تعبیر
یہ جریدہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے عبدالعزیز ساحر کی ادارت میں شائع ہوتا ہے جو کہ اُردو زبان و ادب کا تحقیقی مجلہ ہے اور زیر نظر پرچہ اس کا شمارہ اول ہے۔ اس کی مجلسِ ادارت میں ڈاکٹر ظفر حسین ظفر‘ ڈاکٹر نورینہ تحریم بابر‘ ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور ڈاکٹر محمد قاسم شامل ہیں جبکہ مجلسِ مشاورت میں پاکستان سے ڈاکٹر رئوف پاریکھ‘ سید جاوید اقبال‘ پروفیسر شاداب احسانی‘ ڈاکٹر شفیق انجم‘ پروفیسر فخرالحق نوری‘ پروفیسر معین نظامی اور ڈاکٹر نجیب عارف شامل ہیں جبکہ دیگر ملکوں کے ادباان کے علاوہ ہیں۔
مضامین میں ''مومن خاں مومن کے حالات میں پہلا مضمون‘‘ ابرار عبدالسلام کے قلم سے ہے۔ ''الطاف حسین حالی کے ایک اور غیر مطبوعہ مضمون کا مکمل متن مع حواشی‘‘ کے موضوع پر محمد افتخار شفیع نے خامہ فرسائی کی ہے۔ ''مثنوی یوسف زلیخا از مرزا قطب علی بیگ فگار‘‘ پر شفیق انجم نے خیال آرائی کی ہے۔''خصوصی لغت نویسی اور اُردو کی چند اور کمیاب خصوصی لغات‘‘ پر رئوف پاریکھ نے مضمون باندھا ہے جبکہ ''رشید حسن خاں کے ''تدوینی امتیازات‘‘ پر محمد توقیر احمد نے اظہار رائے کیا ہے۔ ''دیوان زادہ: نسخۂِ ذوالفقار اور نسخۂِ عبدالحق کے اختلافات نُسخ کا مختصر تنقیدی جائزہ‘‘ عامر رشید نے لیا ہے۔ ''1857ء سے 1947ء تک اُردو میں لسانی تحقیق‘ ایک تجزیاتی مطالعہ‘‘ ظفر احمد نے کیا ہے جبکہ ''مولانا فقیر محمد جہلمی کے غیر مطبوعہ مکتوبات‘‘ پر حسن نواز شاہ نے روشنی ڈالی ہے۔ ''مغربی بنگال میں اردو کا ایک اہم مرکز: مرشد آباد‘‘ پر انیس نعیم نے لکھا ہے جبکہ ''میرا جی شناسی اور ڈاکٹر محمد صادق... تحقیق‘ ترجمہ‘ تنقید‘‘ پر طارق حبیب نے قلم آرائی کی ہے۔ اسی طرح ''دیوندراِسر کا افسانوی اختصاص‘‘ کے موضوع پر عمران عراقی کا مضمون ہے جبکہ ''رشید حسن خاں کے خطوط (ٹی آر رینا)‘‘ پر ظفر حسین ظفر نے تبصرہ کیا ہے اور ''تاریخ ادبیات اُردو‘‘ پر ارشد محمود ناشاد نے لکھا ہے۔ تحقیق سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے یہ جریدہ ایک نعمت سے کم نہیں۔ قیمت درج نہیں۔
تحقیقی زاویے
یہ جریدہ شعبہ اُردو الخیر یونیورسٹی بھمبر سے ڈاکٹر رشید امجد صدر شعبہ اُردو کی ادارت میں شائع ہوتا ہے جس کا یہ چھٹا شمارہ ہے۔ اس کی مقامی اور بین الاقوامی مجلس مشاورت بھی خاصی طویل ہے۔ مضامین میں ''سید محمد بلاقی کے معراج نامے کی ایک اور روایت‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد کی تحریر ہے تو ڈاکٹر عظمت رباب نے ''مجلس ترقی ادب لاہور کی نثری تدوینی خدمات‘‘ کے موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ ''تیرہ ماسہ: طالب‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر سہیل عباس نے لکھا ہے جبکہ ''ترکی‘ اُردو تراجم‘‘ کے عنوان سے صغریٰ بیگم کا مضمون ہے تو ''ماہنامہ کلیم پر ایک نظر‘‘ شفقت ظہور نے ڈالی ہے۔ دوسرے حصہ میں ''شیرافضل جعفری: پنجابی ثقافت کا عکاس‘‘ کے عنوان سے محمد عارف مغل نے خیال آرائی کی ہے جبکہ ''الطاف حسین حالی کی سوانح نگاری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ‘‘ ڈاکٹر محمد مالک نے لیا ہے۔ ''رشید اختر ندوی کے اردو ناولوں میں ترقی پسند رجحانات کا توضیحی مطالعہ‘‘ ڈاکٹرنورینہ تحریم بابر نے کیا ہے تو ''اُردو افسانہ اور پاکستانی نامور خواتین افسانہ نگار‘‘ کے موضوع پر عائشہ زرّیں نے قلم اٹھایا ہے۔ تیسرے حصے میں ''اُردو تذکروں میں ''ذکر میرؔ ‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر شبیر احمد قادری کی تحریر ہے جبکہ ''شعرائے اُردو کے تذکروں میں ادبی تنقید و تاریخ‘ اجمالی جائزہ‘‘ ثمرہ ضمیر نے لیا ہے اور چوتھے حصے میں ''اُردو سماعت اور تکلم کی تدریس‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر عبدالستار ملک نے خیال آرائی کی ہے۔ ''لسانی مباحث کے کچھ نئے زاویے‘‘ کے عنوان سے غازی علم الدین کی تحریر ہے تو ''اُردو زبان کی رتایخی‘ سماجی‘ ثقافتی اہمیت اور مستقبل‘‘ کے موضوع پر ڈاکٹر نگہت ناہید ظفر نے قلم اٹھایا ہے۔ پانچویں حصے میں ''ترکی میں مطالعہ اقبال کا جائزہ‘‘ صغریٰ بیگم نے لیا ہے تو ''خادم اقبال‘ علی بخش‘‘ پر ڈاکٹر محمد آصف اعوان نے مضمون باندھا ہے۔ چھٹے اور آخری حصے میں ''ڈیوڑھی (گلزار)‘‘ پر ڈاکٹر طاہرہ اقبال کا مضمون ہے جبکہ موج زمزم (ضیاء محمد ضیاء پسروری) پر ڈاکٹر محمد افضال بٹ کا مضمون ہے۔ اس پر بھی قیمت درج نہیں۔
اُردو کالم
عابد سیال اور ڈاکٹر فاخرہ نور کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلے کا یہ دوسرا شمارہ ہے۔ اس کا پہلا مضمون ڈاکٹر انوار احمد نے ''اُردو‘ عدالتی حکم‘ کابینہ ڈویژن کی سفارشات ...‘‘کے موضوع پر ہے۔ اس کے بعد عبدالودود قریشی کا مضمون ''نفاذِ اُردو میں رکاوٹ کی جہتیں‘‘ ہے۔ اشکر فاروقی نے ''اقبال‘ ایک غیر جانبدار مطالعہ‘‘ پر لکھا ہے جبکہ ڈاکٹر ظفر حسین ظفر نے ''فکر اقبال: تفہیم نو‘‘کے موضوع پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر امجد طفیل نے ''تھیوری اور ادبی تھیوریز‘ پرانی مصنوعات‘ نئے لیبل‘‘ پر قلم اٹھایا ہے تو قاسم یعقوب نے ''تھیوری اور فلسفہ مابعد جدیدیت پہ اتنا شور کیوں‘‘ پر لکھا ہے‘ جبکہ عامر سہیل نے ''ادبی تھیوری کا مغالطہ‘‘ اپنے مضمون کا عنوان جمایا ہے۔ ڈاکٹر طارق ہاشمی نے ''ادب کا مرکزی دھارا اور مضافات‘‘ کے موضوع پر خیال آرائی کی ہے تو ڈاکٹر ارشد معراج نے ''شہر نظم‘‘ کو اپنا موضوع بنایا ہے‘ جبکہ تصنیف حیدر نے ''جدید غزل کی گھُٹی ہوئی آوازیں اور میری چیخیں‘‘ کے موضوع پر لکھا ہے۔ ''پُرلطف غلط کاریاں‘‘ کے موضوع کو ڈاکٹر عزیز فیصل نے اپنایا ہے تو ڈاکٹر اصغر علی بلوچ نے ''جامعات میں اُردو تحقیق کی صورت حال‘‘ پر قلم اٹھایا ہے۔ شکور رافیل نے ''ایک اور جہان علمی و مذہبی زعماء کی تلاش میں‘‘ کے موضوع پر لب کشائی کی ہے۔ ڈاکٹر فرحت عباس نے ''فکر وفن کی دنیا اور ہماری ذمہ داری‘‘ پر لکھا ہے تو ڈاکٹر روشن ندیم نے ''تعلیم سیاست اور فتوے‘‘ پر خیال آرائی کی ہے جبکہ ''شائع ہونا کتاب کا‘‘ کے عنوان سے ڈاکٹر فاخرہ نورین نے تبصرہ کیا ہے۔ سرمد سروش نے ''ترجمے میں مکمل ہوئی نظم‘‘ اور عابد سیال نے ''معاصر غزل کی نارسائی‘‘ پر خیال آرائی کی ہے۔ ان تینوں جریدوں کے عنوانات اور ان کے تخلیق کاروں کے پیش نظر‘ حق تو یہ تھا کہ ان پر مزید لب کشائی کی جاتی لیکن تنگئی جاکی مجبوری آڑے آ رہی ہے۔ ان مضامین کی وقعت کا اندازہ عنوانات ہی سے ظاہر ہے۔
ماہِ نو
یہ جریدہ رسالوں والے کالم میں چھپنے سے رہ گیا تھا۔ اس کے لکھنے والوں میں ڈاکٹر انور سدید‘ یہ خاکسار‘ ابرار احمد‘ ڈاکٹر ضیاء الحسن‘ ڈاکٹر فاطمہ حسن‘ افضل مراد‘ عذرا اصغر‘ ڈاکٹر طاہر تونسوی‘ زاہد حسن‘ یوسف عالمگیرین‘ نیلم احمد بشیر‘ کرامت بخاری‘ رفیع رضا‘ محمد ظہیر بدر‘ شعیب خالق‘ حافظ حیات‘ غمخوار حیات‘ مرتضیٰ برلاس‘ زاہد مسعود‘ ظہور احمد‘ آصف ثاقب‘ حمیدہ شاہین‘ دانیال عزیز‘ جلیل حیدر لاشاری‘ سحر فارانی‘ ڈاکٹر اکرم عتیق‘ شہزاد بیگ‘ فہیم اعظم‘ نورین طلعت عروبہ اور ڈاکٹر شوکت علی قمر شامل ہیں۔ قیمت 50روپے۔
آج کا مطلع
شاملِ عرضِ ہُنر کر کے ریاکاری کو
خود ہی آسان کیا روز کی دشواری کو