں تو انہیں ترمیم کے ذریعے دور کیا جا سکتا ہے۔ نیپال نے بھارت کو جواب دیا کہ آئین اکثریت یا اتفاق رائے کی بنیاد پر تشکیل دینا نیپال کا اندرونی معاملہ ہے ‘بھارت کو مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
لیکن بھارت کے منفی ردعمل نے نہ صرف نیپالی عوام کو مایوس کیا ہے بلکہ پورے ملک میں غصے اور ناراضگی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیپالی عوام کو یہ آئین بڑی مشکلات کے بعد نصیب ہوا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ اس آئین پر عمل میں ہمسایہ ممالک نیپال کی مدد اور اس سے تعاون کریں‘ خصوصاً بھارت‘ کیونکہ نیپال اور بھارت کے تعلقات بہت قریبی اور گہرے ہیں۔ نیپال چاروں سے طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ملک ہے صرف بھارت کے راستے اس کا بیرونی دنیا سے رابطہ ہے۔ اسی وجہ سے اس کی تجارت کا تقریباً 65فیصد حصہ بھارت کے ذریعے تجارت پر مشتمل ہے۔ بھارت کے بعد دنیا میں نیپال واحد ہندو ریاست ہے ۔ نیپالی عوام کی تمام اہم ضروریات زندگی مثلاً پیٹرول‘ کھانے کا تیل ‘ آٹا‘سبزیاں اور گارمنٹس بھارت سے آتی ہیں چونکہ ملک کا معاشی ضروریات کے لیے بھارت پر بہت زیادہ انحصار ہے۔ اس لیے بھارت اس سے فائدہ اٹھا کر ہر نیپالی حکومت کو بھارت کی مرضی کے مطابق اندرونی اور بیرونی پالیسیاں اپنانے پر مجبور کرتا ہے۔ نئے آئین پر بھارت کی ناراضگی کا اظہار اس کے اسی روایتی رویے کا حصہ ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved