چین کے تمام بڑے اور معتبر افراد‘ جو آئے روز کی بیرونی جارحیت سے تنگ آ چکے تھے‘ نے کافی سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ ہمیں امن و سکون سے رہنے‘ بیرونی جارحیت سے محفوظ رہنے کیلئے اپنے گرد ایک بڑی اور مضبوط دیوار بنا لینی چاہئے۔ عظیم دیوار چین اس قدر بلند تھی کہ وہ سب یہ سوچ کر مطمئن ہو گئے کہ یہ کسی سے بھی پار نہیں کی جا سکے گی‘ لیکن ہوا یہ کہ دیوار کی تکمیل کے بعد بھی تین مرتبہ بیرونی حملہ آور چین کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حملہ آور ایک بار بھی دیوار چین پھلانگ کر اندر داخل نہیں ہوئے‘ بلکہ تینوں دفعہ حملہ آور ہونے والی فوجوں نے اس دیوار کے مختلف حصوں پر تعینات چینی پہریداروں کو بھاری رشوت دے کر اپنے ساتھ ملالیا‘ جنہوں نے ان کیلئے چپکے سے گیٹ کھول دیئے۔چین کی اس وقت کی اشرافیہ نے اپنے ارد گرد حصار قائم کرنے کیلئے عظیم دیوار تو بنا دی لیکن وہ ایمان، اتحاد اور تنظیم کی مضبوط لڑی میں پروئی ہوئی قوم کی جانب توجہ نہ دے سکے۔ وہ دیوار چین تعمیر کر کے مطمئن ہو گئے لیکن اس دیوار چین کی حفاظت پر مامور ا پنے گارڈز کا کردار تعمیر کرنے میں ناکام رہے‘ اسی لئے جس نے بھی ان گارڈز کو زر و جواہرات کی پیش کش کی‘ یہ اسی کے ہو گئے۔ اپنے گرد حفاظتی حصار اور اسلحہ کے ڈھیروں سے حفاظت نہیں ہو تی بلکہ غیرت و حمیت اور مضبوط کردار سے ہوتی ہے چین کی اس وقت کی اشرافیہ کے لوگ بھول گئے کہ ملک کے دفاع کیلئے دیوارِ چین کی تعمیر کے ساتھ اپنے ملک کے شہریوں کا کردار بھی مضبوط اور بہتر بنانا ضروری ہوتا ہے۔
پھر سب نے دیکھا کہ چین میں ایک عظیم انقلاب کے ذریعے جس میں کئی لاکھ لوگ اپنی جانوں سے گئے ‘ مائوزے تنگ اور چو این لائی جیسی قیا دت سامنے آئی تو انہوں نے اپنا کردار سب کے سامنے رکھتے ہوئے چین کے ہر ایک فرد کو پیغام دے دیا کہ اس ملک میں جینے اور رہنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ چین سے دل کی گہرائیوں تک وفاداری کرو اور روزمرہ کے اپنے کردار اور گفتار کو اس نئے معاشرے کا حصہ بنا دو کیو نکہ اس معیار کے بغیر یہاں رہنے اور جینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اور ایسے لوگ جو ملک قوم اور اس کے وقار کا سودا کریں گے‘ جو عوامی جمہوریہ چین کے عوام اور سرحدوں کا سودا کریں گے‘ ان کیلئے سوائے گولیوں کی ایک بو چھاڑ کے اور کچھ نہیں ہے۔ اور پھر وقت نے دیکھا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ چین کی چمک دمک میں اضافہ ہو تا گیا۔ اس کی سرحدوں کی جانب کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی‘ اور آج جب چین نے اپنی قوم کا کردار بلند اور مضبوط بنا دیا ہے تو کسی کو اس دیوار کو پھلانگنے کی بھی ہمت نہیں ہورہی۔1850ء میں امریکہ کے صدر ہنری کلے نے کہا تھا کہ مجھے امریکہ کی صدارت نہیں بلکہ صداقت چاہئے۔ یہ وہ امریکی صدارت سے دستبرداری کیلئے تو تیار تھے‘ لیکن سچائی کا دامن چھوڑنا انہیں قطعی گوارہ نہیں تھا۔۔۔اور یہی آج کے پاکستان کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
آج ہم نے بھی اپنے ملک کے گرد ایک زبردست قسم کا ایٹمی حصار کھینچ رکھا ہے‘ جس نے ہمیں اس خوف سے بے فکر کردیا ہے کہ دشمن کبھی ہماری جانب میلی آنکھ سے دیکھ سکے گا لیکن اس ایٹمی دیوار کے ساتھ اگر ہم اپنے ارد گرد‘ اپنے معاشرے، سوسائٹی اور ملک کے مجموعی ماحول اور ذرائع ابلاغیات کو سامنے رکھیں‘ تو ہر چیز مصنوعی، کھوکھلی اور بنا وٹی سے لگتی ہے۔ معاشرے کا کردار گزشتہ ایک ماہ میں اس طرح سامنے آ رہا ہے کہ لوگ گوشت کھانا تو دور کی بات‘ اس کی طرف دیکھنے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ صاف لگ رہا ہے کہ اس ملک میں کسی کو کسی پر اعتماد نہیں رہا۔ کسی نے کہا تھا‘ اگر تم نے کسی قوم کے نظریئے اور اس کی تہذیب و تمدن کو تباہ کرنا ہے تو اس کیلئے تین
طریقے استعمال کرنا ہوں گے‘ اس قوم کے خاندانی نظام کو تباہ کر دو ، اس قوم کے تعلیمی نظام کا حشر نشر کر دو اور اس قوم کے رول ماڈل اور ان کی تعلیمات کو دفنا دو۔ مؤرخ کی کہی یہ باتیں سامنے رکھیں اور پھر غور کریں۔ کیا ہمارے ساتھ یہی کچھ نہیں کیا گیا اور کیا ابھی تک یہی کچھ منظم طریقے سے نہیں کیا جا رہا؟ممکن ہے آپ اسے دقیانوسی بات قرار دے کر رد کر دیں‘ لیکن کون نہیں جانتا کہ ہمارے برسوں سے چلے آ رہے خاندانی نظام کو تباہ کرنے کیلئے سب سے پہلے مائوں کے تصور کو اس طرح دھندلا نے کی کوششیں کی گئیں کہ انہیں '' ہائوس وائف‘‘ کا نام دیا جانے لگا ہے۔تعلیمی نظام کو تباہ کرنے کیلئے معاشرے میں استاد کے رتبے کو گہن لگا نا شروع کر دیا گیا۔ انہیں ماہانہ تنخواہ اور وقت کے حکمرانوں کااس قدر محتاج بنا دیا گیا کہ وہ سوائے ان کی خوشنودی کے دوسرا کوئی سبق یاد ہی نہیں کرتے اور جنہیں اپنا سبق یاد نہ رہا ہو وہ اپنے طالب علموں کو کون سا سبق پڑھائیں گے؟ جہاں ایک استاد کی تنخواہ سات ہزار اور چوکیدار کی بارہ ہزار مقرر کر دی جائے تو سات ہزار روپے تنخواہ لینے والے استاد کے جذبات کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں رہتا۔وہ خود کو دوسروں سے کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔ قوم کی نئی نسل کو علم اور آگہی دینے والوں کو حالات کی تنگی کا شکار کرتے ہوئے اس قسم کا فرد بنا دیا گیا کہ طالب علموں کی نظروں میں ان کا کوئی مقام اور رتبہ ہی نہ رہا۔ ان کی معاشی حالت اس نچلے درجے پر پہنچا دی گئی کہ وہ خود کو استاد کی بجائے ایک پریشان حال محتاج سمجھ کر جینے لگے ہیں ۔
ہمارے ملک کے سکالر، مذہبی رہنما،سائنسدان، وہ سیا سی اور قومی رہنما جو بلا کسی شک و شبہ کے اس ملک کا سرمایہ تھے‘ جن کی صداقت اور دیا نت کی مثالیں دی جا تی تھیں‘ انہیں اس طرح نظر انداز کر کے رکھ دیا گیا کہ وہ معاشرے میں اپنا مقام ڈھونڈنے کی بجائے‘ وہ معاشرہ ڈھونڈتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہو گئے‘ جس کا انہوں نے خواب دیکھ رہا تھا‘ جس کی ترتیب درست کرنے کیلئے وہ ا س کی تراش خراش میں مصروف رہے۔ ہمارا کوئی رہنما ہی نہ رہا۔ کوئی آئیڈیل اگر تھا بھی تو اس کے بارے میں جو کچھ منہ میں آیا زورو شور سے کہنا شروع کر دیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ان کو گہنا کر رکھ دیا گیا۔جب خاندان کا تصور مٹ جائے‘ جب استاد کا مقام اور مرتبہ ایک بھِک منگے اور سوالی کا سا ہو جائے اور جب اس ملک کی فکری اور نظریاتی بنیادوں کے لیڈران اپنی عزت بچانے کیلئے پناہ گاہوں کی تلاش میں مصروف ہو جائیں‘ تو پھر نئی نسل کیا سیکھے گی اور کس سے سیکھے گی؟ اور پھر جن سے وہ نیا سبق لے گی وہ سبق صداقت کا نہیں ہو گا، شجاعت کا نہیں ہو گا اور نہ ہی عدالت کا ہو گا‘ وہ منافقت کا ہو گا‘ صرف منا فقت کا ۔۔۔ آج ہماری قوم جس طرح ایک نئی کروٹ لے رہی ہے اور چھ ستمبر کی رات جنرل راحیل شریف نے راولپنڈی جی ایچ کیو میں بھارتی آرمی چیف اور نریندر مودی کی دھمکیوں کا جس طریقے سے جواب دیا‘ اس سے ملک اور قوم میں حوصلہ پیدا ہونے لگا ہے کہ وہ دن دور نہیں کہ جب ہم بھی اپنے کردار کی دیوار اتنی بلند کرلیں گے کہ دنیا کی کسی طاقت کے لیے اسے پھلانگنا ممکن نہیں رہے گا۔