ایسا لگتا ہے کہ ماہرین اور محققین میں اس ایجنڈے پر اتفاق ہو چکا ہے کہ موقع ملتے ہی (اور کبھی کبھی تو بے موقع بھی) حالات کے ستائے ہوئے لوگوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے رہنا ہے۔ اِسی ایک کام کو وہ اپنے فن کی انتہا سمجھ بیٹھے ہیں۔ جن روزمرہ امور سے نمٹنے یا جان چھڑانے میں انسان کی ساری توانائی ضائع ہو جاتی ہے ان پر تحقیق کا بازار گرم کر کے ماہرین عجیب و غریب نتائج اخذ کیا کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ پتہ نہیں کب سے جاری ہے؟
سماجی معاملات میں تحقیق کرنے والوں کے لیے خواتین پسندیدہ ہدف کا درجہ رکھتی ہیں۔ چند روز قبل ہم نے یہ خبر پڑھی تھی کہ وڈیو گیم کھیلنے سے خواتین فربہی کی طرف مائل ہوتی ہیں‘ یعنی ان پر موٹاپا طاری ہونے لگتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیے وڈیو گیم سے موٹاپے کا کیا تعلق؟ سمجھ میں آنے والی بات نہیں مگر جب محققین منوانے پر بضد ہوں تو بہت سی باتیں ''بے فضول‘‘ میں ماننا پڑتی ہیں۔
مختلف حیلوں بہانوں سے خواتین کو ڈرانے کی عادت اب ماہرین اور محققین میں خاصی جڑ پکڑ چکی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ خواتین کو ڈرانے کی ہر کوشش انہیں ہنسنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جب بھی ہم نے خواتین کے مسائل سے متعلق کی جانے والی تحقیق پر مبنی کوئی خبر پڑھی، ہماری بھی ہنسی چھوٹ گئی۔ اگر خواتین ماہرین کے مشوروں پر عمل کرنے لگیں تو ہم پورے یقین سے یہ خدشہ ظاہر کر سکتے ہیں کہ ان کی زندگی مزید اوٹ پٹانگ ہو جائے گی۔ بیوٹی کیئر اور فٹنس کے نام پر ماہرین نے خواتین کو کوفت اور پریشانی سے اس قدر دوچار کیا ہے کہ رہے نام اللہ کا۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ چہرے پر فلاں چیز کا لیپ کرنے سے حُسن نکھرتا ہے، چہرے کی تازگی برقرار رہتی ہے۔ پھر کچھ ہی دن بعد چہرے کے حوالے سے اُسی چیز کے مُضِر اثرات کا ''مژدہ‘‘ سنایا جاتا ہے! خواتین مزید پریشان ہو اُٹھتی ہیں ع
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ حُسن کی حفاظت کے لیے کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ ایک تو بیوٹی نے خواتین کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ گویا ؎
اچھی صورت بھی کیا بُری شے ہے
جس نے ڈالی بُری نظر ڈالی!
اور پھر رہی سہی بیوٹی کیئر پروڈکٹس نے پوری کر دی ہے۔ بیوٹی کیئر پروڈکٹس کا معاملہ یہ ہے کہ کسی ایک چیز کے اثرات زائل کرنے کے لیے دوسری چیز استعمال کرنا پڑتی ہے۔ اور اُس کے اثرات سے گلو خلاصی کے لیے تیسری چیز استعمال کی جاتی ہے۔ بہت سی خواتین بیوٹی کیئر کے معاملے میں اِتنی حسّاس ہوتی ہیں کہ گھر اور بیوٹی پارلر کے درمیان ہی چکر کاٹتی رہتی ہیں۔ بعض تو اِس تواتر سے بیوٹی پارلر جاتی ہیں کہ ع
عمر گزری ہے اِسی دشت کی سیّاحی میں
والی بات درست ثابت ہوتی رہتی ہے!
امریکہ سے اچھی اور کام کی خبریں کم ہی آتی ہیں۔ امریکہ کی فلوریڈا یونیورسٹی سے ایک ایسی خبر آئی ہے جسے ہم خواتین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کے سوا کچھ قرار نہیں دے سکتے۔ خواتین کے ''مفادِ عامہ‘‘ میں کی جانے والی تازہ ترین تحقیق کی روشنی میں ''مژدہ‘‘ سنایا گیا ہے کہ گھر کے کام کرنے سے اور بالخصوص باورچی خانے میں برتن دھونے سے ذہن کو پُرسکون رکھنا اور بے جا تناؤ ٹالنا ممکن ہو جاتا ہے!
اب آپ ہی بتائیے کہ خواتین کے زخموں پر نمک چھڑکنے والوں کا کیا علاج کیا جائے؟ جن اُمور نے خواتین کو ہزاروں سال سے الجھن میں مبتلا کر رکھا ہے‘ اُنہی کو تسکین بخش قرار دے کر ذہنوں کو مزید الجھایا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خواتین کو گھریلو کام کاج میں الجھائے رکھنا مقصود ہے۔ یعنی ماہرین اور محققین چاہتے ہی نہیں کہ خواتین کبھی اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوں!
خواتین ہزاروں سال سے لگی بندھی اور فرسودہ ڈھنگ کی زندگی بسر کرتی آئی تھیں۔ مغربی دانشوروں نے بہت کچھ ٹھکانے لگایا‘ یعنی خواتین میں اپنے ہونے کا احساس پیدا کیا اور خاصی محنت اور توجہ سے انہیں ''نئی زندگی‘‘ کی دہلیز تک پہنچایا۔ مغربی تہذیب نے خواتین کو باورچی خانے ہی نہیں بلکہ گھر سے بھی نکالا اور چار دیواری سے باہر کی دنیا کا حُسن دوبالا کرنے کا ذریعہ بنایا! چار دیواری میں گھٹ گھٹ کر زندگی بسر کرنے والی عورت کو امور خانہ داری اور بچوں کی پیدائش و پرورش کے ''منحوس‘‘ دائرے سے نکال کر بھرپور پُرمسرّت لبرل زندگی سے آشنا کرنے والے اب اپنی ہی روش سے رجوع کر رہے ہیں!
مرزا تنقید بیگ کو ہر اس خبر سے شغف ہے جو خواتین کے حوالے سے تحقیق پر مبنی ہو۔ کبھی کسی خبر سے وہ بھابی صاحبہ کو جلاتے ہیں اور کسی خبر سے ان کا دل بہلانے کا سامان کرتے ہیں۔ جب انہوں نے باورچی خانے میں برتن دھونے سے ذہنی سکون کے حصول سے متعلق پڑھی تو پھڑکتے ہوئے بولے: ''ماہرین جب تحقیق کے نتیجے میں خواتین کو مشوروں سے نوازتے ہیں تو دراصل ان سے کھلواڑ کرتے ہیں، تفریح لیتے ہیں۔ خواتین ہزاروں سال تک ذہنی دباؤ اور بے سکونی کا شکار رہی ہیں اور ہر گھر میں باورچی خانہ بھی ہزاروں سال سے ہے۔ باورچی خانہ برتنوں کے بغیر ہو سکتا ہے؟ اور برتن دھوئے بھی جاتے ہیں۔ اگر روزانہ برتن دھونے سے ذہنی سکون مل سکتا تو دنیا بھر کی خواتین ہزاروں سال سے ڈپریشن کا شکار نہ ہوتیں!‘‘
ہم مرزا کی اس بات سے اتفاق کیسے نہ کرتے؟ وہ کبھی کبھار ہی تو درست اور کام کی بات کرتے ہیں! گھریلو کام کاج ہی تو ہے جو خواتین کا ناک میں دم کیے رہتا ہے۔ برتن دھونے سے ذہنی سکون نصیب ہونے کی بات کہنا خواتین کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھنے جیسا ہے۔ گھر کی تمام ذمہ داریوں کو نبھانا خواتین کے لیے ''مجبوری کا نام شکریہ‘‘ والا معاملہ ہے۔ ''شعلے‘‘ والی بسنتی کے بقول یہ تو جمیندار کی بیگاری ہے، مرجی نا مرجی کرنی ہی پڑے!
مرزا مزید کہتے ہیں: ''جن ماہرین نے برتن دھونے سے ذہنی سکون ملنے والی تحقیق فرمائی ہے انہیں باورچی خانے میں دھکیل کر برتن دھلوائے جائیں اور ہاتھ میں جھاڑو تھما کر گھر بھر کی صفائی کرائی جائے تو آن کی آن میں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا، لگ پتا جائے گا اور ہوش ٹھکانے آ جائیں گے! اور اگر پونچھا بھی لگوایا جائے تو سونے پر سہاگہ سمجھیے! ساتھ ہی ساتھ اگر گھر بھر کے کپڑے دھونے اور نچوڑنے کا نیک کام بھی کرایا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ اس کے بعد ماہرین اور محققین کے چراغوں سے روشنی یوں غائب ہو گی جیسے گدھے کے سَر سے سینگ! اس کے بعد اگر وہ کبھی تحقیق کا نام لیں تو ہمارا ذمہ!‘‘
مرزا کی تجویز بالکل درست اور بروقت ہے۔ تحقیق کے ذریعے لوگوں اور بالخصوص خواتین کا ناک میں دم کرنے والوں کا ایک موثر علاج یہی ہے کہ اُن کا جوتا اُنہی کے سَر پر مارا جائے! الل ٹپ قسم کی تحقیق کے ذریعے خواتین کو گمراہ کرنے کا یہ سلسلہ اب تھمنا چاہیے۔
یہاں ہم اپنی قارئین سے بھی کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں۔ کئی بار ہم سے یہ شکایت کی گئی ہے کہ ہم اپنے کالموں میں خواتین کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ہم ایسا کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ہم شادی شدہ ہیں گھر میں بھی رہنا ہے! ہم اپنی قارئین کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہم اپنی طرف سے کوئی شعوری کوشش نہیں کرتے، کبھی کبھی کالم خود بخود بنتا چلا جاتا ہے! اور اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ شائع ہو جانے پر ہمیں اندازہ ہو پاتا ہے کہ ہم نے جو لکھا وہ تو خواتین کے خلاف چلا گیا! بہرحال، ہم سے نالاں رہنے والی قارئین خود ہی ملاحظہ فرمائیں کہ ہم نے ماہرین کے سجھائے ہوئے ذہنی سکون کے نسخے میں چھپی ہوئی شرارت کا پردہ چاک، بلکہ تار تار کر دیا ہے! اب تو ہماری کسی بھی قاری کے ذہن میں ہمارے حوالے سے کوئی بدگمانی باقی نہیں رہنی چاہیے۔