تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     05-10-2015

انصاف میں تاخیر

پینتیس برس پہلے شبیر نے اپنا 6 مرلے کا مکان برضا و رغبت منظورکے ہاتھ بیچا۔ اس وقت کی قیمت کے مطابق منظور نے شبیر کو نقد ادائیگی کرکے مکان اپنے نام کرا لیا۔ جب قانونی کارروائی مکمل ہوگئی تو شبیر نے درخواست کی اسے ایک مہینہ اسی مکان میں رہنے دیا جائے تاکہ اس عرصے میں وہ کوئی دوسرا مکان تلاش کرسکے۔ چونکہ دونوں ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے اس لیے منظور نے بخوشی اسے اجازت دے دی کہ وہ مکان کا قبضہ ایک ماہ بعد دے دے۔ یہ انتظامات کرکے شبیر شام کو گھر لوٹا تو اس کا نوجوان بیٹا اپنے باپ کو قائل کرنے لگا کہ مکان بیچ کر جو رقم ان کے ہاتھ آئی ہے اس سے کوئی بڑا مکان تو ملنے سے رہا اس لیے بہتر یہی ہے کہ مکان کا سودامنسوخ کردیاجائے۔ شبیر نے اپنے بیٹے کو ڈانٹا کہ اب سارے معاملات طے پانے کے بعد یہ باتیں بے معنی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد بیٹے کے ساتھ ماں بھی مل گئی اور شبیر کو مکان کا سودا واپس کرانے کے لیے رضامند کرنے پر تُل گئی۔ اس بحث مباحثے میں پچیس دن گزر گئے مگر شبیر راضی نہ ہوا۔ اگلے دن اس کا بیٹا کہیں سے ایک شاہ صاحب ایڈووکیٹ کا پتا لے آیا۔ اس نے باپ کو ایک بار ان وکیل صاحب سے ملنے کے لیے رضامندکرلیا۔ دونوں باپ بیٹا شاہ جی کے چیمبر پہنچے اور مکان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے مدد چاہی۔شاہ جی نے شبیر کو ڈانٹا کہ مکان کی رجسٹری کرانے کے بعد کچھ نہیں ہوسکتا ۔ باپ نے اپنے چھوٹے بچوں اور ان کی ماں کی ضد کا رونا رویا تو وکیل صاحب نے بتایا کہ قانون میںبس اتنی ہی گنجائش ہے کہ وہ پانچ چھ سال اسی مکان میں بغیر کرائے کے رہ سکے۔ یہ سن کر شبیر کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس نے شاہ جی کا شکریہ اتنے والہانہ انداز میں اداکیا کہ ان کا دل پسیج کیا اور فرمایا، ''چلو اب بے فکر ہوجاؤ، میری زندگی میں کوئی تمہیں اس مکان سے نہیں نکال سکتا‘‘۔ 
شاہ جی نے اپنی قانونی مہارت استعمال کرتے ہوئے کیس بنایا اور عدالت کے ذریعے منظور کو نوٹس بھجوا دیا کہ وہ اصالتاََ یا وکالتاََ پیش ہو ورنہ اس کے خلاف یک طرفہ فیصلہ کردیا جائے گا۔ منظور پُراعتماد تھا کہ اس نے تمام قانونی تقاضے پورے کررکھے ہیں اور اسے یقین تھا کہ پہلی پیشی میں ہی فیصلہ اس کے حق میں آجائے گا۔ اس اعتماد کے ساتھ وہ مقررہ تاریخ کو عدالت پہنچا لیکن بات اگلی پیشی تک ٹل گئی۔ اگلی پیشی پر وہ پھر عدالت آیا تو معاملہ کسی اور طرف چل پڑا۔ اس کے بعد اگلی پیشی، پھر اگلی پیشی، سول جج کی عدالت، سیشن جج کی عدالت، لوکل کمیشن ، فیصلے، اپیلیں، درخواستیں ، جوابی درخواستیں اور نہ جانے کیا کیا ۔ منظور کو عدالت میں جاکر محسوس ہوا کہ اس نے مکان خرید کر دستورِ پاکستان سے لے کر میونسپل کارپوریشن تک کے ہر قانون کو تہہ و بالا کردیا ہے۔ وقت گزرتا گیا اور منظور کو مکان نہ ملا۔مقدمہ چلنے کے کوئی پچیس برس بعد شبیر مالکِ حقیقی سے جاملااور اس کا بیٹا جس کے بال سفید ہوچلے تھے، مدعی بن گیا۔ ایک سے دوسری عدالت کے درمیان سفر کرتے ہوئے شاہ جی کا بھی وقت آ پہنچا مگر انہوں نے اپنا قول پوری طرح نبھایا، ان کی زندگی میں کوئی مائی کا لعل شبیر یا اس کے خاندان کو اس مکان سے نہیں نکال سکا جسے وہ برضا ورغبت فروخت کرچکا تھا۔ غیر جانبدار وکلاء کا محتاط اندازہ ہے کہ اگر معاملات ٹھیک ٹھاک چلتے رہے تو اگلے دس بارہ سالوں میں اس کا فیصلہ ہوجائے گا۔ 
شبیر بنام منظور کہنے کو ایک چھوٹے سے مکان کے لیے قائم ہونے والا مقدمہ ہے لیکن پینتیس برسوں میں اس مقدمے کی فائل میںلگنے والا ہر قانونی کاغذ دراصل ہمارے نظام انصاف کے بارے میں ایک شہادت کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد اس مقدمے میںیہ بے معنی ہوچکا ہے کہ شبیر نے جھوٹ بولا یا منظور نے جعل سازی کی، بنیادی سوال بس ایک ہے کہ کیا ہمارا نظام عدل کسی کو انصاف دے سکتا ہے؟ جب یہ مقدمہ قائم ہوا تو اس وقت پاکستان جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے تابع تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ضلعی عدالتوں میں منصفوں کی تعداد کئی گنا ہوچکی، ہائیکورٹ میں ججوں کی نشستیں بڑھ گئیں، دستور میں یکے بعد دیگرے چودہ ترمیمیں ہوئیں اگر کچھ نہیں بدلا تو صرف قانون کا وہ ڈھانچہ نہیں بدلا جو انصاف کے راستے میں سوائے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے اور کچھ نہیں کرتا۔ 
عام آدمی کو انصاف کی فراہمی اور قانونی ڈھانچے کے سقم دور کرنے کے لیے کوئی متحرک نہیں پایا جاتا۔ بس ایک ہی بات پر زور دیا جاتا ہے کہ جیسے تیسے بھی ہو نچلی عدالتوں میں ججوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ دس سال پہلے پبلک سروس کمیشن کا مشکل ترین امتحان پاس کرنے والے ترقی کے اہل سول ججوں کو نظر انداز کرکے اس پالیسی کے تحت پنجاب کے وکلاء میں سے ڈیڑھ سوایڈیشنل سیشن جج ضلعوں میں بھرتی کیے گئے ہیں۔ ان اصحاب نے عدلیہ کی نگرانی میں ہونے والا قانون کا ابتدائی امتحان رعایتی نمبروں سے پاس کرلیا ہے۔ تین سو پچاس سول جج بھرتی کیے گئے ہیں تو ان کا امتحان بھی خود عدلیہ نے ہی لیا اور اب حالت یہ ہے کہ ان سول ججوں کو بٹھانے کے لیے ایک کمرے کو تین تین حصوں میں تقسیم کرکے اور پہلے سے موجود فرنیچر نکال کر ججوں کو بانٹا جارہا ہے۔ عدالتوں کے اہلمدوں کے کمرے جو مقدمات کاریکارڈ رکھنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں ، وہ ججوں کے حوالے کیے جارہے ہیں۔ ججوں کی تعداد میں اضافہ کرکے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس سے انصاف کے نظام میں کوئی بہتری آجائے گی تو اس کی فکر کی اس رسائی پر حیرت کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ 
یوں محسوس ہوتا ہے کہ وفاق اور صوبوں کی وزارتیں قانون کی بے معنی چیزبن کر رہ گئی ہیں۔ ججوں کی بھرتی، تبادلوں، ترقی، قابلیت وغیرہ سے متعلق ہر فیصلے سے حکومت بارہ پتھر باہر نکل چکی ہے۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی عدالتوں سے متعلق قوانین پر اس خوف سے بات نہیں کرتے کہ کہیں کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے۔ وکلاء قوانین کی تبدیلی پر زور اس لیے نہیں دیتے کہ ان کی پیچیدگی سے ہی کاروبارِ وکالت چلتا اور چمکتا ہے۔ رہ گئے عدالت اور وکالت کے درمیان بھٹکتے عوام تو انہیں کون پوچھتا ہے۔ بہرحال شبیر بنام منظور کیس‘ اُن لوگوں کے لیے چشم کشا ہے‘ جن کا ایمان ہے کہ انصاف اور تقویٰ ایک ہی ضرورت کے دو نام ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved