تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     04-10-2015

میر کیا سادہ ہیں‘ بیمار ہوئے جس کے سبب!

ویسے ایک بات کی داد سیاستدانوں کو دینی پڑے گی کہ ان کے پاس مال کمانے کے ایسے ایسے منصوبے موجود ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔ اگر یہ لوگ اتنی محنت اور ذہانت پاکستان کی معیشت کو چمکانے پر کرتے تو آج نیویارک میں سڑک کنارے دکان کھول کر اسحاق ڈار صرف پانچ سو ملین ڈالرز کے لیے یورو بانڈ کی تاریخ کا مہنگا ترین قرضہ نہ لے رہے ہوتے۔
اب ذرا ملاحظہ فرمائیں وزیراعظم نے سابق صدر زرداری کی سندھ حکومت کو پیشکش کی ہے کہ وہ پاکستان اسٹیل ملز لے لیں۔ اس خبر نے چند پرانی یادیں تازہ کر دی ہیں کہ سیاستدانوں نے کیسے قومی ادارے برباد کرنے شروع کیے۔ 
2008ء کی بات ہے۔ اصلی اور نسلی جمہوریت پسند لندن اور دوبئی سے تشریف لا چکے تھے۔ بینظیر اس دنیا میں نہیں رہی تھیں۔ گلیاں سنجیاں ہوچکی تھیں۔ اب مرزے اکٹھے ہو گئے تھے۔ سب کو پتہ تھا جنرل مشرف کا چل چلائو ہے۔ نیا مرزا یار اب اقتدار پر بیٹھے گا۔ پاکستانی صحافیوں کی سب ہمدردیاں زرداری صاحب کے ساتھ تھیں ۔ وہ سب ابھی تک زرداری کو سیدھا سادا اور یاروں کا یار بلوچ سمجھ رہے تھے جو ہر وقت مسکراہٹ سجائے احتساب عدالت کے باہر کسی ملاقاتی کا منتظر رہتا تھا ۔ ان کا خیال تھا کہ زرداری اب سونیا گاندھی بن رہے ہیں۔ بینظیر بھٹو کی موت نے انہیں بدل دیا ہو گا۔ وہ اب انقلابی بن کر پارٹی چلائیں گے۔ خود حکومت سے دور رہیں گے اور کسی گھر کے بزرگ کی طرح مصلہ بچھا کر اللہ اللہ کریں گے۔ جب گیلانی کو وزیراعظم بنانے کا اعلان ہوا تو سب کو یقین ہوچلا تھا کہ اب واقعی زرداری صاحب بدل گئے ہیں۔ وہ چاہتے تو خود وزیراعظم بن سکتے تھے۔ چند ایک نے مشورہ بھی دیا ۔ مشورہ دینے والوں میں صحافی بھی شامل تھے۔ وہ سب سمجھتے تھے کہ شاید بھولے زرداری کو ان کی تجاویز اور مشوروں کی ضرورت ہے۔ سب سیانے زرداری کو مشورہ دے رہے تھے اور موصوف آگے سے چپ کہ نہیں جناب میرا اقتدار سے کیا کام۔ مجھے بچوں کو سنبھالنا ہے۔ شہید بی بی کی پارٹی چلانی ہے۔ اقتدار جس کا کام ہے وہی سنبھالے۔ ہم پارٹی اور ورکرز کی خدمت کریں گے۔ سب متاثر ہوئے کہ وقت اور حادثات نے انہیں بدل دیا ہے۔ سب کو لگا تاریخ میں یا اشوکا دی گریٹ جنگ کے بعد بدل گیا تھا یا پھر اب زرداری صاحب اپنی اہلیہ کی موت کے بعد۔ اب وہ بادشاہ کی بجائے بادشاہ گر بنیں گے۔ اللہ نے بہت کچھ دے دیا تھا۔ اب مزید کی گنجائش نہیں رہی۔ سب مطمئن اور خوش کہ جمہوریت چل پڑی تھی۔
پھر ایک دن بم گرا۔ اعلان ہوا‘ زرداری خود صدر بنیں گے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہ آئی۔ زرداری صاحب سمجھدار تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بنے تو ان پر جو مقدمات این ار آو کے تحت بند بھی ہوئے اگر کھل گئے تو انہیں کوئی نہیں بچا سکے گا۔ تاہم اگر صدر بنے تو آئین میں ایک شق ایسی تھی کہ اگر ان پر ہزاروں مقدمات بھی ہوئے تو بھی انہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا تھا۔ یہ وہ منصوبہ تھا جس کے تحت وہ صدر بنے اور ان کی حکمت عملی کامیاب رہی اور پانچ سال تک سنگین مقدمات اور عدالتوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ جیل نہ جا سکے۔ اگر وہ وزیراعظم ہوتے تو گیلانی کی طرح کب کے باہر اٹھا کر پھینک دیے جاتے حالانکہ گیلانی نے این ار آو کے ذریعے اپنے مقدمات سیٹل نہیں کرائے تھے پھر بھی ایک اور توہین عدالت کے مقدمے میں سزا کے حقدار ٹھہرے۔ 
سب کی غلط فہمیاں اس وقت دُور ہونا شروع ہوئیں جب زرداری صاحب نے پہلے وہ اسٹک پھینکی جس کا سہارا لے کر وہ عدالتوں میں پیش ہوتے تھے۔ گلے میں سپورٹ ڈال کر چلتے تھے۔ تھوڑا سا لنگڑاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں خدا حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے۔ ایوان صدر داخل ہوتے ہی زرداری صاحب ایسے روپ میں سامنے آئے کہ سب دنگ رہ گئے۔ کہاں گئیں تمام بیماریاں جن کی وجہ سے وہ برسوں ہسپتال میں آرام فرماتے رہے اور کہاں گیا ان کا لنگڑا کر چلنا۔ سب کچھ ختم ۔ 
دوسرا دھچکا اس وقت لگا جب موصوف نے فرمایا کہ اگر انہوں نے نواز شریف کے ساتھ مری میں معاہدہ کیا تھا کہ وہ ججوں کو بحال کریں گے تو یہ کوئی قرآنی آیت تھوڑی تھی۔ تاہم ابھی نئی نئی بات تھی لہٰذا کسی نے انہیں سیریس نہ لیا۔ سب نے کہا کوئی سیاسی مجبوری ہوگی۔ اور پھر انہوں نے پرزے نکالنے شروع کیے۔ کچھ صحافیوں نے اسے وہی زرداری سمجھ کر ڈیل کرنا چاہا جو احتساب عدالت میں لنگڑا کر چلتا تھا تو ان سب کو منہ کی کھانی پڑی۔سب کو انہوں نے کہا کہ وہ سب جانتے ہیں۔ اب وہ بولتے تھے اور باقی سنتے تھے۔ 
اب ان صحافیوں کا داخلہ بند اور قریبی دوستوں کا راستہ کھل گیا۔ ایک یار جس کے ہسپتال میں عمر گزاری تھی اسے ہسپتال سے اٹھا کر وزارت پٹرولیم کا وزیر لگایا۔ ایران سے اس وقت مہنگی گیس خریدی جب ایران سے کوئی کاروبار کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اب جو رینجرز کی رپورٹ سامنے آئی ہے اس سے آنکھیں پھٹ جاتی ہیں کہ معصوم چہرے کا مالک عاصم حسین کیا کچھ نہیں لُوٹ رہا تھا۔ ایک اور دوست کو سی ڈی اے دیا کہ جائو عیاشی کرو۔ احمد مختار کو پی آئی اے مل گئی اور دو تین برسوں میں ہی خسارہ تیس ارب روپے سے ایک سو ارب روپے عبور کر گیا۔ اسٹیل ملز کے لیے تگڑا اُمیدوار ڈھونڈا کہ وہاں مال بہت تھا ۔ وزارت داخلہ کا چارج برطانوی شہری رحمن ملک کے حصے میں آیا جو بینظیر اور ان کے خاندان کے لندن، دوبئی اور امریکہ میں تمام معاملات کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ بہادر اتنے تھے کہ بینظیر بھٹو کے سکیورٹی ایڈوائزر بن گئے۔ جب بینظیر بھٹو خون میں لت پت پنڈی کی سڑک پر پڑی تھیں اور گاڑی نہیں تھی تو وہ گاڑی لے کر پہلے ہی نکل گئے تھے۔ انہی کے دور میں ہی خانانی اینڈ کالیا منی ایکسچینج کا سکینڈل سامنے آیا۔ کراچی کے ایک اہم پولیس افسر جس نے اس کی منی لانڈرنگ معاملے تحقیقات کی تھیں‘مجھے پچھلے دنوں بتایا کہ جناب اس معاملے میں کس کس بڑے آدمی نے کتنے ارب روپے اس پارٹی سے لئے تھے اگر اس کی تفصیلات سامنے آجائیں تو لوگ ڈاکٹر عاصم کو بھول جائیں گے۔ ویسے میں نے دیکھا ہے جب کسی پارٹی کو پھانسنا ہوتا ہے تو اس کی تحقیقات ایف آئی اے کے اچھے اور ایماندار افسر سے کرائی جاتی ہے تاکہ وہ پوری طرح اس پارٹی کو نرغے میں لائے۔ ثبوت اکٹھے کرے اور اس کی ایمانداری کا سب پر رعب پڑجائے۔ جونہی پارٹی بکنے کو تیار ہوتی ہے تو اس ایف آئی اے افسر کو ہٹا کر اس کی جگہ نئے لوگ لائے جاتے ہیں۔ ایف آئی اے کے افسران کو استعمال کر کے پھینک دیا جاتا ہے۔ جن افسران نے خانانی اینڈ کالیا منی لانڈرنگ سکینڈل کی تحقیقات کی تھیں ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ۔ انہیں بھی اس وقت تک استعمال کیا گیا جب تک پارٹی سے معاملات طے نہیں ہوئے ۔ جب ہوگئے تو انہیں مکھی کی طرح دودھ سے نکال کر پھینک دیا گیا کہ بیٹا اب جائو اور دوسرے کے پیچھے لگ جائوتاکہ اس سے مال بٹورا جائے۔
جس وقت اسٹیل ملز پیپلز پارٹی کو ملی اس وقت یہ اربوں روپے کے ٹیکس اور اخراجات نکال کر بھی بارہ ارب روپے کے منافع میں چل رہی تھی۔ زرداری صاحب نے یہ مل اپنے ایک اور پیارے دوست کے حوالے کی اور ایک سال میں ہی اس کا بٹھہ بیٹھ گیا۔ ہر طرف شور مچ گیا کہ جناب ایک سال میں کیسے یہ منافع بخش مل گھاٹے میں چلی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے اس پر نوٹس لے لیا۔ اس وقت ڈی جی ایف آئی اے طارق کھوسہ کو تحقیقات کا حکم ملا۔ وہ ایماندار افسر تھے۔ انہوں نے آگے سے ایک اور ایماندار افسر کو لگایا۔ اور کھرا ایک دن وہیں پہنچ گیا جہاں پہنچنا چاہیے تھے۔ زرداری صدر تھے۔ انہوں نے ایک فون کال طارق کھوسہ کو کی کہ جناب رک جائیں۔ کافی آپ نے افسری دکھا دی۔ مزید تحقیقات نہیں ہوں گی۔ کھوسہ نے بھی کھردرے لہجے میں جواب دیا کہ سر قانون کے تحت سب کام ہوگا۔ زرداری ناراض ہوئے۔ اس دوران طارق کھوسہ نے فاٹا سے گیلانی حکومت کے ایک وزیر کی منی ایکسچینج پر چھاپا مارا تو پتہ چلا کہ وہ بیس ارب روپے کی منی لانڈرنگ میں ملوث تھے۔ وہ وزیر سب پیسہ فاٹا بھیج رہے تھے۔ طارق کھوسہ نے وزیراعظم گیلانی کو خط لکھا کہ وہ وزیر کو گرفتار کرنا چاہتے تھے۔ اس پر گیلانی اور زرداری صاحب کو لگا کہ شاید ان کی حکومت گر جائے گی۔ بیس ارب روپے منی لانڈرنگ کی خیر ہے۔ گیلانی نے اس وزیر کو وزیراعظم ہائوس میں ٹھہرا لیا کہ کہیں طارق کھوسہ پکڑ ہی نہ لیں۔ فیصلہ ہوا کہ کافی ہوگیا تھا۔ کھوسہ کچھ زیادہ ہی کام میں جت گیا تھا ۔ رحمن ملک کو حکم ہوا کہ کچھ کرو۔ انہوں نے فرمایا ایک ہی حل ہے۔ کھوسہ کو ڈی جی ایف آئی اے کے عہدے سے ہٹا دو اور اسے سیکرٹری نارکوٹکس لگا دو۔ نہ ہوگا بانس اور نہ ہی بجے گی بانسری ۔ یوں کھوسہ کا ہٹا دیا گیا اور ساتھ ہی رحمن ملک نے اسٹیل ملز کی انکوائری ٹیم ہی بدل دی تاکہ معاملہ دبایا جائے۔
آج تک کسی کو پتہ نہیں ہے کہ ایف آئی اے کی اس انکوائری کا کیا بنا جو اسٹیل ملز سکینڈل میں سندھ سے تعلق رکھنے والے زرداری صاحب کے دوستوں کے خلاف کی گئی تھی۔ طارق کھوسہ گئے اور سب کچھ لپیٹ دیا گیا۔ آج وہی اسٹیل ملز جو بارہ ارب روپے کے منافع میں چل رہی تھی‘کا خسارہ سو ارب روپے سے زیادہ ہے۔ بجلی گیس کٹ چکی ہے۔ ہر ماہ تنخواہ کے لیے حکومت پیسے ریلیز کرتی ہے۔ لُوٹنے والے لوٹ گئے ہیں۔ وہ مل جو کبھی پاکستان کا اثاثہ تھی اور فخر تھی وہ بند ہوچکی اور آج نواز شریف نے پیشکش کی ہے کہ سندھ حکومت یہ مل رکھ لے۔ 
وزیراعظم صاحب کی فراخ دلی اور دریا دلی تو ملاحظہ فرمائیں کہ پوری مل ہی زرداری صاحب کی سندھ حکومت کو پیشکش کر دی ہے ۔ابھی بھی زرداری اپنے محسن نواز شریف کے خلاف تقریر کریں گے؟
وہی زرداری صاحب کی سندھ حکومت جس کے لاڈلوں نے اسٹیل ملز کا بٹھا بٹھایا ، اسے دیوالیہ چھوڑیں‘ ایک سو ارب روپے سے زیادہ کا مقروض کیا آج انہیں کہا جارہا ہے وہ پوری مل ہی لے لیں ۔ جنہوں نے مل کو اس حال میں پہنچایا وہی اب اس کا علاج ڈھونڈیں گے۔۔ سبحان اللہ!
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب! 
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved