چار سال پہلے، شام میں افراتفری شروع ہونے کے فوراً بعد، میری ایک نوجوان امریکی سفارت کار سے نیویارک میں، جہاں میں اپنی کتاب کی تشہیر کے سلسلے میں گیا تھا، ملاقات ہوئی۔ اُس سفارت کار نے کچھ عرصہ مشرق وسطیٰ میں گزارا تھا۔ اُس نے وہاں تعیناتی سے پہلے عربی زبان بھی سیکھی تھی اور خطے کے حالات کا مطالعہ بھی کیا تھا۔ بہار عرب کے اُس فتنہ پرور دور میں، جب ہر طرف تباہی مچ رہی تھی‘ میں سوچ رہا تھا کہ تبدیلی کے خواہاں نوجوانوں کے طوفانی جذبات نسل در نسل آمروں اور امیروں کے برج الٹ دیں گے۔ میرے سامنے تیونس کی مثال تھی، لیکن نوجوان امریکی سفارت کار نے میری رائے سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا کہ شام کے صدر آسانی سے ہار نہیں مانیں گے‘ بشارالاسد بہت دیر تک اپنے اقتدار پر جمے رہیں گے۔ اس نوجوان کا تجزیہ بالکل درست تھا۔
چار سال بعد آج جب بہار عرب خزاں رسیدہ پتوں کی جھڑ چکی ہے‘ اور شام کے صدر بشارالاسد مشرق وسطیٰ کے منظر پر موجود ہیں، اگرچہ اُن کی حکومت گزشتہ تین برسوں سے مہیب خطرات کا سامنا کر رہی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری نظروں کے سامنے زیادہ سے زیادہ ریاستیں شام کے بحران میں ملوث ہوتی جا رہی ہیں۔ کچھ طاقتیں اسد حکومت کا جلد از جلد خاتمہ دیکھنے کی خواہاں ہیں‘ جبکہ کچھ دوسری طاقتیں جیسے امریکہ، داعش کی تباہی چاہتی ہیں۔ کچھ خلیجی ریاستیں فرقہ وارانہ بنیادوں پر سوچتے ہوئے اسد حکومت کو گرا کر ایران کو زچ کرنا چاہتی ہیں۔ یہ ہے وہ ہنگامہ خیز صورت حال جس میں اب روس نے قدم رکھا ہے۔ وہ اسد حکومت کو تحفظ دینے کے لیے عسکری بازو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ روس کا در پردہ مقاصد بحر روم میں اپنے مفادات کا تحفظ ہو‘ لیکن بنیادی طور پر وہ موجودہ شامی حکومت کو ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے وہ اس کی مدد کو تیار ہوا ہے۔ روسی صدر ولادیمر پیوٹن نے بارہا کہا ہے کہ جب آمر حکمرانوں۔۔۔۔ صدام حسین، کرنل قذافی اور حسنی مبارک کا تختہ الٹا گیا تو بعد میں یہ ریاستیں مزید گہرے بحران کا شکار ہو گئیں۔ حسنی مبارک کے بعد مصر کو جمہوریت نصیب نہیں ہوئی‘ بلکہ فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اب مصر میں کسی بھی وقت اسلامی قوتوں اور فوج میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔
ایک مثالی صورت حال میں امریکہ، ایران، روس اور علاقائی طاقتیں مل کر داعش کے خلاف موثر کارروائی کر سکتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ مل کر شام میں پُرامن انتقال اقتدار کی راہ بھی ہموار کر سکتی تھیں، لیکن مغربی طاقتیں، ترکی اور عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر اسد حکومت کو قبول کرنے اور شام میں پُرامن انتقال اقتدار میں کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اسی طرح ان کا روس اور ایران کے ساتھ اختلاف پایا جاتا ہے، جن کا خیال ہے کہ اس وقت اسد کو حکومت سے ہٹانا شام کو تباہ کرنے کے مترادف ہو گا‘ کیونکہ اس کے بعد کوئی بھی قوت ایسی نہیں جو ریاست کو متحد رکھ سکے۔ ایران اور روس لیبیا کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ معمر قذافی کے بعد آج لیبیا بطور ریاست اپنی عملداری کھو چکا ہے‘ جبکہ مسلح افراد کے مختلف گروہ ملک کے مختلف حصوں پر راج کر رہے ہیں۔
شام میں ایک ستم ظریفی یہ بھی دکھائی دیتی ہے کہ روس کی فوجی مداخلت ایک آئینی حکومت کی درخواست پر ہوئی ہے جبکہ امریکہ اور دیگر ممالک بغیر کسی آئینی جواز کے ایک ریاست کی خود مختاری میں مداخلت کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود صدر اوباما کو شکایت ہے کہ روسی فضائیہ کے حملے معاون ثابت ہونے کی بجائے بحران کو مزید گہرا کر دیں گے۔ اس پر پیوٹن سوال کرتے ہیں کہ ایک سال تک بمباری کر کے امریکی اور اس کی اتحادی قوتوں نے کیا حاصل کر لیا؟ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت داعش پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور اور شامی فوج ماضی کی نسبت کہیں زیادہ کمزور ہو چکی ہے۔ گزشتہ برسوں میں بہت سے قصبوں اور شہروں سے شامی فوج پیچھے ہٹتی دکھائی دی اور وہاں انتہا پسندوں نے قبضہ کر لیا۔ امریکہ کی طرف سے نام نہاد معتدل قوتوں کو تربیت دے کر داعش کے مقابلے پر اتارنے کا منصوبہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ کانگرس کی ایک حالیہ میٹنگ کے دوران سنٹرل کمان کے ایک کمانڈنگ آفیسر نے بتایا کے اُن کی تربیت دی گئی فورس کے ''چار یا پانچ دستے‘‘ لڑ رہے ہیں۔ بہت سوں نے تربیت پانے کے بعد امریکی ہتھیار داعش کے ہاتھ فروخت کر کے رقم کمانے کو ترجیح دی۔ درحقیقت امریکی داعش کو ہتھیار فراہم کرنے والے سب سے بڑے ''سپلائر‘‘ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب عراق کے شہر موصل پر داعش نے قبضہ کیا‘ تو اس کے ہاتھ وہاں امریکی فورسز کے ذخیرہ کیے گئے بھاری ہتھیار، جن میں ہیوی توپ خانہ بھی شامل تھا، لگ گئے۔ عراقی فورسز کو مہیا کی گئی Humvees (امریکی بکتر بند گاڑیاں) اب داعش کے جنگجو چلاتے اور ان کی مدد سے شہروں پر حملے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انتہا پسندوں کی سرکوبی کے لیے عراقی فوج پر اربوں ڈالر جھونکے گئے تھے‘ لیکن داعش کے مقابلے پر آتے ہی وہ فورس خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر گئی۔
اس موقع پر سب سے اہم سوال یہ ہے کہ امریکی کوشش کی ناکامی کے بعد کیا اب روس کے پاس کامیابی کا کوئی امکان ہے؟ رپورٹس کے مطابق ایران بھی اسد حکومت کی مدد کے لیے اپنے دستے بھیجنے کے لیے تیار ہے‘ بلکہ بعض اطلاعات کے مطابق تو اس نے دستے بھیج بھی دیے ہیں۔ روس کی فوجی موجودگی شامی فوج کا حوصلہ بڑھانے کا باعث بنے گی۔ ان کا فی الحال ہدف بحیرہ روم کی ساحلی پٹی کو انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں جانے سے بچانا ہے کیونکہ شام کی زیادہ تر آبادی کا ارتکاز اسی پٹی پر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس علاقے میں کچھ اور انتہا پسندگروہ، جیسا کہ القاعدہ سے الحاق یافتہ جبہۃ النصرہ بھی موجود ہیں۔ ان گروہوں کو ترکی اور بعض عرب ریاستوں کے علاوہ امریکی مدد سے بننے والی ''فری سیرین آرمی‘‘ کی مدد بھی حاصل ہے۔ اگر روسی طیارے ان گروہوں کو نشانہ بناتے ہیں تو پھر ان کی حامی ریاستیں بھی میدان میں کود سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ کشمکش بہت ہولناک رخ اختیار کر لے گی۔
جب ان گنجان آباد علاقوں میں جنگ شدت اختیار کرے گی تو یہاں سے پناہ کی تلاش میں فرار ہونے والوں کی تعداد میں بھی مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اس سے یورپ میں تارکین وطن کا بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ ان مسائل کے باوجود روسی مداخلت کا خیر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ اب تک مغربی ممالک خطے کو داعش سے بچانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ یقیناً وسیع صحرا میں داعش کے ٹھکانوں پر بے مقصد بمباری کرنے سے کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔ داخلی طور پر شامی اپوزیشن اسد کی حمایت کے لیے روسی مداخلت کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اس سے پہلے جنیوا میں ہونے والے مذاکرات انتقال اقتدار کے مسئلے پر سبوتاژ ہو چکے ہیں۔ اس وقت بھی یہی لگتا ہے کہ جب تک امریکہ اور روس مل کر شام پر کوئی واضح پوزیشن نہیں لیںگے، یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔