آج کل ہمارے ہاں بحث کے لیے سب سے گرما گرم موضوع آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہے جس پر منفی اور مثبت دونوں طرح کے دلائل دیے جا رہے ہیں۔ یہ ایک نان ایشو ہے اور نان ایشوز ہی گفتگو کے لیے ہمارا مرغوب موضوع ہوتے ہیں۔ ہم نے ایشوز پر کبھی بات نہیں کی۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اگرچہ آرمی چیف توسیع لینے کے حق میں نہیں ہیں‘ لیکن حکومت انہیں دو سال کی توسیع دینے پر غور کر رہی ہے۔
جہاں تک جنرل راحیل شریف کی عوام میں مقبولیت کا تعلق ہے تو اس کی وجہ ان کی کارکردگی اور حکومت کی نااہلی اور بے عملی بھی ہے لیکن صاحب موصوف یقینا مقبول ہیں لیکن اس مقبولیت کو ان کی ذاتی مقبولیت سمجھنا درست نہ ہوگا‘ کیونکہ اس ساری کارگزاری میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ پوری فوج کے اجتماعی جذبے اور عزم بالجزم کی بناء پر ہے۔پھر کسی ایک فرد کے گن گاتے رہنے سے اداروں کی اہمیت اور طاقت پس منظر میں چلی جاتی ہے۔ میرے خیال میں توسیع دینے کا مطلب دوسروں کی حق تلفی اور دل شکنی بھی ہوگا جو لائن میں لگے باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ سنیارٹی کو نظرانداز کرنے کا نتیجہ ذوالفقار علی بھٹو اور نوازشریف دونوں دیکھ چکے ہیں۔ سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض حلقے حالات کی ابتری کی دہائی دے کر‘ اُنہیں ملک کی زمامِ اختیار فوراً سنبھال لینے کے مشورے دیتے رہتے ہیں۔ ایسے مشورے دینے والوں کے نزدیک یہ کوئی نئی بات نہیں ہوگی‘ بلکہ عین ملکی مفاد میں ہوگا اور اس کے لیے مارشل لاء کے نفاذ سمیت مختلف طریقے بھی بتائے جاتے ہیں‘ حالانکہ مارشل لائوں نے ملک کی جو حالت کرکے رکھ دی تھی‘ اس کا زمانہ گواہ ہے‘ اسے دوبارہ دعوت دینا کم عقلی کی انتہا ہے۔
جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو یہ ناکام اور کرپٹ بھی ہو سکتی ہے‘ لیکن ان تمام خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود مسلمہ طور پر یہی نظام بہترین اور قابل عمل طریقِ کار ہے۔ مسلسل اور متعدد مارشل لائوں کی وجہ سے ‘ اگرچہ اس نظام میں ڈینٹ پڑ چکے ہیں‘ لیکن اس کے باوجود جمہوریت ہی ہمارے دکھوں کا مداوا اور مسائل کا حل ہے کہ اس میں خود احتسابی کا ایک نظامِ کار بھی موجود ہے۔بہرحال اس میں پختگی آنے میں وقت لگتا ہے۔ اس میں راتوں رات کسی بڑی تبدیلی یا انقلاب کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اسے استوار ہونے میں مزید کئی دہائیاں بھی لگ سکتی ہیں اور تاریخِ عالم اس کی گواہ بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ جیسے
جمہوری ملک کو بھی پاکستان میں جمہوریت کی بجائے ڈکٹیٹرشپ زیادہ سُوٹ کرتی ہے اور اب تک یہاں جتنے مارشل لا لگے ہیں‘ انہیں نہ صرف امریکہ کی تائید حاصل تھی بلکہ اس کی ایما کے بغیر یہاں ایسی تبدیلی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا؛ چنانچہ موجودہ حالات میں ڈکٹیٹرشپ کا امکان اس لیے بھی کم ہے کیونکہ اپنا آزادانہ اور بھارت کے ضمن میں دلیرانہ مؤقف اختیار کرنے پر امریکہ جنرل راحیل کو کچھ زیادہ پسند بھی نہیں کرتا۔
یہ مفروضہ بھی درست نہیں ہے کہ جنرل صاحب موصوف کی ریٹائرمنٹ کے بعد ضرب عضب اور کراچی ٹائپ آپریشن متاثر ہو سکتے ہیں یا ان میں وہ جوش و خروش نہیں رہے گا۔لیکن یہ تاثر یا مفروضہ درست نہیں‘ کسی کے آنے یا جانے سے فوج کی قوت عمل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ آپریشنوں کا معاملہ کوئی معمولی معاملہ نہیں بلکہ خود ملک اور فوج کی بقا کا سوال بھی ہے‘ اس لیے اس ضمن میں اس طرح کی بدگمانی کی کوئی گنجائش ہے اور نہ ہی اس بناء پر کسی کے ملک کا اقتدار سنبھالنے کا کوئی جواز۔ مزید یہ کہ ملک اب اس طرح کی کارروائی کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔
کرپشن کی سرکوبی کا جو سلسلہ جاری و ساری ہے‘ اگر یہی اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے تو کسی مارشل لاء کی ضرورت ہی نہیں رہے گی جبکہ انتخابی اصلاحات اور انتخابات میں فوج کی نگرانی کے بعد غلط قسم کے سیاسی عناصر ویسے بھی اس چھلنی سے چھنتے جائیں گے؛ حتیٰ کہ نئے آرمی چیف کے لیے بھی اس سلسلے کو ختم یا نرم کرنا ممکن نہیں رہے گا کیونکہ یہ بجائے خود عوام کی بددلی اور مایوسی پر منتج ہوگا۔ اگر اس عمل کے ذریعے ملک کی لوٹی ہوئی دولت بھی واپس آ جائے تو بھی فوجی آمریت کا یہ کوئی جواز نہ ہوگا؛ البتہ اگر اس عمل کے دوران یا اس کے نتیجے میں‘ سیاست دان اس میں مزاحم ہوں اور بات آگے بڑھتی ہوئی نظر نہ آئے تو کسی سوفٹ یعنی نرم تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے جس سے آئین پر بھی کوئی حرف نہ آئے اور فوجی حکومت کا تاثر بھی پیدا نہ ہو‘ اور جو سپریم کورٹ کے تعاون سے برپا کی جا سکتی ہے۔ حتی الامکان اس سے بھی گریز ہی کرنا ہوگا اور جمہوریت جیسی بھی ہے‘ اس کے اندر رہتے ہوئے ہی اسے بہتر اور قابل قبول بنانے کی کوشش ہی مناسب ترین ہوگی۔ امید کی جاتی ہے کہ آئندہ اسمبلیاں نہ صرف عوام کی صحیح نمائندہ ہوں گی بلکہ جمہوریت کی گاڑی بھی اپنی ٹھیک رفتار سے چلنے لگے گی۔
سو‘ اس بحث کو اب ختم ہو جانا چاہیے تاکہ ساری توجہ مستقبل پر مرکوز کی جا سکے کیونکہ اس سے ایک ایسی فضا پیدا ہو رہی ہے‘ بلکہ کی جا رہی ہے جو آمریت کا راستہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ اس میں سیاسی سطح پر اور میڈیا کے جو جو عوامل کار فرما ہیں‘ ان کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت جس طرح سے بھی منتخب ہو کر آئی ہے‘ اسے اپنی میعاد پوری کرنے کا حق حاصل ہے اور اسے یہ موقع ملنا چاہیے جس میں یہ امکان بھی بہرحال موجود ہے کہ یہ خود بھی اپنی اصلاح کے مشکل مرحلے سے کسی طور گزر جائے اور حالات بہتر ہو جائیں۔ بصورت دیگر جمہوریت کے اس سفر میں اب کسی رکاوٹ کی گنجائش اور جواز موجود نہیں ہے۔
آج کا مطلع
اپنی کھینچی ہوئی سرحد سے گزرنے لگا ہوں
دوسری بار اُسی سوچ پہ مرنے لگا ہوں