میں نے اس سے کہا''میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا ایڈی ( عدنان)۔ اندر ہی اندر ایک خلش مجھے کھائے جا رہی ہے ۔ تم سے نہیں تو اورکس سے میں اپنے دل کی بات کہوں۔ تمہاری ہی رہنمائی میں ، میں نے کامیابیوں کا سفر طے کیا۔ تمہاری نصیحت پر عمل کرتے ہوئے ، بارہا میں نے مٹی کو سونا بنایا ہے ۔ سچ کہوں تو میرے ماں باپ ، بہن بھائی، سبھی کچھ تم ہی ہو۔بظاہر لوگوں کو میری کامیاب و کامران زندگی نظر آتی ہے ۔ یہ بات انہیں معلوم نہیں کہ میری ہر کامیابی کا پسِ منظر تم ہی ہو‘‘۔
ایک بے نیاز خاموشی کے ساتھ وہ مجھے دیکھتا رہا ۔ میں نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے مزید کہا ''اب کی بار جس خواہش نے میرے دل میں ٹھکانا بنایا ہے ، دنیاوی مال و متاع سے اس کا کوئی تعلق نہیں ۔ سچ پو چھو تو مال و دولت کی فراوانی میں، میں ان چیزوں سے بہت آگے گزر آیا ہوں ۔دولت کے انبار ہیں لیکن سچ پوچھو تو روپیہ اب مجھے خوشی دیتاہی نہیں۔اب میں ایک تحریر لکھنا چاہتا ہوں ۔ ایسا کلام ، جوبنی نوعِ انسان کی رہنمائی کا باعث ہو۔ روز اپنے ہم نفسوں کو میں رنگا رنگ تکالیف سے گزرتے دیکھتا ہوں ۔ناقص اور کمتر ترجیحات کے لوگ مسندِ اقتدار پر براجمان ہیں ۔ سرکاری ہسپتالوں میں بیمار مر رہے ہیں۔ بچّے تعلیم سے محروم ہیں ۔ کرپشن معاشرے کے بدن میں ناسور بن چکی ۔ہر برس سیلاب آتا، سڑکیں بہا لے جاتا ہے ۔ خزانہ بے کار نمائشی منصوبوں کی نذر ہے ۔میں وہ بات لکھنا چاہتا ہوں ،عوام کالانعام کے دل و دماغ میں جو ایک نئی امید جگائے۔ میں ایک ایسے انقلاب کی بنیاد بننا چاہتا ہوں ،جو لینن اور سٹالن کو بھلا دے ۔اس پورے معاشرے کی میں از سرِ نو تعمیر چاہتا ہوں ۔اب کی بار مخلو ق باہر نکلے گی تو ناکام نہیں لوٹے گی‘‘۔
اب تک وہ مسکرائے جا رہا تھا۔اب اس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے لیکن میں نے بات جاری رکھی۔ ''سچ پوچھو تو معاشرہ ایک نجات دہندہ کی تلاش میں ہے ۔ اپنا استحصال کرنے والے کھوکھلے سیاسی لیڈروں سے وہ خود بھی بے زار ہے ۔ وہ ایک رہنما کا منتظر ہے ۔ ایک ایسا شخص جو ذاتی اغراض سے بالا ہو۔ جس نے دنیا دیکھی ہو ۔ جس نے تاریخ کے ہر بڑے انقلاب کا مطالعہ کیا ہو۔ جولوگوں کو رزق کمانے کا ہنر سکھائے ۔ اپنے حقوق کی جنگ میں جو ان کا سپہ سالار ہو۔ جو چہار دانگِ عالم میں اس پسماندہ قوم کا سر فخر سے بلند کر سکتا ہو۔ انہیں اپنی کھوئی ہوئی شناخت دلا سکتا ہو۔جو دوسری قوموں اور
ریاستوں پرانہیں باقی رہنے والی برتری دلائے‘‘
آج اس کی آنکھوں میں مجھے اختلاف دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے اس کی پروانہیں تھی ۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں ، یہ بات مجھے اچھی طرح معلوم تھی کہ وہ میرا خیر خواہ ہے ۔ مجھے معلوم تھاکہ ابتدا میں خواہ میرے منصوبے اور مقاصد سے وہ اتفاق نہ کرے ، بالآخر وہ مجھے اس کے حصول کی راہ پر لے جائے گا۔ ایک نہیں ، بیسیوں بار ایسا ہو چکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ بلا تکان میں بولتا رہا ''عملی میدان ہی میں نہیں ، نظریاتی محاذ پر بھی میں اپنی درماندہ قوم کی رہنمائی کرنا چاہتا ہوں بلکہ پوری انسانیت کی ۔میں اپنی قوم کو برتری دلانا چاہتا ہوں لیکن دوسروں کا بھی دشمن نہیں ۔ میں خانہ جنگی کی دلدل میں دھنسی ہمسایہ پشتون ریاست کو امن کی راہ دکھانا چاہتا ہوں ۔ میںوہ بات کرنا چاہتا ہوں ، تاریخ میں جو ہمیشہ باقی رہے ۔ جو خون میں ڈوبے مشرقِ وسطیٰ کو نجات کا رستہ دکھائے ۔جنگوں میں مصروف انسانیت کو وہ تعمیر تک لے جائے ۔ تخریب کا باب ختم ہو ۔ انسانی توانائی اعلیٰ و برتر مقاصد پہ صرف ہو ۔ میں انہیں سائنسی تحقیق کی راہ دکھانا چاہتا ہوں ۔ اس راہ پہ چلتے ہوئے، ایجادات کا ایک نیا باب شروع ہو گا‘‘۔
اب میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے وہ لا تعلق سا نظر آیا۔ ایسے جیسے کوئی آپ کی بات سنتے ہوئے بھی نہ سنے۔ اس کے تاثرات ایسے تھے، جیسے کوئی کسی بچّے کی چاند تک رسائی کی خواہش کو بے دلی سے سنتا مگر دیوانے کی بڑ سمجھ کر نظرانداز کرتا رہے ۔ یہ بات میرے لیے تعجب انگیز تھی لیکن میں بولتا رہا ''میری تحریر ادبی چاشنی سے لبریز ہوگی ‘‘میں نے کہا ـ'' اس میں غالبؔ کی فصاحت، اقبال ؔکا سو زو گداز ہوگا۔لوگ شیکسپئر کے کردار بھول جائیں گے‘‘۔
''وہ تو سب ٹھیک ہے ‘‘آخراس نے کہا ''لیکن تم یہ سب کیوں کر نا چاہتے ہو ؟ـ‘‘اس کی نگاہیں میرے آر پار ہو رہی تھیں ۔ میں گڑ بڑا گیا او رکمزور آواز میں یہ کہنے لگا ''عالمِ انسانیت کے لیے میں... ‘‘اس سے آگے مجھے کچھ نہ سوجھا ۔
''عالمِ انسانیت کے لیے کچھ نہیں ‘‘اس نے شاہانہ بے نیازی سے کہا ''تم اپنا نام چاہتے ہو ۔ مخلوق کو اپنی عبادت کرتے دیکھنا چاہتے ہو ۔ میری بات یاد رکھو۔ریاستیں اس طرح اصلاح نہیں پایا کرتیں ۔ یہ دنیا، ملک اور معاشرے بہتری اور ابتری کی طرف جاتے رہتے ہیں لیکن یہ دنیا کبھی جنت نہیں بن سکتی ۔ یہ جہانِ رنگ و بو ایک دائمی کشمکش کے لیے وجود میں آیا ہے ۔ یہاں خیر و شر کی جنگ ہمیشہ جاری رہے گی‘‘۔یہاں اس نے توقف کیااور پھر یہ کہا ''ن کھول کر سن لو۔ باقی رہنے والی بات وہ ہے ، جو خدا نے کہی یا اپنے برگزیدہ بندوں کی زبان سے کہلوائی ۔ تم خدا ہو نہ خدا شناس۔ تم تو خدا پرست بھی نہیں ۔ پھر کس بل بوتے پر تم باقی رہنے والی بات کہنا چاہتے ہو؟ وہ ابلاغ ، وہ سوز وگداز کہاں سے آئے، جب تم کسی عظیم مقصد سے جڑے ہوئے ہی نہیں‘‘۔
پھر میری بے چارگی پر وہ مسکرایا اور یہ کہا''میں نے ہمیشہ تمہاری رہنمائی کی لیکن دنیاوی اغراض میں ۔ تاریخ میں وہ لوگ نیک نامی کے ساتھ زندہ رہتے ہیں ،جو ا ن اغراض سے بالا ہوں ۔ اگر تمہیں مال و دولت کمانے کے کسی منصوبے پر بات کرنا ہو تو میں حاضر ہوں ‘‘۔
''اچھا یہ بات ہے ؟‘‘میں نے ایک گہری سانس لے کر کہا ''چلو پھر مجھے ایک کاروباری معاملے پر تم سے مشورہ کرنا ہے ‘‘۔