ڈالر لے لو ڈالر‘کھلا منافع۔ دونوں ہاتھوں سے لوٹو۔ جو ڈالر ورلڈ بنک سے ایک فیصد سالانہ پر یا آئی ایم ایف سے دو فیصد سالانہ پر ملتے ہیں‘ آپ کو8.25فیصد سالانہ پر دستیاب ہیں۔ آپ نے روڈ شو کاتو سنا ہو گا۔یہ امریکہ اور برطانیہ کی سڑکوں پر چھابا لگانے کی مشق ہے۔ اگر آپ کے پاس طویل قرضے کے ڈالر پڑے ہیں تو آپ یورپ یا امریکہ میں جا کر چھابا لگائیں اور انہی ڈالروں کو چھ سات گنا نفع پر بیچ دیں۔2014ء میں ہمارے چھابے والے وزیرخزانہ‘ ایک ارب ڈالر اندھے منافع پر بیچ کر ‘آئے تھے۔چھابے میں بیچے گئے سودے کا ریکارڈ نہیں ہوتا۔ ہوتا بھی ہے تو ہم نہیں رکھتے۔ ہمارے وزیر خزانہ وزیراعظم نوازشریف کے انتہائی قریبی دوست ہیں اورا نہیں ازراہ احتیاط ہر وقت قریب رکھتے ہیں۔ بندے کے پاس اتنے پیسے ہوں تو بھروسہ کون کرتا ہے؟ کیا پتہ کب چلتا بنے؟ جب یہ دونوں‘گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتے تھے تو میاں صاحب ‘ انتہائی مہنگی گاڑی میں آتے اور ڈار صاحب سائیکل پر تراپڑ تراپڑ برصغیر کے بہترین کالج میں تشریف لاتے۔کون جانتا تھا کہ ایک دن وہ پاکستان کے وزیرخزانہ ہوں گے؟ اور قرضوں میں آئے ہوئے ڈالروں کے ڈھیران کے کنٹرول میں ہوں گے۔بہت سے لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ہمارے وزیرخزانہ‘ یورپ اور امریکہ جا کر‘ ڈالروں کا چھابا کیوں لگاتے ہیں؟ سمجھ مجھے بھی نہیں آئی۔ جس کے پاس ڈالر ہوں‘ اسے چھابا لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اور اس نے بھاری منافع پر قرض دینا ہو تو سرمایہ کمانے والوں کو خود حاضری دے کر‘ خریداری کی پیش کش کرنا چاہئے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ جب پاکستان ‘ یورپ یا امریکہ کی کسی سڑک پر ڈالروں کا چھابا لگائے تو پہلے ہی سے مجمع جم جانا چاہئے لیکن پاکستان کی عجیب بے قدری ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی پاکستان ڈالروں کا چھابا لگاتا ہے‘ نہ کوئی انتظار کے لئے کھڑا نظر آتا ہے اور نہ ہی ڈار صاحب کسی کو دکھائی دیتے ہیں۔
اب کے وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے گئے تھے۔ وزیراعظم انہیں اپنی حکومت کا ایک معزز رکن سمجھ کر‘ اپنے وفد میں ساتھ لے گئے۔ یوں تو وزیراعظم‘73افراد کا وفد سرکاری خرچ پر‘ اپنے ساتھ لے گئے اور جان بوجھ کر تقریر آخری دن رکھی تاکہ73مہمان اداکار‘ جی بھر کے نیویارک کی سیر کر لیں۔ ایک بات واضح کر دوں کہ سرکاری دوروں پر موج میلوں پر گئے مہمان کسی مصروفیت کے پابند نہیں ہوتے۔انہیں کھلی آزادی ہوتی ہے کہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر سے پیدل چلتے ہوئے‘ جس تفریحی مقام پر جانا چاہیں‘ چہل قدمی کرتے چلے جائیں ۔ جب آپ اتنے بڑے ہوٹل میں ٹھہرے ہوں‘ جہاں بھارت کے وزیراعظم‘ روس کے صدر‘ غالباً چین کے صدر بھی قیام پذیر ہوں اور ان میں سب سے ممتاز لیڈر‘ ہمارے وزیراعظم ‘نوازشریف ہوں تو دلکش سے دلکش مہمان بھی‘ ایک اشارے پر ہوٹل میں آپ کا مہمان بن سکتا ہے۔ وفد میں شامل اراکین کو ایسا کرنے کی اجازت ہوتی ہو یا نہیں؟۔ باقی لوگوں کا مجھے پتہ نہیں‘ڈار صاحب پر یقین ہے کہ وہ نیو یارک کی سڑکوں پر‘ روڈ شو میں ڈالر تھامے جا سکتے ہیں۔ مگر ڈالر صاحب کو سوائے ڈالروں کے کسی اور چیز کی فکر نہیں ہوتی۔ اخبارات میں آیا ہے کہ ڈار صاحب نے نیو یارک میں روڈ شو لگائے۔ سرکاری خرچ پر گئے ہوئے کسی پاکستانی رپورٹر نے ڈار صاحب کا روڈ شو نہیں دیکھا۔ایک دُور کے ٹی وی چینل کے‘ اور بھی دُور کے اینکر نے‘ نیو یارک کی ایک سڑک پر بہت دور کھڑے ہو کر بتایا کہ اقوام متحدہ ہیڈ کوارٹر کے سامنے‘ وہ ایک سڑک پر چہل قدمی کر رہا تھا کہ آٹھ گز کی ایک لیموزین‘ اس کے قریب آکر آہستہ ہوئی۔ اس کی کھڑکی کا شیشہ کھلا۔ اندر سے آواز آئی ۔ جیسے ہی اس نے پلٹ کر دیکھا۔ایک چہرہ جھٹ سے پیچھے چھپ گیا اور کھڑکی کا شیشہ بند ہو گیا۔ وہ اینکر صاحب یہ نظارہ دیکھ کر ہڑ بڑا گئے اور ابھی تک سوچنے میں لگے ہیں کہ وہ ڈار صاحب ہیں یا کوئی اور؟ ان کے خیال میں یہ ڈار صاحب کا روڈ شوتھا۔ روڈ شو لگتا تو اسی طرح ہے لیکن عام طور پر ''پھیری والا‘‘ گاڑی سے نکل کر سڑک پر کھڑا ہو کے گاہکوں کو متوجہ کرتا ہے۔ مشکل یہ تھی کہ ہمارے ڈار صاحب دیکھنے میں سب کچھ نظر آتے ہیں لیکن اتنے امیر نہیں کہ ان کا چھابا ڈالروں سے بھرا نظر آئے۔ میرا نہیں خیال کہ وزیراعظم نے ان کے ساتھ کھڑے ہو کر‘ ساکھ میں اضافہ کیا ہوگا؟۔اکثر اوقات کمپنی ہی آدمی کی وقعت بڑھا دیتی ہے۔ یہ جو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک‘ پاکستان کو دھڑا دھڑ ڈالر دے رہے ہیں‘ وہ ڈار صاحب کو دیکھ کر نہیں دیتے‘ انہیں نوازشریف کا چہرہ نظر آتا ہے۔کاش! میاں صاحب کو خبر ہو کہ ان کے نام پر پاکستان کو ملے ہوئے ڈالر چھابا لگا کر‘ سڑکوں پر بیچے جا رہے ہیں تو شاید وہ بھی اس معاملے کی طرف توجہ دیں۔ یقین کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ پاکستان کے قومی خزانے کو ملے سستے ڈالر‘ مہنگے منافع پر چھابا لگا کر بیچے جائیں گے۔ سننے میں یہ آیا ہے کہ ڈار صاحب نے اپنے ہمراہیوں کا ایک گروپ تیار کر رکھا ہے‘ جو گاہکوں کے بھیس میں‘ روڈ شو کے ڈالر خریدتا ہے‘ ورنہ اتنے بھاری منافع پر ڈالر سڑک پر دستیاب ہوں اور کوئی مجمع اکٹھا نہ ہویہ کیسے ممکن ہے؟آج تک اخباروں میں کوئی تصویر نظر نہیں آئی ‘جس میں ڈارصاحب ‘ڈالروں کا سوٹ کیس تھامے یا کندھے پر رکھ کے آواز لگا رہے ہوں اور مجمع ڈالروں کی خریداری کر رہا ہو۔الزام لگانے والے‘ ایک ہی بات کہتے ہیں کہ اصل میں خریداروں کا جو چارٹ جاری کیا جاتا ہے ‘ وہ سب فرضی بھرتیاں ہوتی ہیں۔ڈارصاحب کے قریبی دوستوں میں کچھ لوگ ہوتے ہیں‘ جو اندر ہی اندر پاکستانی خزانے کے لئے‘ مہنگے منافع والے ڈالر ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے ہیں اور اپنی خفیہ دولت میں اضافہ کر کے‘ اسے جائز بناتے رہتے ہیں۔ آپ اسے ''ڈارلنگ اکانومی‘‘ کا حصہ سمجھ لیں۔ اندازہ کیجئے کہ جن لوگوں نے دبئی میں منی لانڈرنگ کی دولت چھپا چھپا کے رکھی ہو اور اسے روڈ شو میں‘ دستاویزات کے بغیر دھڑا دھڑ ڈالر مل جائیں اور آٹھ نو سال کے بعد‘ وائٹ بھی ہو جائیں تو اور کیا چاہئے؟ منی لانڈرنگ کی دولت چھپا کے آدمی نروس اور سٹپٹایا سا نظر آتا ہے اور آج کل تو رینجرز بھی لٹھ لے کر‘ خفیہ دولت کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہے۔
پچھلے سال ہمارے ڈار صاحب نے روڈ شو لگا کر‘ ڈالر بیچے۔ ابھی منافع ادا کرنے کا پہلا دور بھی پورا نہیں ہواتھا کہ وہ ایک بلین ڈالر مزید بیچنے جا پہنچے۔ جلدی کس بات کی تھی؟ کیاآئی ایم ایف نے نظر رکھ لی تھی یا عالمی بنک تعاقب کر رہا تھا؟ کہ ہمارا ایک یا دو فیصد پر دیا ہوا ڈالرسواآٹھ فیصد پر لٹایا جا رہا ہے لیکن مجھ جیسے کالم نویس کو اس کھیل میں دخل دینے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نہ میں دولت کے ذخیرہ اندوزوں میں‘ نہ خریداروں میں اور نہ زیادہ سود پر رقم لگانے والوں میں۔ ہم لوگ مفت کے تماشائی ہوتے ہیں اور اصل کھلاڑیوں کو دیکھ دیکھ کر‘ آہیں بھرتے ہیں ورنہ ڈار صاحب برا کیا کرتے ہیں؟ سرکاری خزانے پر ان کا کنٹرول ہے۔ عالمی اداروں سے سستے ترین ڈالر لے کر‘ مہنگے ترین نفع پر‘ بیچنے کا اختیار انہیں حاصل ہے۔چھابا لگا کر زیادہ نفع پر بیچے ہوئے ڈالروں کا بھاری منافع پاکستانیوں کو دینا پڑتا ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے پر ڈانٹ ڈپٹ تو عام شہریوں کو ہی پڑتی ہے۔ ان دنوں پاکستان کے تاجروں پر مصیبت پڑی ہے کہ وہ اپنی جائز رقوم‘ جن کا ٹیکس وہ ادا کر چکے ہوتے ہیں‘ بنکوں میں رکھتے اور نکالتے وقت حکومت کو پھر ٹیکس دیں اور اس طرح ان کی جمع پونجی پر ٹیکس پر پلنے والے‘ نظر جمالیں اور جب جی چاہے مزید ٹیکس لگا کران کی دولت میں مزید حصہ بٹور لیں۔ دنیا بھر میں حکومتوں نے ٹیکسوں کی وصولی کا ایک نظام بنا رکھا ہے۔ ادھر لین دین ہوتاہے‘ ادھر ٹیکس خود بخود کٹ جاتا ہے۔ ہماری حکومتیں کوئی ایسا نظام بنانے کو تیار ہی نہیں ہوتیں‘ جن کے تحت کوئی بدنصیب شفاف طریقے سے ٹیکس ادا کر سکتا ہو اور ٹیکس وصول کرنے والوں کے جلادی حربوں سے محفوظ رہ کر‘ اطمینان کی نیند سو سکتا ہو۔ ہمارے ٹیکس خور محکمے پیسہ تو بٹورتے ہیں‘ نیندیں بھی چھین لیتے ہیں۔ یہ ہے وہ سزا ‘جو پاکستان میں حق حلال کی کمائی کرنے والوں کو دی جاتی ہے۔ ابھی ابھی ڈار صاحب نے قوم کو بتایا ہے کہ ہمارے خزانے میں بیس ارب ڈالر جمع ہو چکے ہیں اور میں نے قوم سے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ ڈالر صاحب نے اپنے ''خفیہ خانے‘‘ سے باقی ماندہ رقم کے ڈالر خرید کے قومی خزانے میں ڈال دیے ہیں۔اسے کہتے ہیں آم کے آم ‘ گٹھلیوں کے دام۔