تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     02-10-2015

احتساب کے ڈرامے کا آنکھوں دیکھا حال

سوموار کے روز قومی اسمبلی کی دو قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس میں جانے کا فیصلہ کیا۔ دونوں اجلاس اہم تھے۔ ایک اجلاس پبلک اکائونٹس کمیٹی کا تھا جس میں ڈاکٹر عاصم حسین دور کی وزارتِ پٹرولیم کے آڈٹ پیرے تھے کہ موصوف کے دور میں کیا کچھ ہوتا رہا تھا۔ دوسرا اجلاس پانی و بجلی کا تھا جس میںنندی پور سکینڈل پر وزارت نے بریفنگ دینی تھی ۔ 
پہلے پانی و بجلی کے اجلاس میں گیا۔ وہاں چند ایم این ایز بیٹھے تھے حالانکہ کل بیس کے قریب اس کے ممبر ہیں ۔ پتہ چلاویسے تو پانی و بجلی کو پانچ اہم لوگ چلاتے ہیں لیکن وہاں ایک بھی بندہ موجود نہیں تھا ۔ نہ خواجہ آصف اور نہ ہی وزیر مملکت۔ چلیں وزیر بڑی چیز ہوتے ہیں ان کے پاس وقت نہیں ہوگا لیکن سیکرٹری واٹر اینڈ پاور بھی نہیں تھے ۔ ان کی دیکھا دیکھی نندی پور پروجیکٹ کے سربراہ بھی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔ کمیٹی کے چیئرمین بیٹھے اب قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں وضاحتیں دے رہے تھے کہ دیکھیں وزیر صاحب ملک سے باہر ہیں۔ اگر باہر ہیں تو پھر وزیر مملکت کیوں نہیں آئے؟ چلیں وہ دونوں کسی کام میں مصروف ہوںگے تو پھر سیکرٹری اور دیگر بیوروکریٹس کیوں موجود نہیں تھے؟ سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے اب کیا کریں۔اس اجلاس کے لیے اچھا خاصا خرچہ ہوتا ہے۔ سب کو اس اجلاس کا الائونس ملتا ہے۔ ان سب سے دستخط کرائے جارہے تھے تاکہ ان کو الائونس کی ادائیگی ہو سکے۔ ان کی حالت دیکھ کر مجھے ترس آ رہا تھا کہ یہ وہ سیاستدان ہیں جنہیں عوام کتنی امیدوں کے ساتھ یہاں بھیجتے ہیں کہ یہ ان کے لیے لڑیں گے‘ ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ پتہ چلا ان بے چاروں کو تو کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ کچھ دیر بعد یادآیا کہ سیکرٹری نجکاری کو بلایا گیا ہے جو ان کو بتا رہے تھے کہ یہ کیوں ملک کے مفاد میں ہے کہ اسلام آباد، ملتان، لاہور، گوجرنوالہ، فیصل آباد، سکھر، حیدرآباد اور دیگر بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بیچ دیا جائے۔ نج کاری کے سیکرٹری ایک گھنٹہ اس کے فضائل بتاتے رہے کہ ان کو بیچنے سے کیسے پاکستان سے راتوں رات لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ ملک روشن ہوجائے گا۔ پاکستان میں سرمایہ کاروں کی بھرمار ہوجائے گی۔ شکر ہے کہ ایک ایم این اے کو خیال آیا اور اس نے پوچھ لیا کہ جب ایک سرکاری ٹیلی کام کمپنی کو بیچا گیا تھا تو اس کے ایک ارب ڈالرز آج تک نہیں ملے اور وہ کمپنی بھاری مال کما کر باہر لے گئی ہے۔ مجھے یاد آیا پہلے ایک معاہدہ ہوا ۔ کمپنی خوش نہ ہوئی۔ انہوں نے دوبارہ ایک نیا معاہدہ کیا جس کا سارا فائدہ اس کمپنی کو ہوا۔ اس سے پیسے مانگے گئے تو اس نے کہا کہ پہلے ٹیلی کام کے تمام صوبوں میں اس کے دفاتر کو ان کے نام پر شفٹ کیا جائے۔ صوبوں نے کہا کہ وہ کیوں اپنی جائیداد اس غیرملکی کمپنی کے نام پر ٹرانسفر کریں۔ اس پر وزارت خزانہ نے ہماری جیبوں سے ان صوبوں کو کروڑوں روپے کی ادائیگی کی۔ جب سب کچھ ہو گیا تو پھر اس کمپنی سے کہا گیا کہ وہ ادائیگی کریں۔ انہوں نے کچھ ادا نہیں کیا اور ساری جائیداد بھی لے لی۔ ایک ارب ڈالر ہضم کر گئے۔ یہ تھی نج کاری کی ایک مثال۔ 
اس کمپنی سے ایک ارب ڈالر نہ نکال سکے لیکن نیویارک میں جا کر پانچ سو ملین ڈالرز کے یورو بانڈ مہنگے ترین مارک اپ پر جاری کر دئیے۔ ایک بھارتی کمپنی ریلائنس نے سات سو پچاس ملین ڈالرز جاری کیے تو ریٹ پونے تین فیصد تھا۔ پاکستان نے آٹھ اعشاریہ دو فیصد دیا جو بھارتی کمپنی سے بھی مہنگا ہے۔ یوں پتہ چلا کہ پوری پاکستان حکومت کی ریٹنگ بھارتی کمپنی سے بھی کم ہے۔ سری لنکا، ترکی، ملائشیا، فلپائن نے بھی کم ریٹس پر یہ بانڈ جاری کیے۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ جو مال پانی کچھ بڑے پاکستانیوں نے کمیشن میں کمایا ہے‘ اب اسے بانڈز کے ذریعے لیگل کیا جارہا ہے اور اس کے لیے دنیا کی تاریخ کا سب سے مہنگا ترین مارک اپ ریٹ دیا گیا ہے۔ایک ایم این اے نے پوچھ لیا کہ جناب بجلی کی جن کمپنیوں کو آپ بیچ رہے ہیں ان میں سے کئی تو منافع میں چل رہی ہیں۔ تو سیکرٹری نے جواب دیا کہ وہ بیرون ملک کئی روڈ شوز کر چکے ہیں ۔ یوں ان کمپنیوں کے بیچنے کے نام پر نج کاری کمیشن کے افسران کئی روز بیرون ملک رہ چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کار کو ایسی چیز بیچی جائے جو منافع میں جارہی ہے۔ میں نے ایک ایم این اے کو موبائل پر ٹیکسٹ کیا کہ ذرا اس سے پوچھیں کہ آپ نے نج کاری کے جو ہزاروں فوائد گنوائے ہیں، وہ اپنی جگہ، ذرا یہ بتائیں کہ کراچی الیکٹرک کو بھی آپ نے بیچا تھا اور اربوں روپے کی سبسڈی بھی دی تو پچھلے دنوں جو کچھ کراچی میں ہوا اور بجلی کا بھٹہ بیٹھ گیا‘ اس کا کیا جواز ہے؟ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ نج کاری سب فراڈ ہے۔ سرمایہ کاری کے نام پر بھی فراڈ ہورہے ہیں۔ پتہ چلا ہے کہ جس پارٹی کو کراچی الیکٹرک دیا گیا‘ اسے سبسڈی بھی مل رہی ہے تو پھر اسے بیچنے کا کیا تُک بنتا تھا اور جو کراچی میں بجلی کا اتنا بڑا بحران آیا تھا اس سے ثابت نہیں ہوا کہ تجربہ ناکام ہوگیا تھا؟۔ 
میں نے کہا اس سیکرٹری سے پوچھیں کہ اگر اس کے پاس دو دکانیں ہوں، ایک منافع اور دوسری نقصان میں ہو تو وہ کس کو بیچیں گے؟سیکرٹری نے جواب دیا کہ یہ سوال آپ واٹر اینڈ پاور سے کریں۔ میں نے جوابی پیغام بھیجا کہ اسے بتائیں کہ کراچی الیکٹرک کا گاہک نج کاری کمیشن ڈھونڈ کر لایا تھا۔ ان کی ذمہ داری تھی کہ اچھا گاہک لاتے۔ تو کیا نج کاری کمیشن ایسے ہی گاہک ڈھونڈ کر لا رہا ہے جو ملتان، فیصل آباد، اسلام آباد اور دیگر ڈسٹری بیوشن کمپنیاں خرید کر چلائیں گے اور کل کو کہیں گے ان کا اس سے کیا تعلق ؟ایک ایم این اے نے اچھا سوال کیا کہ انہیں بیچنے کا کیا فائدہ۔اگر کچھ اور ڈسٹری بیوشن کمپنیاں مقابلے پر ہوں تو پھر نج کاری کا فائدہ ہے۔ ا گر انہوں نے حکومت سے خرید کر اسے چلانا ہے اور مقابلے پر کوئی نہیں ہوگا تو پھر یہ پرائیویٹ کاروباری لوگوں کی زندگیاں حرام کر دیں گے کیونکہ ان کی اجارہ داری ہوجائے گی۔ کیوں اپنے اوپر ایک اور کراچی الیکٹرک جیسا عذاب مسلط کر رہے ہیں۔کوئی جواب نہیں تھا۔۔سوال یہ ہے کہ جو قومی اداروں کو بیچنے کا فیصلہ کرتے ہیں وہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان فیصلوں کے کیا اثرات ہوں گے؟کوئی بولا کہ ریگولیٹری ادارے مضبوط ہونے چاہئیں جو ان پرائیویٹ اداروں کو ٹھیک رکھیں۔کسی نے نہ پوچھا کون کرے گا۔سب کاروبار جنہیں ریگولیٹرز نے درست کرنا ہے‘ وہ حکمرانوں کی ذاتی ملکیت ہیں۔ یہ حکمران ہی ان ریگولیٹری عہدوں پر بندے لگاتے ہیں۔ کس میں جرأت ہے کہ وہ ایل پی جی، سیمنٹ، پاور پلانٹ، دودھ دہی، انڈے، مرغی، شوگر، جیسے کارٹیلز کے خلاف کارروائی کرے کیونکہ ان کے مالک وہی ہیں جو اس ملک کے مالک ہیں۔ حکمران ہی کارٹیل بن جائیں تو پھر آپ کیا کر سکتے ہیں؟
دوسری طرف مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے انکشاف کیا کہ انہوں نے جن کارٹیلز پر جرمانے کیے‘ ان سب نے جا کر عدالتوں سے سٹے لے رکھے ہیں۔ایک روپیہ بھی جرمانہ وصول نہیں ہوا۔ برسوں سے سٹے پر کام چل رہا ہے۔ یہاں اب کیا کرے گا ریگولیٹر؟
وہاں سے مایوس ہوکر اٹھنا پڑا کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔کوئی تیاری کر کے اجلاس میں نہیں جاتا۔ جو انہیں ایک بیوروکریٹ بتا دیتا ہے‘ وہ بے چارے وہ سن کر اور الاوئنس وصول کر کے اٹھ جاتے ہیں۔پبلک اکائونٹس کمیٹی کا رخ کیا جہاں پیپلز پارٹی دور کے آڈٹ پیروں کا احتساب ہورہا تھا۔ انصاف کی کرسی پر جناب خورشید شاہ براجمان تھے۔ ساتھ میں جناب محمود خان اچکزئی۔۔ اور دیگر۔ نئے آڈیٹر جنرل اسد امین رانا سے بات نہیں ہوپارہی تھی۔ ہر بات پر اٹک جاتے۔ خاموشی میں ہی انہوں نے عافیت جانی۔ 
نوید قمر جوخود پٹرولیم منسٹر تھے وہ بھی وہاں موجود تھے۔ آڈٹ پیرے آتے گئے اور سب کچھ سیٹل ہوتا گیا۔کسی ممبر نے آواز تک بلند نہ کی کہ جناب اس طرح اندھا دھند انصاف نہ کریں۔ سب کچھ ہنسی مذاق میں طے ہو رہا تھا۔ کوئی اجلاس میں فون سننے میں مصروف تھا تو کوئی آپس میں گپیں ہانکنے میں۔ خورشید شاہ کا انصاف سب کو نظر آرہا تھا۔ سب خورشید شاہ اور نوید قمر کی محبت میں خاموش رہے۔ آخر جب خاموشی کاٹنے لگی تو آڈیٹر جنرل رانا اسد نے ہلکا سا احتجاج کیا کہ جناب اس طرح تو نہ کریں۔ اعتراضات بہت اہم ہیں۔ خورشید شاہ نے سنی ان سنی کر دی اور چند لمحوں بعد رانا اسد امین کو یاد دلایا کہ فلاں وقت جو چیزیں ہو رہی تھیں اس وقت وہ وزارت خزانہ میں ریٹائرمنٹ کے بعد اسحاق ڈار سے کنٹریکٹ لے کر ملازمت کر رہے تھے۔ اس کے بعد رانا اسد امین کو دوبارہ نہیں سنا گیا اور پھر سب کھل کر کھیلے۔ سب کچھ سیٹل ہو گیا۔جس نے جو کچھ کھایا پیا‘اس کا کوئی حساب نہ ہوا۔
تحریک انصاف کے دو ارکان اس کمیٹی کے ممبر ہیں۔ دونوں کے خیال میں یہ بیکار فورم ہے لہٰذا وہ ان اجلاسوں میں تشریف نہیں لاتے۔ یوں پیپلز پارٹی اور نواز لیگ نے پہلے حکومتوں میں بیٹھ کر مال پر ہاتھ صاف کیا اور اب اپنے خلاف بننے والے آڈٹ پیروں کو صاف کر رہے تھے۔پیپلز پارٹی کے دور ِحکومت میں ہونے والی کرپشن کے آڈٹ پیرے سیٹل کرنے کے لیے ملزم ہی جج بنے بیٹھے تھے!
ہم صحافی سب دیکھتے رہے، سب سنتے رہے اور سر بھی دھنتے رہے۔ 
واقعی کسی نے درست فرمایا تھا‘ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے بلکہ انصاف ہوتے نظر بھی آنا چاہیے اور واقعی ہم سب کو انصاف ہوتا نظرآرہا تھا! !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved