تحریر : ڈاکٹر اکرام الحق تاریخ اشاعت     02-10-2015

مالیاتی انتظامات کا فقدان

ٹیکسیشن کو کسی بھی ملک کی سماجی اور معاشی پالیسیوں کو ڈھالنے اور اُن پر اثر انداز ہونے والا ایک طاقتور عامل خیال کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں یہ واجب توجہ سے محروم ہے۔ ایک حقیقی ٹیکس پالیسی کا مقصد ریاست کے نظم ونسق اورترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا اور نجی شعبے سے وسائل لے کر عوامی شعبہ جات پر خرچ کرناہوتا ہے۔ اس طرح سماجی جمہوریت میں ٹیکسیشن ہی وہ فیکٹر ہے جو معاشی انصاف کو یقینی بناتے ہوئے سماجی ہمواری ممکن بناتا ہے کیونکہ اس کی مدد سے ہی دولت کی تقسیم، معاشرے کے کمزور طبقہ، جیسا کہ بے سہارا خواتین ، یتیم بچے ، غریب اور مستحق ، خصوصی افراد اور جبر کا شکار اقلیتی برادری کے افراد کی امداد ممکن ہوپاتی ہے اور ترقیاتی منصوبوں کے لیے وسائل فراہم ہوتے ہیں۔ تاہم ہماری ٹیکس پالیسی میں یہ تمام عوامل ناپید ہیں۔ اس کے علاوہ مالیاتی وسائل پر مرکزیت کا خاتمہ بھی ممکن نہیں ہوا ہے چنانچہ صوبوں کے پاس اتنی رقم نہیں ہوتی کہ وہ عام شہری کو سہولیات فراہم کرسکیں۔ اس صورت میں ہماری جمہوریت صوبائی خود مختاری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔ 
اس وقت پاکستان بھاری قرضوں تلے جکڑا ہوا ہے۔ بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ترقیاتی منصوبے بنانے اور عوام کو صحت، تعلیم اور ہائوسنگ کی سہولیات فراہم کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ موثر مالیاتی انتظام اور شفاف احتساب کے بغیر پاکستان اپنے مسائل پر قابو نہیں پاسکتا۔ وفاقی حکومت کودستیاب وسائل میںزیادہ حصہ درکارہوتا ہے،چنانچہ اس ٹیکس کے نرخ کم کرتے ہوئے اس کے دائرے کوپھیلانے کی ضرورت ہے۔ ایک مرتبہ پھر گڈ گورننس سے دستیاب مالیاتی حجم میں اضافہ کرلیا جائے توپھر حکومت عوام کوپینے کا صاف پانی، صحت، تعلیم ، ٹرانسپورٹ اور ہائوسنگ کی سہولیات فراہم کرسکتی ہے۔ اس صورت میں عوام کے اندر بھی تحریک پیدا ہوگی کہ وہ ٹیکس دیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کا حتمی فائدہ اُنہیں ہی ہوگا۔ 
چنانچہ ضروری ہے کہ حکومت وسائل کو طاقتور حلقوںسے لے کر عام شہریوں پر خرچ کرے۔ وسائل کی اس تحریک کے لیے ٹیکسیشن ہی واحد فعال فیکٹر ہے ۔ دوسری طرف یہ بھی ضروری ہے کہ ریاستی اداروں کے ہاتھوں وسائل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے ۔ انفراسٹرکچر، چھوٹی اور میڈیم سائز فرموں اور صنعتی یونٹس کے علاوہ زرعی شعبے پر بھی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ غریب افراد کی مدد کے لیے نجی اور سرکاری شعبے کے تعاون کے ذریعے وسائل کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ اس سے معاشی پیدا وار بڑھانے اور عوام کو وسائل پیدا وار میں اسٹیک ہولڈر بنانے کا موقع پیدا ہوگا۔ اس وقت تک وسائل پر صرف اشرافیہ کی اجارہ داری ہے، جس کو توڑے بغیر ریاست کے قیام کے مقاصد پورے نہیں ہوسکتے۔ڈبلیوٹی او میں( 2002-08 ء میں) پاکستان کے نمائندے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھتے ہیں۔۔۔''ہمارے ٹیکسز نہ تو تمام افراد، جن کی آمدنی قابل ٹیکس ہے، پر ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کے نرخ کم ہیں۔ چاہے یہ سیلز ٹیکس ہو، کوآپریٹ یا انکم ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی، ہمارے نرخ دنیا میں سب سے اونچے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارا معیاری سیلز ٹیکس 17 فیصد ہے جبکہ بھارت اور سری لنکا میں اس کی شرح 12 فیصد ہے۔ ہمارا کارپوریٹ ٹیکس34 فیصد ہے جبکہ انڈیا میں اس کی شرح 30 فیصد ہے۔ ہماری ہاں اوسط کسٹم ڈیوٹی کے نرخ 20.67 فیصد جبکہ انڈیا میں 11.9 فیصد ہیں۔ مختصر یہ کہ پاکستان کی ٹیکس پالیسی دنیا کی فعال ٹیکس پالیسی کے برعکس ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وفاقی سطح پر ٹیکس پالیسی بنانے والے معیشت کی مجموعی صورت ِحال سے لاعلم ہیں۔ٹیکس نافذ کرتے وقت وہ کوئی تجزیہ کرنے یا جائزہ لینے کی زحمت نہیں کرتے کہ اس پالیسی کا ملکی امپورٹ اور ایکسپورٹ پر کیا اثر ہوگا اور نہ ہی وہ اس کے مجموعی پیدا وار پر نتائج کو دیکھنے کی زحمت کرتے ہیں۔ضروری ہے کہ Competition Commission of Pakistan کے ماہرین سے مشاورت کرلی جائے ‘‘۔
ایف بی آر کا ٹریک ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ یہ چھ ٹریلین روپے ٹیکس حاصل کرنے کے بھی قابل نہیں ہے(اگرچہ پاکستان میں ٹیکس کا حقیقی پوٹینشل آٹھ ٹریلین روپے تک ہے )ان حالات میں وفاقی اور صوبائی ٹیکس کا نظام اسی راہ پر گامزن رہے گا جو اس نے اب اپنائی ہوئی ہے۔ گویا یہ اپنی نااہلی سے بھاری وسائل ضائع کرتا رہے گا اور ملکی معیشت قرضوں کی دلدل میں دھنستی جائے گی۔وفاقی حکومت صوبوںسے تقاضا ہے کہ وہ اپنے وسائل کا حجم بڑھائیں کیونکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اُنہیں زیادہ ٹیکس لگانے کا حق حاصل ہوچکا ہے، لیکن ٹیکس کی موجودہ بوسیدہ مشینری سے کسی بہتری کی توقع عبث ہے۔ 
اس صورت ِحال سے بچنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ وفاقی اور صوبوں کے درمیان سماجی رابطے کا ازسر ِ نوجائزہ لے۔ صوبائی خودمختاری اورنچلی سطح پر انتقال ِ اقتدار اُس وقت تک بے معنی ہیں جب تک ان حکومتوں کے پاس وسائل نہ ہوں۔ یہ بات سیاسی اور سماجی علوم کے ماہرین بارہاکہہ چکے ہیں کہ صوبوں کو زیادہ اختیارات دیے بغیر پاکستان کے مسائل حل نہیںہوں گے۔ آسان لفظوں میں اس کا مطلب یہ کہ صوبے اپنے وسائل خود اکٹھے کریں اور اپنے شہریوں پر خرچ کریں۔ مالیات کی عدم مرکریت اور میونسپل نظم کو سماجی پالیسی سے ہم آہنگ کرکے عالمی قوانین کے تابع کیا جائے تاکہ تمام شہری سماجی سہولیات سے استفادہ کرسکیں۔ درحقیقت وسائل پر مخصوص طبقوں کی اجارہ داری توڑنے کی جتنی ضرورت آج ہے، پہلے کبھی نہ تھی۔ نمائندگی دیے بغیر ٹیکسز عائد کرنا بذات ِخود آئین کی نفی ہے، تو دوسری طرف ٹیکس ادا کیے بغیر عوام پر اپنی نمائندگی مسلط کرنا بھی غیر جمہوری رویہ ہے۔ عالمی سماجی نظام میں معاشی عدم مساوات کو کم سے کم کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سب کا بنک اکائونٹ برابر ہو، بلکہ یہ کہ وسائل سے استفادہ سب کرسکیں۔ اس کے لیے ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ چنانچہ بات گھوم پھر کرپھر ایک جامع اور مربوط ٹیکس پالیسی پر آجائے گی جس کی ہمیں شدید ضرورت ہے۔ 
پاکستان کی صوبائی حکومتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 140A کے تحت مقامی حکومتوں کا نظام وضع کریں۔ اس نظام کی بنیاد سماجی پالیسی پر ہو تاکہ شہریوں کے دکھوں کا مداواہوسکے۔ فی الحال ایسی کسی پالیسی کا نفاذ دکھائی نہیں دیتا۔ حکمران طبقہ عوام کو اختیارات دینے کے لیے تیار نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اُنہیںوسائل سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ تاہم اگر مقامی حکومتوں کو وسائل مہیا نہیں کیے جائیں گے تو اُنہیں قائم کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ 140A کے تحت مالی وسائل کی مرکزیت کو ختم کرکے مقامی حکومتوں کو وسائل فراہم کیے جائیں تاکہ اُنہیں ذمہ داری کا احساس ہوسکے۔ بدقسمتی سے فی الحال پاکستان میں اس پیش رفت کیلئے سیاسی عزم ناپید ہے ۔ حکمران طبقہ نہ تو ٹیکسیشن کا نظام درست کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی وسائل کی نچلی سطح تک منتقلی۔ فی الحال حکومت کا کام بھاری قرضے لے کر مہنگے منصوبے بنانا اور اُن کی تشہیر بازی کرنا ہے۔ اس سے پاکستان کے مسائل حل نہیںہوںگے بلکہ عوام کا جمہوریت پر یقین بھی کمزور ہوتا جائے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved