تحریر : مجیب الرحمٰن شامی تاریخ اشاعت     04-10-2015

لاہور کا دنگل

عمران خان صاحب کے جوش و جذبے میں بظاہر تو کوئی کمی محسوس نہیں ہو رہی، وہ وٹامن اے اور ڈی بلکہ بی اور سی سے بھرپور لاہور کے انتخابی اکھاڑے میں اتر چکے ہیں۔ عبدالعلیم خان کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں عمران خان اور چودھری محمد سرور جیسے مہم باز (Compaigners) میسر ہیں۔ چودھری سرور گھر گھر دستک دے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی سرگرم ہیں، پارٹی سیکرٹریٹ کو بھی انہوں نے منظم کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے، بلکہ یہ کہئے کہ کر دیا ہے۔انتظامی امور میں خصوصی شہرت کے مالک فضیل آصف اپنا خون پسینہ ایک کئے ہوئے ہیں ‘تہیہ کیا ہواہے کہ تحریک انصاف کو برطانیہ کی لیبر پارٹی بنا کر دم لیں گے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں بہت کم سیاسی جماعتوں نے اپنے انتظامی ڈھانچے کی طرف توجہ دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی دونوں نے اپنے آپ کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا۔ نتیجتاً فیصلہ سازی کا عمل معتبر نہیں ہو پایا۔ ایک زمانے میں پیپلزپارٹی کے ہاں کارکنوں کی بہت اہمیت تھی اور اس کے جیالے اپنے لیڈروں کو ناکوں چنے چبوانے کی شہرت رکھتے تھے، لیکن معاملہ کسی اداراتی شکل میں ڈھل نہیں پایا، اس لئے جیالاکلچر سسکیاں لینے لگا۔ پرانے جیالے ہانپنے لگے، لیکن نئے بن نہیں پائے۔ پنجاب میں شدید ضُعف محسوس ہو رہا ہے جبکہ سندھ کے دیہی علاقوں میں ابھی تک دم ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کومسیحا سمجھا جا رہا ہے لیکن ان کے بارے میں دو سے زیادہ آرا موجود ہیں۔ انہیں اور ان کے حواریوں کو بہت کچھ کر کے دکھانا پڑے گا کہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
مسلم لیگ (ن) کا مرکزی سیکرٹریٹ قائم ہے لیکن اس کے مرکزی اور صوبائی عہدیدار شاید پورے نہیں ہو پائے یا پورے نظر نہیں آ رہے۔ جماعتی سطح پر سوچنے کا اہتمام کم ہے کام بہت ہو رہا ہے ترتیب البتہ توجہ طلب ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت دوسرے صوبوں (خصوصاً سندھ) سے اپنا موازنہ کر کے توانائی حاصل کرتی ہے، یہاں کرپشن اور بدنظمی کے بازار گرم نہیں ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ سرکاری افسروں پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ ہے یا یہ کہئے کہ توقعات زیادہ ہیں۔ ہاتھوں اور پائوں سے اگر دماغ کا کام بھی لینا شروع کر دیا جائے تو پھر دونوں ہی کام سے جائیں گے۔ 
پنجاب حکومت نے تعلیم کے میدان میں بہت کچھ ایسا کیا ہے، جس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کی سربراہی میں قائم ادارے کے ذریعے ایک لاکھ کم وسیلہ بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف فراہم کئے گئے ہیں، آئندہ سال کے لئے وسائل میں 100فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف نے بجا طور پر فخر کیا کہ مزدوروں، کسانوں،غریب کارکنوں کے بچے اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔راجہ قمر الاسلام کے زیرقیادت پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کا نجی سکولوں کے ساتھ شراکت داری کا اہتمام بھی قابل ستائش ہے۔ اس طرح دس لاکھ سے زیادہ بچوں کی فیسیں ادا کی جا رہی ہیں لیکن تعلیم کے شعبے میں بہت کچھ مزید کرنے کی ضرورت ہے۔ سرکاری سکولوں کو جب تک نجی اداروں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بنایا جاتا،معیاری تعلیم حاصل کرنے کی خواہش ادھوری رہے گی اور لوئر مڈل کلاس کو چین کا سانس نصیب نہیں ہوگا۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جانے سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ فیسوں کے اضافے پر پابندی لگا دی گئی ہے، لیکن یہ ایک عاجلانہ فیصلہ ہے۔ پرائیویٹ اداروں کو کام کرنے کا مناسب ماحول مہیا کرنا اور ان کے اخراجات کو کم رکھنے میں تعاون کرنا حکومتی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔
بات کہیں اور نکل گئی، جبکہ شروع ضمنی انتخاب کے اس دنگل سے ہوئی تھی جو لاہور شہر میں لڑا جا رہا ہے اور جس میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق ہیں جو اپنے حلقے سے کئی بار جیت چکے اور عمران خان صاحب کو بھی شکست دے چکے ہیں۔ خان صاحب نے البتہ اپنی شکست تسلیم نہیں کی، انہوں نے انتخابی عذرداری داخل کی اور طویل مقدمہ لڑنے کے بعد بالآخر اس نشست کو خالی کرا لیا۔ سیاسی اور نفسیاتی دبائو اتنا بڑھایا کہ مسلم لیگ(ن) اور سردار ایاز صادق نے سپریم کورٹ جا کر حکم امتناعی کی درخواست دینے کی بجائے میدان میں آکر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ سردار ایاز صادق اپنی مہم خود لیڈ کررہے تھے کہ انہیں حمزہ شہباز کی کمک میسر آ گئی ۔ الیکشن کمیشن نے جو انتخابی ضابطہ اخلاق جاری کیا تھا، اس میں پارٹی سربراہوں اور ارکان اسمبلی کی انتخابی مہم میں شمولیت ممنوع قرار دے دی گئی تھی، اسے تحریک انصاف نے عدالت میں چیلنج کرکے یہ پابندی ختم کرالی، نتیجتاً حمزہ شہباز اور ان کے رفقاء بھی اکھاڑے میں ہیں۔عمران خان کا کہنا ہے کہ یہاں مقابلہ ان کے اور میاں نوازشریف کے درمیان ہے، جبکہ حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ وہ خود ہی ان سے نبٹ لیں گے۔ ابتدائی سروے کے مطابق مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری تھا، لیکن چودھری محمد سرور کا دعویٰ ہے کہ وہ آگے بڑھ رہے ہیں اور اپنے حریفوں کے طوطے اُڑانے کی صلاحیت ان کے پاس آ رہی ہے۔ فریقین کے دعوے جو بھی ہوں، مقابلہ کانٹے کا ہے۔ اگر کھیل کے قواعد و ضوابط کی پابندی کی جائے اور اسے پاک بھارت جنگ کی طرح نہ لڑا جائے تو اس سے جمہوریت مضبوط ہوگی کہ فیصلہ کرنے کا حق تو عوام کے پاس ہے اور ان ہی کے پاس رہنا چاہیے۔
[یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے۔]

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved