تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     03-10-2015

دل ٹوٹ جائیں گے!

شادؔ عارفی نے کہا تھا ؎ 
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو 
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں! 
وطن کا جو حال ہے سو ہے، یہ شعر کراچی پر بہت زیادہ منطبق رہا ہے۔ اور تماش بین بھی ایسے کہ بجائے خود تماشے سے کم نہیں۔ 
جب ہم نے اشعار کی مدد سے کراچی کو بیان کرنے کا ڈول ڈال ہی دیا ہے تو منفرد لہجے کے حامل عبیداللہ علیمؔ کے دو شعر ملاحظہ فرمائیے ؎ 
خواب و خواب ہوئی ہیں حقیقتیں کیسی؟ 
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی؟ 
ہوا کے دوش پہ رکّھے ہوئے چراغ ہیں ہم 
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی؟ 
کراچی کے مکینوں کا بھی کچھ ایسا ہی حال رہا ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ کیسی کیسی دل نشین و دل نواز حقیقتیں اب خیال و خواب کا بھی حصہ نہیں رہیں۔ اس شہر کی بگڑی ہوئی فضا نے کئی زندگیوں کے چراغ یُوں بجھادیئے کہ تاریکیوں نے بڑھ کر داد دی! 
بسا اوقات شہر کی حالت تقریباً وہی ہوگئی جو علامہ سیمابؔ اکبر آبادی نے زیر نظر شعر میں بیان کی ہے ؎ 
حیرت سے تک رہا ہے جہانِ وفا مجھے 
تو نے بنادیا ہے محبت میں کیا مجھے! 
رواں سال کے اوائل میں مملکتِ پاک کے اہل حل و عقد نے کراچی کو اُس کی اصل جَون میں لوٹانے کا فیصلہ کیا اور اِس فیصلے پر سختی سے عمل بھی کیا جانے لگا۔ ویسے تو خیر اب اہل کراچی کے لیے کچھ بھی عجیب نہیں رہا مگر پھر بھی شہر کو بہتر بنانے کے اقدامات کو خاصی خوشگوار حیرت کے ساتھ دیکھا گیا! معاملہ کچھ ایسا ہی تو تھا جیسے ببول کے پیڑ کی ٹہنیوں پر گلاب اُگ آئیں! ابتداء میں تو کراچی کے مکین یہی سمجھے کہ شاید یہ تفنّنِ طبع کی کوئی شکل ہے! مگر جب شہر کا سکون اور امن غارت کرنے والوں کو ٹھکانے لگانے کے عمل نے زور پکڑا تو سو بستیوں کی ایک بستی قرار پانے والے شہر کے مکین چونکے اور خوشی سے چیخ پڑے! لبوں پر حرفِ تشکر تھا۔ بقول راجہ مہدی علی خاں ؎ 
آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے 
دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا، مل گئی منزل مجھے 
جن کے ہاتھوں کراچی کے لوگ زندگی سے عاجز اور اور اپنے ہی وجود سے بیزار ہوچلے تھے جب اُن کی شامت آئی تو ہر طرف شادمانی کے رنگ بکھر گئے۔ اہل شہر کی ایک ہی مُراد تھی ... یہ کہ امن قائم ہو، دل و جاں کے لیے کسی نوع کا دھڑکا رہے نہ خدشہ۔ کوئی خوف رہے نہ ملال۔ زندگی نے کراچی کو ایک بار گلے لگایا تو اس کے مکین بھی پھر سے جی اُٹھے۔ برہنہ بے یقینی کا تن یقین نے ڈھانپ دیا۔ بیزاری ختم ہوئی، آنکھوں سے دل کشی و دل نوازی جھلکنے لگی۔ آن کی آن میں شہر کی تمام رونقیں لَوٹ آئیں۔ گویا ؎
یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا 
کہ جنگل کا جنگل ہرا ہو گیا 
جس فضا میں گولیوں کی تڑتڑ گونجا کرتی تھی اُسی میں قہقہے سماگئے۔ مایوسی کی منڈی اُتری اور امیدوں کی گرم بازاری کا جلوہ عام ہوا۔ جب یہ سب کچھ ہوا تو شہر متحرک ہوگیا اور معیشت و معاشرت میں اپنا کردار ادا کرنے کا سوچنے لگا۔ مگر ابھی شہر میں تحرّک شروع ہی ہوا تھا کہ پھر پژمردگی کے سائے منڈلانے لگے۔ جرائم کا باب بند ہوتے ہوتے پھر کھلتا دکھائی دے رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والوں کی بلا امتیاز کارروائیوں کے خوف سے جو کونوں کُھدروں میں دبک گئے تھے وہ پھر سینہ تان کر منظر عام پر آنے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 
شہرِ قائد کے لوگ پھر تشویش اور خدشات میں مبتلا دکھائی دینے لگے ہیں۔ انہیں یہ خوف دامن گیر رہنے لگا ہے کہ امن کا سُورج پھر نہ ڈوب جائے۔ ایسا ہوا تو وہی کیفیت جنم لے گی جو شدید گرمی کے ذرا سی دیر کو بادلوں کے برسنے سے پیدا ہوتی ہے یعنی حبس بڑھ جاتا ہے۔ زمین کہتی ہے بارش ہو تو بھرپور ہو۔ اسی طور جرائم پیشہ عناصر کو ختم کرنے اور جرم پسندی کا چلن جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بھرپور اقدامات کا تسلسل لازم ہے۔ قانون نافذ کرنے والی مشینری سے کراچی کے باشندوں نے بہت سی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ اس شہر کے لوگوں کا امتحان تو بہت لیا جاچکا۔ اب ان کی آزمائش ہے جو بگڑے ہوئے حالات کو درست کرنے کی تربیت پاتے ہیں اور عوام کو پرسکون زندگی بسر کرنے کا موقع فراہم کرنے کے مینڈیٹ کے ساتھ وردیاں زیبِ تن کرتے ہیں۔ انہیں صرف ڈلیور نہیں کرنا، مکمل ڈلیور کرنا ہے تاکہ خرابی کے پنپنے کا امکان بھی جڑ سے مٹ جائے۔ اگر اس معاملے میں انہوں نے تساہل کی روش اپنائی تو پرنالہ پھر وہیں بہنے لگے گا اور لوگ ایک بار پھر قنوطیت کے گڑھے میں جا گریں گے۔ ایک اور شعر یاد آرہا ہے جو ہے تو فلمی مگر کراچی کی صورتِ حال پر بخوبی منطبق ہوتا ہے ؎ 
نہ جھٹکو زلف سے پانی، یہ موتی پُھوٹ جائیں گے 
تمہارا کچھ نہ بگڑے گا مگر دل ٹوٹ جائیں گے 
جو کراچی کو کراچی کے ہر ناپسندیدہ فرد کو تیر کی طرح سیدھا رکھنے کا ہنر جانتے ہیں ان سے بس اتنی گزارش اور فرمائش ہے کہ اپنا کام جاری رکھیں ورنہ لاکھوں، بلکہ کروڑوں دل ٹوٹ جائیں گے! 
کسی بھی شعبے میں فتح پانے سے زیادہ مشکل مرحلہ ہوتا ہے اسے برقرار رکھنے کا۔ یہی حال قانون کو اس کی پوری روح کے ساتھ نافذ کرنے کے معاملے کا بھی ہے۔ یہاں بھی ''آفٹر سیل سروس‘‘ کی غیر معمولی، بلکہ بنیادی اہمیت ہے۔ ریاستی مشینری کے متعلقہ حکام تھوڑے کو بہت اور اتنے لکھے کو کافی سمجھیں۔ اہلِ کراچی کی آنکھوں میں امیدیں شمع کی صورت روشن ہیں۔ یہ شمعیں بجھنی نہیں چاہئیں۔ اور آخر میں یہ مصرع، تبرّک کے طور پر ع
موج بڑھے یا آندھی آئے، دِیا جلائے رکھنا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved