جب ستمبر اور دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو مجھے اپنے نظریاتی اور فکری استاد عنایت اﷲ مرحوم بے حد یاد آنے لگتے ہیں۔ جنگ ستمبر اور دسمبر کے ایک ایک گوشے کو سالہا سال تک اجاگر کرنے میں ان کی کاوشیں کبھی بھلائی نہیں جا سکیں گی۔ انہوں نے جنگ ستمبر کے بعد پا کستان کی نئی نسل کو اپنی پاک فوج کی قربانیوں سے جس طرح آگاہ کئے رکھا اس کا حق کوئی بھی ادا نہیں کر سکتا۔ افسوس کہ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کیا جاتا رہا جو کچھ لوگ میرے ساتھ روا رکھے ہوئے ہیں۔ عنایت اﷲکا قلم اور ضمیر پاک فوج کے خلاف ایک لفظ لکھنا اور سننا گوارہ نہیں کرتا تھا۔ وہی کیفیت میری ہے۔ ٹی وی کی سکر ین پر جب کسی جوان کی شہا دت کی خبر دیکھتا اور سنتا ہوں تو یک دم سن ہوکر رہ جاتا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے‘ جیسے میرا کوئی بہت ہی قریبی عزیز مجھ سے بچھڑ گیا ہے۔میری تحریریں وطن کے محافظوں کے بھیس میں پھیری باز یا متعصب قسم کی سوچ رکھنے والوں کیلئے نہیں بلکہ سچے مجاہدوں کیلئے ہوتی ہیں۔ وطن کے ہر شہید، غازی اور جانباز کیلئے محبت اور عقیدت کا جذبہ دل میں بسائے میں نے مرحوم عنایت اﷲ کی تحریروں سے متاثر ہو کر لکھنا شروع ہوا ۔جنگ عظیم دوئم کو ختم ہوئے70 سال سے زائد عرصہ بیت چکا ہے۔ اس جنگ میں تباہ ہونے والے ممالک کے کھنڈرات پر نئے شہر تعمیر ہو چکے ہیں‘ دنیا بدل چکی ہے‘ لیکن لڑنے والی قوموں نے اس جنگ کو قصہ پارینہ نہیں بننے دیا۔ امریکہ ‘برطانیہ‘ فرانس اور دوسرے ممالک نے نہ جانے کہاںکہاں سے ڈھونڈ کریونٹوں، پلٹنوں اور سیکشنوں کے علا وہ ایک ایک فرد کے کارنامے تلاش کئے اور پھر ان پر
ایسے ناول لکھے اور فلمیں بنائیں کہ دنیا انہیں سیلولائیڈ کے فیتے پر دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس سے وہ جوان‘ جنہوں نے وطن کیلئے بیش قیمت خدمات انجام دیتے ہوئے اپنی جانیں قربان کیں‘ امر ہو کر رہ گئے۔ دوسرا اس سے یہ فائدہ ہوا کہ نئی نسل میں وطن کی محبت کا جذبہ اجاگر ہونے لگا۔بھارت کے ساتھ ہونے والی پاکستان کی جنگوں اور جھڑپوں میں انفرادی شجاعت کے ایسے ایسے مظاہرے ہوئے جنہیں آج بیان کیا جائے تو ناقابل یقین لگیں گے۔ دور نہ جائیں کارگل کی جنگ کے کیپٹن کرنل شیر خان نشان حیدر اور حوالدار لالک جان شہید نشان حیدر کی مثالیں سب کے سامنے ہے ۔ جنگوں کی تاریخ میں کئی بار اپنی پوزیشنوں سے پسپائی ہوتی رہتی ہے۔ اسے آپ شکست سے تشبیہ نہیں دے سکتے بلکہ کئی بار جب دشمن کا حملہ شدید ہو جاتا ہے اور مقابل کا کمانڈر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اپنی موجو دہ پوسٹ پر جمے رہنے سے سوائے نفری اور اسلحہ کے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا‘ تو وہ مصلحت اور جنگی سٹریٹیجی کے تحت واپسی کا حکم دے دیتا ہے۔ اسی طرح 1965ء کی جنگ میں بھی دونوں اطراف سے یہ اقدام ہوتا رہا۔پھلورا پر دشمن کا قبضہ ہو گیا‘ تو دو دن بعد جوابی حملے میں دشمن کے کئی فوجی قید بنا لیے گئے‘ جن میں بھارت کی ٹینک رجمنٹ کا صوبیدار روپ چندر بھی شامل تھا ۔اس سے جب پوچھ گچھ ہوئی تو اس نے جنگی نوعیت کی باتوں کے علا وہ ایک حیرت انگیز واقعہ سناکر سب کو رلا دیا۔
پھلورا سے بھارتی فوج نے جو دیہاتی پکڑے ان میں پینتالیس سال کی عمر کا ایک سائیں اور بدھو سا یوسف عرف یوسا بھی شامل تھا۔ اس کی عمر گائوں کے بڑوں کی خدمت بجا لاتے گزری تھی۔ ٹینک سکواڈرن کے لوگ اس سے بوٹ پالش کراتے اور رات کو اس سے ٹانگیں اور بدن دبواتے۔ روپ چندر کے مطا بق اپنی قید کے دوران ایک دن اس نے گرینیڈ کے بارے میں پوچھا کہ یہ کیا ہے تو ہمارے ایک جوان نے اسے بتایا کہ اس کے اوپر جو رنگ لگا ہوا ہے اگر اسے کھینچ کر پھینک دیا جائے تو بڑی تباہی ہو جاتی ہے‘ اگر اسے ٹینک کے اندر پھینک دیا جائے تو وہ بھی تباہ ہو جائے گا۔اگلے دن پاکستان نے پھلورا واپس لینے کیلئے جوابی حملہ کیا تو روپ چند کا سکواڈرن اس کا مقابلہ کرنے کے بعد شام کو واپس اپنے ہائیڈ آئوٹ میں آ گیا کیونکہ اس وقت سورج غروب ہونے کے بعد ٹینک اندھے ہو چکے تھے۔ بھارتی ٹینک سکواڈرن کے چار ٹینکوں میں ایمو نیشن لوڈ کیا جا رہا تھا۔ ہم نے یوسا کو ادھر ادھر دیکھا لیکن وہ کہیں دکھائی نہیں دے
رہا تھا۔ اچانک کسی نے دیکھا کہ وہ میرے ٹینک پر چڑھا ہوا تھا۔ اس وقت وہ ٹینک اوپر سے کھلا ہوا تھا کیونکہ اس میں ابھی ابھی جنگ میں استعمال ہونے والا ہر قسم کا ایمو نیشن لادا گیا تھا‘ جس میں بڑی توپ کے گولے،مشین گنوں سمیت سٹین گنوں کی گولیوں کے باکس اور گرینیڈ تھے۔ اس کے علا وہ ان ٹینکوں کے خالی ہونے والے ڈرموں میںتیل بھی بھرا جا چکا تھا۔ جب یوسا کو ٹینک پر چڑھے ہوئے دیکھا تو دفعدار روپ چندر کے سکواڈرن کے جوانوں نے شور مچادیا کہ اسے اتارو یہ کیا کر رہا ہے۔ اس وقت کسی کے ذہن میں یوسا کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں تھی بلکہ صرف اسے نیچے اتارنے کیلئے شور مچا یا جا رہا تھا کہ یہ سائیں اور بدھوسا آدمی ہے‘ کہیں کوئی غلطی نہ کر دے۔ روپ چندر کہتاہے کہ اس نے بھی یوسا کو نیچے اترنے کو کہا لیکن ایسا لگتا تھا کہ اسے کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا‘ جیسے وہ دنیا جہاں سے بے خبر ہو چکا ہو۔۔۔۔اچانک ایک حوالدار نے چیخ کر کہا کہ ہائے بھگوان اس کے ہاتھ میں تو گرینیڈ ہے۔ اب ہم سب دیکھ رہے تھے کہ اس نے دائیں ہاتھ میں پکڑے ہوئے گرینیڈ کی پن کو بائیں ہاتھ سے کھولا ۔ پورا سکواڈرن بوکھلا گیا۔ روپ چندر کے مطا بق اس نے اپنے ساتھ کھڑے جوان کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی سٹین گن لے کر یوسا پر فائر کھول دیا۔ گولیوں کی بوچھاڑ ہوتے ہی یوسف عرف یوسا ٹینک پر ہی ہرا ہو گیا لیکن
اس وقت ہم سب ٹینک سے دور بھاگنا شروع ہو گئے جب دیکھا کہ یوسا دائیں بائیں گرنے کی بجائے نہ جانے کس طرح ٹینک کے اندر جاگرا اور گرتے ہوئے دائیں ہاتھ سے گرینیڈ کی پن کھینچ کر اپنے ساتھ ہی ٹینک کے اندر لے گیا۔ہم آج تک حیران ہیں کہ سٹین گن کا پورا برسٹ اس کے جسم کو چھلنی کر چکا تھا‘ اس کے با وجود اسے ہینڈ گرینیڈ کی پوری تکنیک اور پھر اسے تیل اور ایمونیشن سے بھرے ہوئے ٹینک کے اندر پھینکنا کیسے یاد رہ گیا۔گرینیڈ کے پھٹتے ہی ایسے لگا جیسے ایک ہزار پونڈ کا بم دھماکہ ہوا ہے۔ گرینیڈکے پھٹتے ہی ٹینک کے پرخچے تواڑنے ہی تھے‘ ساتھ ہی بھارت کے چار جوان ہلاک اور سات زخمی بھی ہو گئے اور جیسے ہی دھماکے سے ٹینک سے نکلنے والے شعلے چارون جانب لپکے تو تیل کے بیرل بھی اس کی زد میں آ گئے اور پٹرول کے بیرل دھڑا دھڑ قیامت ڈھانے لگے۔
کیا کسی نے آج تک جنگ ستمبر اور یومِ دفاع کی منا سبت سے بھارت کے ایک ٹینک اور چار جوانوں کو ہلاک اور سات کو شدید زخمی کرنے والے سائیں اور بدھو یوسف عرف یوسا کو یاد کیا ؟کیا اس سے یہ سچائی سامنے نہیں آتی کہ جنگیں فوج اور قوم مل کر لڑتی ہیں؟وطن سے محبت کا جذبہ پڑھے لکھے اور مہذ ب کہلانے والے جوانوں میں ہی نہیں ہوتا بلکہ یوسا جیسے سائیں اور بدھو میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک رہ جاتا ہے کہ سیالکوٹ کا یوسف عرف یوسا شہید بھی وطن کا سجیلا جوان تھا۔