پاکستان کا نظریہ علامہ اقبالؒ نے دیا‘ جغرافیہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے۔ قائد اعظمؒ کا قرض ہم نے اتار دیا۔نظریہ جس حد تک محفوظ تھا‘ وہ آج رخصت ہو گیا۔ ہمارے پاس جغرافیہ رہا‘ نہ نظریہ۔ اب ہم دکانداروں اور نفع خوروں کی منڈی کا سودا بن کے رہ گئے ہیں۔ عقل کے بے شمار اندھے‘ جغرافیہ اور نظریہ ڈھونڈتے ہوئے‘ ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ ایک دوسرے کو مارتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنی اپنی ذمہ داریاں فوج کے گلے منڈھ رہے ہیں۔ فوج کے پاس جنگی تربیت تو ہوتی ہے‘ جو کچھ ہم مانگ رہے ہیں وہ فوج نہیں دے سکتی اور یہ ہماری آخری امید ہے‘ جس کے ٹوٹنے کے بعد سارا پاکستان‘ تاجروں کی منڈی بن جائے گا۔ یہی وہ صدمہ ہے جو مجھے علامہ اقبالؒ کے بیٹے جاوید اقبال کی رحلت کی خبر سن کر پہنچا۔ پاکستان‘ میری طرف سے فارغ ہو گیا اور میں پاکستان کی طرف سے۔آج ہم فرزند اقبالؒ کو دفناکے‘ قبر کی مٹی سے اپنے ہاتھ جھاڑ دیں گے۔ خدا حافظ قائد اعظمؒ۔ خدا حافظ علامہ اقبالؒ۔ ہم نے آخری قبر کی مٹی اپنے ہاتھوں سے جھاڑ کے‘ اپنے آپ کو تاجروں کے حوالے کر دیا۔
''راجہ نریندر ناتھ اپنے تخمینہ میں بحیثیت مجموعی خوبیوں کا ذکر کرنے کے بعد میری فطری خامیاں بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ جوانی میں بسااوقات خودسر‘ خود غرض‘ جھگڑنے اور ہاتھا پائی سے گریز نہ کرنے والا‘ ملحدانہ خیالات رکھنے والا‘ شہرت کا متلاشی‘ بدقماش‘ دوستوں اور اخلاق باختہ عورتوں کی صحبت پسند کرنے والا عیش و عشرت کا دلدادہ ہو گا۔ مگر جوں جوں عمر بڑھے گی اور خصوصی طور پر زندگی کے آخری حصہ میں‘ اپنی قوت عزم کے بل بوتے پر‘ بیشتر کمزوریوں پر غالب آ جائے گا اور روح انتہائی بلند روانی اور اخلاقی مقام حاصل کر لے گی۔
میں ذاتی طور پر یقینا اس عظیم الشان تبدیلی کا منتظر ہوں۔ پیغمبروں کے علاوہ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا امتزاج ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق کے بارے میں قرآن مجید میں جس کیچڑ کا حوالہ دیا ہے‘ وہ یہی نیکی اور بدی کی معجون ہے۔ بہرحال فطرت انسانی میں تبدیلیاں عموماً اچانک نہیں آ جایا کرتیں۔ اگرچہ بعض صوفیائے کرام کی زندگیوں میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ مرشد نے ہاتھ پکڑا اور بیڑا پار ہو گیا۔ مگر درحقیقت تبدیلی کے لئے انسانی کوشش کے ساتھ جب تک خدا کی مدد شامل نہ ہو‘ ایسا ہونا ممکن نہیں۔
آج کے ایک عام انسان کی طرح‘ یہ جاننے کے باوجود کہ عقل اور حواس قابل اعتماد ذرائع آگاہی نہیں‘ میں اب تک انہی پر انحصار کرتا چلا آیا ہوں۔ لیکن میری زندگی میں تجربات کی روشنی میں‘ عقل اور حواس کے متعلق غور و فکر کرنے کے بعد بعض ایسے انکشافات بھی ہوئے جن کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ عقل کی محرومی کے بارے میں جو کچھ بھی اہل عشق کہیں گے اسے من و عن قبول کرلینا شاید درست نہ ہو۔ حواس کی بابت ماہرین نفسیات تسلیم کرتے ہیں کہ ''حس‘‘ ہی دراصل وجدان یا عرفان کا سرچشمہ ہے۔ دوسری طرف مسلم فلسفیوں کے نزدیک خصوصی طور پر مولانا رومی کے ہاں عقل کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ''عقل استدلالی‘‘ اور دوسری ''عقل وجدانی‘‘۔ ''عقل استدلالی محض جزوی عقل ہے (اسے جرمن فلسفی کانٹ ''عقل عملی‘‘ کا نام دیتا ہے اور کہتا ہے کہ انسان کو اپنے روزمرہ کے مسائل حل کرنے کے لئے یہی عقل ودیعت کی گئی ہے۔) مگر ''عقل وجدانی‘‘ کلی عقل ہے اور مولانا کے نزدیک ''عقل وجدانی‘‘ دراصل ''عقل استدلالی‘ کی اعلیٰ‘ برتر اور ترقی یافتہ شکل ہے (کانٹ کی رائے میں خدا کی ذات اور کائنات کے بارے میں جاننے کے لئے ''عقل خالص‘‘ کی ضرورت ہے ‘ جس سے انسان محروم ہے۔ پس ''عقل عملی‘‘ کے ذریعے خدا اور کائنات کو جاننا ناممکن ہے۔) لیکن مولانا رومی کی رائے میں ''عشق‘‘ ''عقل‘‘ ہی کی اعلیٰ ‘ برتر اور ترقی یافتہ صورت ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ ہر وہ بات جسے میرا دماغ (عقل) یا میرے حواس خمسہ (مشاہدہ) قبول کریں اور میرا دل (وجدان) قبول نہ کرے‘ جھوٹ ہے۔ حق وہی ہے جسے میرے دماغ اور حواس کے ساتھ میرا دل بھی قبول کرے۔ یعنی تینوں ذرائع علم ایک دوسرے کی تائید یا تصدیق بیک وقت کریں۔ یہی ''عقل وجدانی‘‘ یا ''عقل عرفانی‘‘ کی تعریف ہے۔ یہی نقطہ نظر کسی حد تک فرانسیسی مفکر برگساں اور علامہ اقبالؒ کا ہے۔ میں جس بات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں‘ وہ یہ ہے کہ ہم زندگی میں اکثر فیصلے ''عقل استدلالی‘‘ کے ذریعے کرتے ہیں۔ مگر بعض اوقات ایسے فیصلے بھی ہو جاتے ہیں ‘جن کا استدلالی جواز پیش کرنا ممکن نہیں ہوتا‘ لیکن فیصلے درست ہوتے ہیں۔ کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ ایسے فیصلے دراصل وجدانی یا عرفانی نوعیت کے ہوتے ہیں؟ گویا یہ فیصلے بھی ہم عقل ہی کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ لیکن یقینا یہ عقل ''استدلالی‘‘ نہیں ہوتی بلکہ ''وجدانی‘‘ یا ''عرفانی‘‘ ہوتی ہے۔ پس ''عقل وجدانی‘‘ استعمال کرنے کی صلاحیت ہم میں موجود ہے۔ ضرورت ہے تو وہ ذرائع دریافت کرنے کی جن سے اسے ترقی دینا ممکن ہو۔ اس مرحلے پر کانٹ کا مفروضہ غلط ثابت ہو جاتا ہے کہ چونکہ ہم ''عقل خالص‘‘ سے محروم ہیں اس لئے کائنات اور خدا کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتے۔ کم از کم مولانا رومی (ابن باجہ اور بعض دیگر مسلم فلسفیوں) کے نزدیک ''عقل وجدانی‘‘ کے ذریعہ ایسا عین ممکن ہے۔
مشاہداتی علوم ‘ خصوصی طور پر جدید طبیعات کے تجربات کی روشنی میں ''عقل استدلالی‘‘ بھی اب اس نتیجہ تک پہنچ گئی ہے کہ مادی کائنات کی اصل ''مادی‘‘ نہیں بلکہ اگر مادے کا تجزیہ کیا جائے تو مادے کی خصوصیات غائب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً قدیم فلاسفہ کے ہاں ''روح‘‘ اور ''مادے‘‘ میں امتیاز برقرار رکھا جاتا تھا اور مادے کی دو واضح خصوصیات پر اتفاق تھا۔ اول‘ خلا میں ''جگہ گھیرنا‘‘ اور دوم ''پھیلائو‘‘ کا ہونا۔ لیکن اگر سائنٹیفک طریقوں سے تجزیہ کریں تو مادے کی یہ دنوں قدیم خصوصیتیں عدم وجود میں چلی جاتی ہیں اور جو باقی رہ جاتا ہے تو اسے کسی بھی زبان میں بہتر اصطلاح نہ ہونے کے سبب ہم ''انرجی‘‘ (بجلی کی طرح کی کوئی قوت یا الیکٹرک چارجز) کہہ دیتے ہیں۔ حالانکہ اسے ''انرجی‘‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا( کیونکہ ''انرجی‘‘ کی عام اصطلاح سے کچھ اور مراد ہے۔) پس مادی کائنات جو بظاہر ٹھوس دکھائی دیتی ہے اور کسی تنظیم کے تحت متحرک ہے‘ بباطن کچھ اور ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں کیا یہ کہنا غلط ہو گا کہ مادے کی بنیاد بھی کسی نہ کسی طرح ''روح‘‘ پر قائم ہے؟ عام طور پر دہریے یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ ایک غیر مادی خالق (یا خدا) مادی کائنات کیسے وجود میں لا سکتا ہے؟ لیکن اب تو سائنس نے بھی یہ ثابت کر دیا ہے کہ مادے کی اصل کوئی ''غیرمرئی قوت‘‘ ہے‘ جو روح ہی قرار دی جا سکتی ہے اور یہ کہ ''روح‘‘ اور ''مادے‘‘ کی دوئی غلط سوچ کا نتیجہ ہے۔ کائنات میں موجود ہر ''شے‘‘ کی بنیاد ''روح‘‘ پر رکھی گئی ہے۔ پس اگر ''عقل استدلالی‘‘ یہ کہتی ہے کہ مادی کائنات کی اصل ''مادی‘‘ نہیں تو کم از کم میری ''عقل وجدانی‘‘ کا حتمی فیصلہ یہی ہے کہ حیات و کائنات کا اصل سرچشمہ ''روحانی ‘‘ ہے۔ بظاہر میں جس خاک سے بنا ہوں‘ اس سے چاند ستارے بھی بنے ہیں۔
مولانا رومی ''عقل استدلالی‘‘ کی ایک رذیل قسم ''عقل طاغوتی‘‘ کا ذکر بھی کرتے ہیں جو انسان بدنیتی سے استعمال میں لاتا ہے‘ جب جھوٹ کو سچ ثابت کر کے دکھانا مقصود ہو۔ اقبالؒ اسے ''عقل رحمانی‘‘ کے مقابلے میں ''عقل شیطانی‘‘ کا نام دیتے ہیں۔ آج کے دور میں بعض لوگ عقل کی غالباً یہی قسم ڈپلومیسی‘ سیاست یا وکالت کے پیشے میں استعمال کرتے ہیں۔
عجیب بات ہے‘ اگر ''عقل استدلالی‘‘ کی عینک سے دیکھیں تو خدا کے وجود کی تین معروف دلیلیں (کونی‘ غائی اور وجودی) جو ارسطو نے پیش کر رکھی ہیں اور مسیحی اور اسلامی علم الکلام دونوں میں مقبول ہیں‘ غلط یا بودی نظر آئیں گی۔ لیکن اگر ''عقل وجدانی‘‘ کی عینک سے دیکھیں تو صحیح اور مستحکم معلوم ہوں گی۔ مثلاً خدا علت اولیٰ اس لئے ہے کہ وہ ''ازل‘‘ ہی سے آخری علت ہے اور ''ازل‘‘ سے مراد وقت یا زمان کی ابتدا نہیں بلکہ ''ازلی تسلسل زمان‘‘ ہے۔ اسی طرح ''ابد‘‘ کے معانی خاتمہ نہیں بلکہ کبھی ختم نہ ہونے والا وقتی یا زمانی سلسلہ ہے۔ پھر خدا بطور صناع کائنات و حیات کی گھڑی کو چابی دے کر سو نہیں گیا‘ بلکہ تنظیم جس کے تحت گھڑی کا ہر پرزہ متحرک ہے‘ اس کا خالق یا منتظم بھی وہ خود ہی ہے اور جب چاہے اتفاق‘ حادثے یا معجزے کی شکل میں اس میں مداخلت کرتا رہتا ہے اور ایک مخصوص مرحلے پر اسے ختم بھی کر سکتا ہے۔ اسی طرح انسان اگر اپنے آپ کو ایک غیر کامل شخصیت سمجھتے یا قیاس کرتے ہوئے کسی ذات کامل کا تصور کرتا ہے تو عین ممکن ہے کہ یہ تصور اسی ذات کامل نے اس کے ذہن میں ڈالا ہو۔ ''عقل وجدانی‘‘ کی رہبری میں تو غیب پر ایمان لانا بھی ممکن ہے۔(جاری)