تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     02-10-2015

منیٰ کا حادثہ اور سیرت کی روشنی

منیٰ کے حادثے نے سارے عالمِ اسلام کو سوگوار کر دیا ہے ۔ جن کے پیارے بھگدڑ میں شہید ہو گئے وہ بہت ہی زیادہ دکھی اور دلفگار ہیں ... ان غم زدہ لوگوں کی زبانوں سے میں نے انتہائی حوصلہ مند جملے بھی سنے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ شہید ہونے والوں پر فخر ہے کہ وہ مکہ کی پاک زمین اور معطر فضاء میں شہید ہوئے ...میں نے ایسے عالی حوصلہ لواحقین کے صبر وثبات میں اضافہ کے لیے اپنے پیارے حضورحضرت محمد کریمﷺ کی پاک سیرت کو دیکھا تو منظریہ سامنے آیا کہ آپ ﷺ مدینہ منورہ سے مکہ تشریف لے جارہے تھے کہ راستے میں ایک حاجی‘ جو اپنی سواری پر سوار تھا‘ احرام باندھے ہوئے تھا اور لبیک کا ترانہ پڑھ رہا تھا ۔ اچانک اپنی سواری کے بدکنے کی وجہ سے وہ زمین پر گرگیا ۔ اس کی گردن ٹوٹی اور وہیں شہید ہو گیا ۔ میرے حضور ﷺ نے اس کے بارے میں صحابہ کو حکم دیا کہ اسے غسل دے کر احرام کی چادروں کا کفن پہنا دو اور یہیں دفن کر دو۔ یہ قیامت کے دن اٹھے گا تو'' لبیک اللھم لبیک ‘‘ پڑھتا ہوا اٹھے گا (بخاری ) قارئین کرام !ہمارے وہ حاجی جو منیٰ میں شہید ہوگئے ‘ وہ حج کا فریضہ سرانجام دے چکے تھے ۔ حضور ﷺ کے فرمان کے مطابق عرفہ میں وقوف یعنی ٹھہرنے کانام حج ہے ۔ شیطان کو کنکریاں مارنا حج کے آخری اور اختتامی اعمال میں سے ہے۔ یوں حجاج کرام حج کرکے گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہوگئے تھے جس طرح پیدا ہونے والا بچہ گناہوں سے صاف ہوتا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کی اس خوشخبری کے پیشِ نظر حجاج کرام اپنے گناہوں سے پاک صاف ہونے کے بعد شہادت پاتے ہیں تو یہ انتہائی بلند مقام ہے۔ وہ قیامت کے دن احرام پہنے ہوئے اللہ کے دربار میں پیش ہوں گے ۔ تلبیہ پڑھتے ہوئے اپنے مولا کریم کے پا س جائیں گے ...وہ حاجی اور زیادہ خوش قسمت ہیں کہ جو وہیں مدفون ہوں گے ۔ جو لواحقین اپنے شہیدحاجیوں کو وہیں دفن کرنے کا فیصلہ کریں گے‘ وہ اپنے شہید حاجیوں پر احسان کریںگے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے میری قبر کھلے گی‘ میں اٹھوں گا‘ بقیع والوں کو اپنے ساتھ لوں گا‘ مکہ کی جانب بڑھوں گا اور وہاں کے لوگ بھی اپنی قبروں سے نکل کر مجھ سے آن ملیں گے ... سبحان اللہ ! وہ حاجی جو مکہ میں دفن ہوں گے‘ ان کے لیے بشارت ہے ۔ 
پورا عالمِ اسلام اور غیر بھی اس بات پر سعودی حکومت کی تعریف کرتے ہیں کہ حج کے انتظامات‘ جو انسانی بس میں بہتر سے بہترین ہو سکتے ہیں ‘حکومت ان کو بروئے کار لاتی ہے اور کوئی کسر نہیں چھوڑتی ۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود انسانی غلطیوں کا احتمال ہوتا ہے ۔ کچھ حاجیوں سے غلطی ہوئی وہ مخالف سمت سے آئے اور یوں ایک حادثہ ہوگیا ۔ سعودی حکومت نے کئی منزلوں پر مشتمل سڑکیں بنا دی ہیں تاکہ کنکریاں آسانی سے ماری جا سکیں ۔ راستے بھی متعین کردیئے ہیں ... اس سب کے باوجود حادثہ ہوگیا اور اپنے اپنے ملکوں میں پہنچنے والے حجاج یہی کہہ رہے تھے کہ سعودی حکومت کے انتظامات بہترین تھے‘ غلطی حاجیوں کی جلد بازی کی وجہ سے ہوئی ۔ جی ہاں !بہتری کی تجاویز دے دیں اور سعودی حکومت ہی کودیں ۔ کسی اور فورم پر یو این وغیرہ میں مطالبات کرنا درست اور مناسب نہیں ۔ حادثہ کہیں بھی ہو سکتا ہے ۔ اور حج کا اجتماع دنیا کا ایسا سب سے بڑا اجتماع ہے جس کی نظیر دنیا میں کہیں بھی نہیں ہے‘ لہٰذا یہاں کوئی حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم اپنے ملک میں فلاں اجتماع بہتر کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ حج جیسے اجتماعِ عظیم کی کہیں مثال ہی نہیں ۔ ہمیں وسعتِ ظرفی سے کام لینا ہو گا بالکل اسی طرح جس طرح صحابہ وسعتِ ظرفی سے کام لیتے تھے ۔ 
احد کے میدان میں فتح کے بعد جب مسلمانوں کی غلطی کی وجہ سے شکست ہونا شروع ہوئی تو ایک بھگدڑ مچ گئی ۔ حضرت حذیفہ بن یمان ؓبتلاتے ہیں کہ جب اگلے محاذ پر لڑنے والے پیچھے کو پلٹے تو میرے والد زد میں آگئے میں نے مسلمانوں سے کہا میرے والدین‘ میرے والد لیکن وہ مسلمان ہی کی تلوار وں سے شہید ہوگئے۔ جنگ کے بعد اللہ کے رسول ﷺ نے حضرت حذیفہ بن یمان ؓ کو خون بہا دیا تو حضرت حذیفہ ؓ نے یہ خون بہا لینے سے معذرت کر لی اور کہا کہ میرے والد مسلمانوں کی غلطی سے شہید ہوگئے‘ میں خون بہا نہیں لوں گا۔ مزید بتلاتے ہیں کہ میں ان مسلمانوں کی مغفرت کے لیے زندگی بھر دعا کرتا رہا جن کے ہاتھوں میرے والد شہید ہوئے ...اللہ اللہ! یہ ہے خوبصورت اور حسین کردار ہمارے حضور ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ کا ...ہمیں بھی یہاں ایسا ہی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ جن حاجیوں سے غلطی ہوئی ان کے لیے دعا کرنی چاہیے اور سعودی عرب کے حکمرانوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے ان کو تجاویز دینا چاہئیں‘ اگر کوئی تجویز دے سکے تو ... میری تجویز یہ ہے کہ حاجیوں کو گروپوں کی شکل میں رمی کروائی جائے ۔ نیز اگر تینوں جمرات کے گرد گھومنے والی ایک ٹرام کا بندوبست ہو سکے کہ جس پر بیٹھے بیٹھے رمی ہو سکے تو دیگر انتظامات کے ساتھ شاید یہ انتظام بھی مفید ثابت ہو۔ میر ی یہ تجویز اگر کوئی وزن رکھتی ہو تو غور فرما لیا جائے ۔ 
حضور ﷺ کی پاکیزہ سیرت کی روشنی میں حجاج کی تربیت بھی انتہائی ضروری ہے ۔عرفہ سے روانگی کے لیے اللہ کے رسولﷺنے خواتین کو ذراپہلے ہی روانہ فرما دیا تاکہ رش اور اژدحام سے بچ جائیں۔ اب ایک حبشی غلام جس کا نام انجشہ تھا‘ وہ اونٹوں کو تیز دوڑانے لگ گیا ۔ حضور ﷺ اپنی سواری اس کے قریب لائے اور فرمایا اے انجش !اونٹوں کوآہستہ چلا‘ شیشوں کومت توڑ (بخاری)یعنی حضور ﷺ نے خواتین کو شیشے قرار دیا ۔ حاجن خواتین کا خیال رکھنے کا حکم دیا ۔ حضرت ا بو قلابہؓ اللہ کے رسول ﷺ کے مندرجہ بالا جملے پر اپنے ساتھیوں کے کہنے لگے کہ اگر تم میں سے کوئی ایسا جملہ بولتا تو تم لوگ اس جملے کا مذاق اڑاتے (مسلم )اب چونکہ حضور ﷺ نے یہ جملہ ارشاد فرمایا ہے لہٰذا مذکورہ جملہ حدیث بن کر عورتوں کو احترام دے گیا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عرب معاشرے میں عورتوں کے احترام کی بات کوئی خاص اہمیت نہ رکھتی تھی ۔ جی ہاں ! یہ احترام دیا تو ہمارے حضور ﷺ نے دیا ... آپ ﷺ نے تو نماز کی جانب دوڑنے سے بھی منع فرمایا ۔ نماز کے دوران اس بندے کی تعریف کی جس کا کندھا نرم ہو یعنی وہ کندھے کو ایک طرف جھکا کر اپنے ساتھی نمازی کو تکلیف نہ دے ... یہ ہے سیرت کی روشنی میں عبادت کہ دوسرے کو تکلیف نہ ہو بلکہ ایثار اور قربانی ہو کہ منیٰ میں قربانی کرنا ایثار ہی کی تو تربیت ہے ... ہم سمجھتے ہیں سیرت کی روشنی میں یہ تربیت ہر ملک کی ذمہ داری ہے لہٰذا یہاں شکوے اور احتجاج نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے اور یہ ہر ملک کی حکومت کا فریضہ ہے کہ جن ملکوں سے حاجی حضرات حج کے لیے روانہ ہوتے ہیں ... حج کے دوران اللہ کے رسولﷺ حاجیوں کو اپنے دائیں ہاتھ مبارک سے اشارہ فرماتے تھے اور زبان پر یہ جملہ تھا: اے لوگو! آرام سے چلو ۔ سکون سے چلو (مسلم) اے کاش ! ہم لوگ بھگدڑ کی بجائے اپنے پیارے رسولﷺ کی نصیحت کو پلے باندھ کر بھگدڑ اور جلد بازی سے بچیں اور سکون ، وقار اور ایثار کو پیش نظر رکھیں ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved