خدا کی بستی میں اپنے اعمال کے نتائج سے آدمی بچ نہیں سکتا۔
اقوامِ متحدہ میں وزیرِ اعظم کی تقریر سے محترمہ شیریں مزاری کے سوا کسی کو مایوسی نہیں ہوئی۔ بلاشبہ یہ ایک معرکتہ الآرا خطاب ہے۔ لاہور کے حلقہ 122 میں عمران خان نے تحریکِ انصاف کی انتخابی مہم میں ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ انحصار دو عوامل پر ہے۔ کارکنوں کو متحرک کر دیا جائے اور کپتان پوری قوت سے بروئے کار آئے۔ آغاز میں علیم خان کمزور دکھائی دیے۔ گیلپ کو اب نیا سروے کرنا چاہیے۔ علیم خان غالباً اب ایاز صادق سے آگے نکل چکے، جو بیک وقت خود ترحمی اور زعم کا ایک نادر نمونہ ہیں۔ پارٹی کی کامیابی یہ بھی ہے کہ دبائو کے شکار الیکشن کمیشن نے فوج طلب کر لی ہے۔ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو اس طرح ایک نیا ولولہ ملا ہے۔ محترمہ شیریں مزاری کے ردّعمل کا تعلق مگر اس جوش و خروش سے نہیں۔ وہ ہمیشہ ہوا کے گھوڑے پر سوار رہتی ہیں۔ فرمایا: نواز شریف کی تقریر مایوس کن ہے۔ کوئی نئی بات ان کے خطاب میں نہیں۔
نئی بات سے مراد کیا ہے؟ اپنا گریبان وہ چاک کر دیتے؟ نریندر مودی کو بے نقط سناتے۔ خود عمران خان بھارت سے اچھے تعلقات کے آرزومند ہیں۔ دوسروں کی طرح وہ بھی صرف یہ کہتے ہیں کہ کشمیر سمیت بنیادی مسائل پر بات کی جائے۔ شیریں مزاری کے سوا اگر کسی کو صدمہ ہوا تو وہ بھارتی میڈیا ہے۔ بھارتی اخبارات تنقید سے بھرے پڑے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ شملہ معاہدے کے تحت پاکستان کو حق نہیں کہ تنازعے کو عالمی فورم پر اٹھائے۔ 43 سال گزر جانے کے باوجود اگر ایک ذرا سی پیش رفت بھی نہیں۔ اگر اس اثنا میں کم از کم 94 ہزار کشمیری شہید کر دیے گئے۔ ایک لاکھ گرفتار ہوئے۔ بائیس ہزار عورتیں بیوہ ہو گئیں۔ ایک لاکھ گیارہ ہزار بچے یتیم کر دیے گئے اور ایک لاکھ سے زیادہ عمارتیں جلا دی گئیں‘ تو کیا پاکستان تماشا دیکھتا رہے؟ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا ''را‘‘ کے سابق چیف اے ایس دلت تک پکار بیٹھے ہیں کہ کشمیر پر بات کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔
وزیرِ اعظم کی تجاویز دور اندیشی کی مظہر اور اپج رکھتی ہیں۔ تلخی پیدا کیے بغیر مظلوم کشمیریوں کی انہوں نے ترجمانی کی۔ بظاہر ملیحہ لودھی، جلیل عباس جیلانی اور طارق فاطمی کی ذکاوت اس میں جھلک رہی ہے۔ مجھے تو یہ تقریر ملیحہ لودھی کی لکھی ہوئی لگی۔ یہ پیغام دینے میں وزیرِ اعظم کامیاب رہے کہ پاکستان تصادم سے گریزاں اور امن کا آرزومند ہے۔ سیاچن اور کشمیر سے فوجیں نکال لینے کی تجویز اس قدر معقول اور مثبت ہے کہ بھارت سے کوئی جواب بن نہ پڑے گا۔ بھارت کو انہوں نے جنگ نہ کرنے کے معاہدے کی پیشکش نہیں کی۔ مفاہمت پر مگر آمادگی ظاہر کی کہ دونوں ملک طاقت کے استعمال سے گریز کریں۔ انہوں نے اقوامِ متحدہ کے مبصرین کی تعداد میں اضافے کا تصور دیا۔
بھارت اس تجویز کے خلاف دلیل کہاں سے لائے گا؟ وزیرِ اعظم نئی بات کیا کہتے؟ الطاف حسین کی طرح گانا گا کر سناتے؟
تحریکِ انصاف کی ترجمان ادراک نہیں کر سکیں کہ وزیرِ اعظم کی اس تقریر کے پیچھے غیر معمولی ریاضت کارفرما ہے۔ ٹھیک اسی دن، جنرل راحیل شریف برطانوی قیادت کو بتا رہے تھے کہ پاکستان امن کا خواہشمند ہے‘ مگر اپنے وقار کی قیمت پہ نہیں۔ وزیرِ اعظم کے خطاب کا خلاصہ بھی یہی ہے۔ آشکار ہے کہ امریکہ جانے سے قبل سول اور فوجی قیادت میں طویل صلاح مشورہ ہوا۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھی وزیرِ اعظم سے یہی کہا تھا کہ بھارت سے مراسم اگر بہتر ہو سکتے ہیں تو معمول کے سفارتی انداز میں، مرحلہ وار! تب میاں صاحب ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے آرزومند تھے۔ ہوش مندی بالآخر غالب آئی ہے۔ اس پر ان کی تحسین کی جانی چاہیے۔
اہم اداروں اور ممتاز قومی شخصیات کے درمیان مشاورت کا عمل ہمیشہ نتیجہ خیز ہوا کرتا ہے۔ صرف عسکری قیادت ہی نہیں، وزارتِ خارجہ کو بھی ہمیشہ اعتماد میں لیا جانا چاہیے۔ سول سروس کی بہترین ذہانت اس ادارے میں کارفرما ہے مگر کبھی اس پر بھروسہ نہ کیا گیا۔ قومی دفاع سے متعلق معاملات میں فوج کو اجارہ داری حاصل ہے۔ عسکری قیادت کو ادراک ہونا چاہیے کہ سول اداروں کو بہتر بنائے بغیر کبھی کوئی ملک حقیقی استحکام سے بہرہ ور نہیں ہوا۔
وزیرِ اعظم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ثمربار خارجہ پالیسی ایک یا ایک سے زیادہ معرکوں کا نام نہیں۔ مستقل مزاجی کے ساتھ یہ دیرپا منصوبہ بندی کا مطالبہ کرتی ہے۔ سفارت کاروں کی مسلسل رہنمائی ان خطوط پر ہونی چاہیے کہ عالمی رائے عامہ کو وہ پیہم اپنے معقول موقف پہ ہموار کرتے رہیں۔ کشمیر کے علاوہ ہماری سرزمین پہ بھارتی مداخلت پر پاکستان کا مقدمہ مضبوط ہے۔ ہم اسے دنیا کے سامنے ڈھنگ سے پیش کرنے میں ناکام رہے۔ وزیرِ اعظم نے نکتہ اٹھایا کہ دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ قربانیاں دینے والے ملک ہی کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ ان کے خطاب کا یہ حصّہ زیادہ موثر بنایا جا سکتا تھا۔ دلائل کو مجروح کیے بغیر، بعض اوقات انسانی جذبات سے اپیل کرنے کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ پاکستان کی واحد بندرگاہ اور سب سے بڑے صنعتی مرکز کراچی سے لے کر بلوچستان اور بلوچستان سے قبائلی پٹی تک بے گناہوں کے چیتھڑے اڑانے والے دہشت گردوں کی پشت پہ بھارت کھڑا ہے۔ سلیقہ مندی کے ساتھ ''را‘‘ کے وحشیانہ منصوبے واشگاف کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کام مگر کون کرے گا؟ ہماری وزارتِ اطلاعات؟ عمران خان ہی سے جس کو فرصت نہیں۔
بھارت سے بھلائی کی کچھ زیادہ امید نہیں کی جا سکتی مگر مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ حکمت سے کام لیا جائے تو اخلاقی برتری ہی بالآخر عملی فتح میں ڈھلتی ہے۔ دنیا بھر میں آزادی کی تحریکوں کا مطالعہ یہی بتاتا ہے۔ افسوس کہ ہم دور اندیش واقع نہیں ہوئے۔ بھڑک اٹھتے ہیں یا بجھ جاتے ہیں۔ اقبالؔ نے کہا تھا: چیست حیاتِ دوام؟ سوختنِ ناتمام۔ دائمی زندگی کیا ہے؟ سلگتے رہنا۔
سلگتے جاتے ہیں چپ چاپ ہنستے جاتے ہیں
مثالِ چہرہء پیغمبراں گلاب کے پھول
مقطع میں آ پڑی ہے سخن گسترانہ بات۔ داخلی معا ملات میں بھی وزیرِ اعظم اگر مشاورت اور معقولیت کا مظاہرہ کر سکیں؟ نندی پور اور قائدِ اعظم سولر پارک کا ماتم باقی تھا کہ نیپرا کی رپورٹ سامنے آئی۔ ستر فیصد بل غلط ہیں۔ ثانیاً لوڈ شیڈنگ کا بنیادی سبب بدانتظامی ہے۔ کتنی ہی مشینیں خراب پڑی ہیں۔ پٹرول کی قیمت ساٹھ فیصد کم ہو جانے کے باوجود اگر یہ معرکہ سر نہیں کیا جا سکتا‘ تو کب ہو گا؟ توانائی کے منصوبوں میں میاں شہباز شریف کی مداخلت کوئی راز ہے اور نہ خواجہ آصف کی بددلی۔ ملک کیا اس طرح چلائے جاتے ہیں؟ وزیرِ اعظم نے فرمایا کہ قومی ترقی میرا مشن ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج تک کوئی ایک ہسپتال، کوئی ایک تھانہ، کوئی ایک سکول یا کالج انہوں نے بہتر بنانے کی کوشش کی؟ بدترین تنظیم کے باوجود تحریکِ انصاف چڑھی چلی آتی ہے تو اس کی وجہ اس کے محاسن نہیں، نون لیگ کے اپنے کارنامے ہیں۔ ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں۔
یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے۔ شریف خاندان کا انجام ماضی کے حکمرانوں سے مختلف نہ ہو گا‘ اگر اپنی فردِ عمل کا وہ جائزہ نہ لے گا۔ عمارت کی بنیاد کمزور ہو تو بارش اسے بہا لے جائے گی یا طوفان پامال کر دے گا۔ خدا کی بستی میں اپنے اعمال کے نتائج سے آدمی بچ نہیں سکتا۔