وزیراعظم کی جنرل اسمبلی میں تقریر کو اگر کھنگھورا تقریر کا نام دے دیا جائے تو کچھ ایسا غلط نہ ہو گا کیونکہ اس میں تقریر کم تھی اور کھنگھورے زیادہ ۔ آپ کم و پیش ہر تیسرے جملے کے بعد ایک کھنگھورا ٹھوک دیتے تھے ۔ اس کی وجہ ہماری سمجھ میں تو یہی آتی ہے کہ وہ کھانے میں کوئی ایسی چیز کھا کر آئے تھے جس نے ان کے گلے کو اس حد تک متاثر کیا کہ وہ کھنگھورا تقریر ہو کر ہی رہ گئی۔
غالباً عبدالحمید عدم کا شعر ہے ؎
میکدے کا میکدہ بے ہوش ہے
ساتھیا کچھ بے حسابی ہوگئی
یعنی یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کھانے میں حسبِ معمول کچھ بے حسابی ہو گئی ہو ورنہ ایک بین الاقوامی فورم پر ایک اس طرح کی کھنگھوروں بھری تقریر کرنا آداب محفل کے خلاف نہ بھی ہو تو ایک مضحکہ خیز صورتِ حال ضرور پیدا کر دیتی ہے اور اگر سامعین نے اسے محسوس نہ بھی کیا ہو تو ان کے اہل وطن کے لیے یہ ضرور باعثِ پریشانی تھی۔
کچھ عرصہ پہلے مجھے کھانسی کی شکایت ہوئی تو میری گفتگو میں بھی کھنگھوروں کا تناسب تشویشناک حد تک بڑھ گیا تھا۔ اِدھر ہماری دوست کشور ناہید کئی روز سے کھانسی کے نرغے میں ہیں تو پوری قوم سے ان کی جلد صحتیابی کی اپیل ہے کہ ان کے قومی اثاثہ ہونے سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بہر حال میں کھانسی میں مبتلا ہوا تو یہ شعر کہا تھا ؎
چارپائی پہ یوں نہ بیٹھا کھانس
اُٹھ کے بوڑھی سی کوئی مرغی پھانس
کشور کو تو اس طرح کا مشورہ اس لیے بھی نہیں دیا جا سکتا کہ وہ بوڑھی ہیں ہی نہیں بلکہ ان کی جو ا نمردی تو ایک عالم میں مشہور ہے۔
ایسی کھانسی سے کئی مفید کام بھی لیے جا سکتے ہیں اور یہاں لوگ لیتے بھی ہیں کہ اگر کہیں سے کوئی کام نکلتا ہو تو دیر نہیں کرنی چاہیے۔ مثلاً پنجابی زبان کی ایک بولی ہے ؎
کھنگھ کے نہ لنگھ مُنڈیا
میری سس وہماں دی ماری
بلکہ اپنے یا کسی اور کے کھانسی میں مبتلا ہونے کی تمنا بھی کی جا سکتی ہے ۔ میرا ہی ایک شعر ہے ؎
رات دِنے اسیں کھٹا کھاہدا
فیر وی سانوں کھنگھ نہ لگیوں
شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں کھانسی کے شربت کی کھپت سب سے زیادہ اور روز افزوں ہے ۔ اور جہاں تک کھنگھورے کا تعلق ہے جسے کھانسی کا چھوٹا بھائی بھی کہہ سکتے ہیں تو اس کے اپنے فوائد اور مختلف استعمالات ہیں جن سے عموماً کام بھی لیا جاتا ہے ۔ مثلاً ایک نوجوان اپنے کتے کے ہمراہ گاڑی پر کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں اشارہ بند ہوا۔ اس نے گاڑی روکی تو اسی لمحے ایک حسینہ نے بھی برابر میں آکر اپنی گاڑی روکی جس کے ساتھ اس کا اپنا کتا تھا ۔ نوجوان نے لڑکی کی طرف دیکھ کر کھنگھورا مارا تو وہ غصے سے بولی، کیا بات ہے ؟ جس پر نوجوان بولا: ''وہ جی ، درصل میرا کتا آپ کے کتے کا فون نمبر معلوم کرنا چاہتا ہے ‘‘۔
بڑھاپے میں کھانسی ویسے بھی زیادہ ہی نزول کرتی ہے جس پر گھر والے تنگ آ کر بڑے میاں کی چارپائی بیٹھک میں منتقل کر دیتے ہیں کہ وہ جتنا چاہیں کھانستے کھنکارتے رہیں جبکہ کھانسنا ویسے بھی بزرگ لوگوں کا بنیادی حق ہے ۔ کسی ستم ظریف نے ایک اچھے بھلے شعر کی پیروڈی کچھ اس طرح سے کی ہے ؎
ہائے وہ کیفِ انتظار کہ جب
کھانستے کھانستے سحر ہو جائے
کھانسی نہ صرف پھانسی کا ہم قافیہ ہے بلکہ کھانسی کی شدت میں بعض اوقات واقعی ایسا لگتا ہے کہ آپ پھانسی لے رہے ہوں جبکہ اس کی ابتدائی علامات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کا گلا بیٹھ جاتا ہے اور آپ اشاروں میں بات کرنے لگتے ہیں جبکہ اس کے اپنے فوائد ہیں ۔ مثلاً ایک آدمی کا گلا بیٹھ گیا تو وہ ہسپتال گیا ۔وہاں جا کر معلوم ہوا کہ متعلقہ ڈاکٹر شاید گھر گئے ہیں جو ہسپتال کے قریب تھا۔ چنانچہ مریض نے جا اس کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے آواز آئی کون ہے ؟ جس پر وہ بیٹھی ہوئی آواز میں بولا،''ڈاکٹر صاحب ہیں‘‘؟'' نہیں ہیں ، آجائو!‘‘ اندر سے آواز آئی۔
وزیراعظم کے خطاب کی ایک خصوصیت بلکہ خوبی یہ بھی تھی کہ تقریر کرتے وقت ان کی نظر مسلسل اُس کاغذ پر رہی جس پر سے وہ تقریر پڑھ رہے تھے حالانکہ تقریر کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ آپ گاہے ایک نظر سامعین پر بھی ڈالتے رہیں جس سے ایک تو وہ سمجھیں کہ اُنہیں اعتماد میں لیا جا رہا ہے اور دوسرے مقرر بھی اندازہ لگاتا رہے کہ اس کی تقریر لوگ دلچسپی سے سن رہے ہیں یا بور ہی ہو رہے ہیں۔ بیشک آدمی لکھی ہوئی تقریر ہی پڑھ رہا ہو لیکن اگر اس کی تھوڑی بہت ریہرسل کی گئی ہو تو مقرر اس میں اچھے وقفے دے سکتا ہے کہ سامعین کی طرف دیکھتا بھی جائے ،تاہم ایسا لگتا ہے کہ سامعین ان کے کھنگھوروں ہی سے اس قدر لطف اندوز ہوئے ہوں کہ مقرر کا اُن کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھنا غیر ضروری ہو گیا ہو۔ کم از کم ہم نے تقریر سنتے وقت اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔
آج کا مقطع
شور ہے اس گھر کے آنگن میں ظفرؔ، کچھ روز اور
گنبدِ دل کو کسی دن بے صدا کر جائوں گا