حکومت پنجاب نے غریب بچوں کو اعلیٰ و معیاری تعلیم دلانے کے لئے صوبے میں دانش سکولوں کا جال بچھانے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ حکام کے مطابق ہر سکول امیر بچوں کے تعلیمی اداروں کی طرح اعلیٰ سہولتوں سے آراستہ ہو گا۔ اس میں ایک آرٹ کلب ہو گی۔ کمپیوٹر لیب ہوں گے۔ سائنس کلب ہو گی۔ لائبریری ہو گی۔ ہاسٹل ہو گا۔ کھیل کے میدان ہوں گے اور یہ سہولتیں غریبوں کے بچوں کو فراہم کی جائیں گی۔ یہ سہولتیں کہاں فراہم کی گئیں؟ وہ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔کل14 سکول بنائے گئے ہیں(سرکاری دعووں کے مطابق) جن میں سے سات لڑکوں کے لئے ہیں اور سات لڑکیوں کے لئے۔ یہ سکول ڈیرہ غازی خان‘ حاصل پوراور بہاولنگر میں بنائے گئے۔کچھ دانش سکول رحیم یار خان‘ فاضل پور‘ چشتیاں‘ میانوالی اور منکیرہ میں بنائے گئے۔ ان میں سے کچھ سکول جنوری 2011ء میں تیار ہو گئے تھے۔یہ مثالی دانش سکول جہاں جہاں بنائے گئے‘ ان دیہات اور قصبوں کے نام میں نے لکھ دیئے ہیں۔ اگر مندرجہ بالا قصبوں میں کہیں ایک بھی سکول بیان کردہ معیار کے مطابق چل رہا ہو۔ کلاسیں وقت پر لگتی ہوں۔ برائے نام فیسوں میں ایچی سن کے مقابلے کی تعلیم دی جاتی ہو‘ تو ازراہ کرم مجھے کسی خط کے ذریعے مطلع کر دیں۔ ساتھ یہ بھی عرض کر دوں کہ ایک سکول کے لئے 275ایکڑ تک زمین حاصل کی گئی۔ اتنی زمین کس کے کام آ رہی ہے؟ ایم پی اے حضرات‘ ایم این اے حضرات یا حکمران لیڈر اور کارکن؟ کیونکہ اتنے بڑے رقبے میں بنا ہوا کوئی بھی دانش سکول کہیں پر موجود نہیں اور جو ہمارا سیاسی کلچر ہے‘ اس کے مطابق یقینا ایم پی اے ‘ایم این اے کے تھرڈ کلاس نوجوان (بزرگوں کی بھی پرہیز نہیں) بچوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم دے رہے ہوںگے۔ ایک ماہر تعلیم کا اندازہ پیش خدمت ہے۔ ان کے مطابق جتنی رقوم دانش سکولوں پر خرچ کی گئی ہے اگر وہ پیشہ ورانہ طریقے سے خرچ کی جاتی تو 660پرائمری سکول اپ گریڈ کر کے‘ مڈل سکول بنائے جا سکتے تھے۔ پنجاب حکومت کے مطابق 3ارب روپیہ صرف ایک دانش سکول کے لئے رکھا گیا تھا۔ دانش سکول کے ہر بچے کی تعلیم پر 16ہزار روپیہ ماہانہ خرچ ہونا تھا۔ معیاری تعلیم کے لئے جو اعلیٰ درجے کے دانش سکول بنائے گئے ہیں‘ وہاں طلبا اور طالبات کو بنیادی سہولتیں بھی دستیاب نہیں ہیں۔ 21فیصد بچوں کو حوائج ضروریہ کے لئے ٹائلٹ مہیا نہیں کئے گئے۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان سکولوں میں پڑھانے کے لئے اساتذہ کو اعلیٰ معیار کی تربیت دی جائے گی۔ ایسا بالکل نہیں کیا گیا۔ دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیلاب سے متاثر سکولوں پر 2 ارب روپیہ خرچ کر کے‘ انہیں قابل استعمال بنایا جائے گا۔ لیکن حکومت نے یہ سارے کام این جی اوز پر چھوڑ رکھے ہیں۔ جتنے سیلاب زدہ سکولوں کو این جی اوز نے دوبارہ تعمیر کر دیا ہے‘ ان پر چوہدری نثار علی خان سخت غصے میں ہیں اور وہ این جی اوز کو سزا دینے کے لئے قوانین تیار کر رہے ہیں۔ ان سکولوں میں ریسرچ کا کام تو کیا ہونا ہے؟ سہولتیں بھی دستیاب نہیں۔ آئین کے آرٹیکل 225(A) کے تحت حکومت 5سے 16 سال تک کے بچوں کو مفت تعلیم دینے کی پابند ہے۔ مجھے پورے پاکستان میں مفت تعلیم حاصل کرنے والا کوئی بچہ ڈھونڈ کر دکھا دیں‘ جسے تعلیم دی جا رہی ہو۔میں نے محکمہ تعلیم کے ایک ذمہ دار شخص سے جب پوچھا کہ دانش سکول کے نام سے جو سبز باغ دکھائے گئے تھے‘ ان کا کیا بنا؟ تو اس نے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ''ہمارے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہبازشریف ہیں۔ میری مجال ہے جو میں اس موضوع پر کچھ بھی عرض کروں۔‘‘
اب حکومت ‘نجی تعلیمی اداروں پر توجہ دے رہی ہے۔ ایسے ہی چند سکول ہیں‘ جو بھاری فیسیں لے کر اعلیٰ تعلیم دے رہے ہیں۔ عوامی حکومت کو ان مہنگے سکولوں کی ضرورت نہیں کیونکہ یہاں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اعلیٰ معیار کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ انٹرنیشنل مقابلوں میں حصہ لیتے ہیں۔ یہی زیرعتاب پرائیویٹ سکول‘ بچوں کو سکالرشپ دلا کر‘ بیرونی دنیا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں، جہاں وہ دنیا بھر کے منتخب طالب علموں کے ساتھ مقابلے کے امتحانوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ارباب اقتدار کا موڈ خراب کرنے کے لئے یہ بھی عرض کر دوں کہ سکالرشپ پر گئے ہوئے طلباوطالبات ‘ دنیا بھر کے چنے ہوئے طلباوطالبات سے مقابلہ کر کے‘ اچھی پوزیشن حاصل کرتے ہیں اور ملک و قوم کوبہترین دماغ فراہم کر کے‘ ذہانت اور علم کے قومی سرمائے میں اضافہ کرتے ہیں۔
یوں تو ہمارے ارباب اقتدار بھاگ بھاگ کر یورپ اور امریکہ کا رخ کرتے ہیں اور پاکستان کے نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں 10 گنا فیس دے کر اپنے بچے پڑھاتے ہیں، لیکن پاکستان کے اندر انہیں اچھے سکولوں میں پڑھتے ہوئے بچے اچھے نہیں لگتے۔ ان کے ذہنوں میں تعلیم کا جو اعلیٰ معیار ہے‘ اس کی جو درگت بنائی جا رہی ہے اگر وہ دیکھنا ہو‘ تو لاہور کے تاریخی ایچی سن کالج کا حال دیکھ لیں۔ پہلے یہ کالج‘ اعلیٰ ماہرین تعلیم کے کنٹرول میں ہوتا تھا۔ بہترین افسر اس کا انتظام چلاتے تھے۔ انتہائی پڑھے لکھے اساتذہ‘ بچوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔ جیسے جیسے بیوروکریسی کے اختیارات بڑھتے گئے‘ انہوں نے اس معیاری تعلیمی ادارے پر طاقت آزمائی شروع کر دی۔ برطانیہ کے سابق رکن پارلیمنٹ چوہدری محمد سرور‘ گورنر بن کر آئے‘ تو عہدے کی مناسبت سے ایچی سن کالج ان کی ماتحتی میں آ گیا۔ انہوں نے دیکھا کہ نیم خواندہ طاقتور سیاستدان اپنے نالائق بچوں کو ‘ طاقت کے بل بوتے پر ایچی سن میں داخل کرانے پر بضد ہیں۔ شرافت کے دعویدار ایک طاقتور ترین سیاستدان کو شوق چرایا کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے نواسوں پوتوں کو ایچی سن میں داخل کرائیں۔ ان دنوں وہ عوام کی خدمت کے لئے گلی گلی ووٹ مانگتے پھر رہے ہیں۔ لیکن جو خدمت وہ کر چکے ہیں‘ وہ یہ ہے کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص کو جو کہ ایچی سن کالج کا پرنسپل تھا‘ اس گناہ کی پاداش میں نوکری سے نکال دیا اور خداترسی کرتے ہوئے یہ اجازت دے دی کہ وہ ایچی سن کالج کے وسیع و عریض رقبے میں واقع اپنے دفتر کے اندر بیٹھ سکتا ہے۔ ایچی سن کالج کے بڑے بڑے گرائونڈز اسے چہل قدمی کے لئے دستیاب ہوں گے۔ وہ بڑھاپے میں اپنی صحت کی دیکھ بھال کر سکتا ہے۔ کلاسز میں جانے کا اسے حق نہیں۔ بچوں کو پڑھانے کا اسے اختیار نہیں۔ اس کا حال پاکستانی فلم ''سات لاکھ‘‘ کے ان ورثاکا ہے‘ جنہیں ورثے میں ملی ہوئی چیزوں کا یوں اختیار دیا گیا تھا کہ ''سات لاکھ کے بنگلے‘ جن میں تم رہ سکتے ہو‘ بیچ نہیں سکتے۔ سات لاکھ بنک ڈیپازٹ‘ جس کی تم نگرانی کر سکتے ہو‘ خرچ نہیں کر سکتے۔سات لاکھ کی سرمایہ کاری جس کا تم حساب لے سکتے ہو‘ نفع حاصل نہیں کر سکتے۔‘‘ یہی حال ایچی سن کالج کے عزت دار پرنسپل کا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق وہ اپنے اعلیٰ عہدے کے مطابق ‘ اعلیٰ معیار کے دفتر میں بیٹھ کر ایک قیدی کی ڈائری لکھ رہے ہیں۔
اس کہانی کا سبق یہ ہے کہ اگر کوئی پاکستانی حکومت یہ دعویٰ کر بیٹھے کہ وہ اربوں روپیہ خرچ کر کے‘ تھوڑی فیسوں میں غریبوں کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائے گی‘ تو کسی بدنصیب کو اپنا یہ خواب پورا کرنے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے کہ وہ خوشحال خاندانوں کے بچوں کو اچھی فیسوں پر اعلیٰ تعلیم دلا سکے گا۔ یہاں کسی میں یہ جرأت نہیں ہونی چاہیے۔ حکومت اربوں روپیہ خرچ کر کے‘ جس معیار کی تعلیم دلاتی ہے‘ کسی نجی تعلیمی ادارے کو اس سے بہتر تعلیم دلانے کا حق نہیں۔ اسے حکومت کی طاقت سے ڈرنا چاہیے۔ جہاں کرپشن کی دولت سے مالا مال بیوروکریٹ اور سیاستدانوں کے بچوں کا سوال ہے‘ تو وہ پاکستان کے نجی تعلیمی اداروں کے مقابلے میں 50گنا زیادہ اخراجات کر کے اپنے بچے پڑھا سکتے ہیں۔ لیکن درمیانے درجے کے خاندانوں کے بچوں کو یہ سہولت حاصل کرنے کا حق نہیں۔ انہیں پاکستان میں رہ کر پڑھنا ہے ‘ چھپر سکول میں پڑھنا ہو گا کیونکہ سرکاری تعلیم کا یہی معیار ہے۔ جو خاندان جیب سے مناسب رقم خرچ کر کے‘ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا اور عالمی مقابلوں میں بھیجنا چاہتا ہے‘ اسے پڑھانے والے معیاری سکول بند کر دیئے جائیں گے۔ پڑھنا ہے‘ تو سرکار کے فراہم کردہ حالات کے اندر پڑھنا ہو گا۔ جہاں کلاس روم میں ایک طرف گدھے بندھے ہوں گے اور دوسرے میں ایم پی اے ‘ ایم این اے کے بیل۔ جن کے ماں باپ فیس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں‘ وہ معیاری نجی تعلیمی اداروں میںتعلیم نہیں دلوا سکتے۔ ہمارے کرپشن سے پلے ہوئے افسروں اور سیاستدانوں کے بچے یورپ اور امریکہ میں پڑھیں گے۔ نالائق بھی ہوئے‘ تو ان کے لئے ڈگریاں خرید لی جائیں گی۔ امریکہ میں یہ مال آسانی سے دستیاب ہے۔