''زندگی کے ایک مرحلے پر میرا خیال تھا کہ روحانی تجربے کے بغیر انسان اپنے‘ خدا اور کائنات کے وجود کے معمے حل نہیں کر سکتا۔ اسی بنا پر میں بھی ایک عام انسان کی طرح کبھی کفر اور کبھی ایمان کی سیڑھیاں چڑھتا اترتا رہا اور گمان کیا کہ شاید یہی نشیب و فراز کی راہ میری راہ حیات ہے۔ مگر میں نے اب ایسا سوچنا اسی طرح چھوڑ دیا ہے جیسے چالیس برس لگاتار سگریٹ‘ سگار اور پائپ پینے کے بعد تمباکو پینا ترک کر دیا تھا۔ اور ایسا ترک کیا کہ اب میرے قریب بھی کوئی سگریٹ پی رہا ہو تو میں بیمار ہو جاتا ہوں۔ یہ سب قوت عزم کے کرشمے ہیں۔ اب میرا پختہ ایمان ہے کہ ایسے تمام مسائل ''عقل وجدانی‘‘ کے ذریعے بڑی آسانی سے حل کئے جا سکتے ہیں۔
آیئے! ''عقل وجدانی‘‘ کی روشنی میں غور کرتے ہیں کہ ''کن فیکون‘‘ (بگ بینگ) یا کائنات و حیات کی تخلیق سے پہلے کیا صورت تھی؟ غالب کے مصرعے سے ابتدا کرتے ہیں: کچھ نہ تھا تو خدا تھا... جی ہاں! خدا کے وجود کے بارے میں تمام دلائل تسلیم کر لئے گئے۔ اس کی واحد ذات‘ الفاظ و صفات سمیت ''قدیم‘‘ ہے۔ لیکن اس کے مکاں اور زماں کا تعین کیسے ہو؟ ''مکان الٰہی‘‘ کی تعریف کیا ہے؟ ''زمان الٰہی‘‘ کی تعریف کیا ہے؟ مسلم فلسفیوں کے نزدیک ''مکان الٰہی‘‘ وہ ہے جو سمتوں‘ ابعاد اور فاصلوں کی بندشوں سے آزاد ہو اور تمام متناہیاں اس پر ختم ہو جاتی ہوں اور ''زمان الٰہی‘‘ وہ ہے جو گزرنے یا بہائو کی خصوصیت سے مبرا ہو‘ جس کی تقسیم ہو سکتی ہو نہ ترتیب نہ تغیر‘ نہ آغاز نہ اختتام یعنی ''فوق الدوام حال کی کیفیت‘‘ یا ایسا ''اب‘‘ جو دوامی ہو اور اسی سبب ''ازل و ابد‘‘ کا اطلاق اس پر نہ کیا جا سکے۔ فلسفیانہ زبان میں ان کیفیات کو ''لامکاں‘‘ اور ''لازماں‘‘ کہا جاتا ہے۔ بقول اقبال ؎
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں‘ نہ مکاں! لاالہ الا اللہ
عقل وجدانی کی روشنی میں خدا کی ذات‘ فطرت اور عمل کی نوعیت کیا ہے؟ جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے کیا ہم اسے واحد و لاشریک شخصیت کے طور پر تصور کر سکتے ہیں؟ اس مسئلہ پر میرا جواب وہی ہے جو علامہ اقبال نے دے رکھا ہے : کہ خدائے اسلام اپنے نام سے پکارا جانا پسند کرتا ہے... ''اللہ۔‘‘ گویا وہ خود اپنے آپ کو ایک ''عنصر‘‘ یا ''اصول‘‘ سمجھنے کی بجائے ''شخصیت‘‘ تصور کرتا ہے۔ اس کا کوئی جسم نہیں‘ نہ ذات کے لئے کوئی جگہ ہے‘ نہ وسعت۔ مگر بلا تجسیم وہ ایسی شخصیت ہے جو اپنی تخلیقی فعلیت کی ممکنات میں جو اس کے وجود کے اندر مضمر ہیں‘ لامتناہی ہے یا شدت احساس تخلیقی کی ممکنات میں گہرائی کے اعتبار سے لامحدود ہے۔ بقول اقبال ''شخصیت‘‘ کے حوالے سے محدود کی اصطلاح خدا کی ذات کے بارے میں صرف خاص معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ باطنی اعتبار سے خدا کے وجود کے اندر تخلیقی فعلیت کی ممکنات اگر لامتناہی ہوں تو ایسی وسعت کو گہرائی ہی کہا جا سکتا ہے‘ جو لامحدود ہے۔ اقبال اپنے نقطہ نگاہ کی وضاحت قرآن مجید کی سورۃ نور: آیت 35کی روشنی میں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنی ذات کے متعلق فرمان ہے:
''اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ مثال اس نور کی ایک طاق کی سی ہے‘ جس میں ایک چراغ کا شعلہ روشن ہو‘ ایسا چراغ جو ایک شیشے کی قندیل میں پڑا ہو اور قندیل گویا ایک چمکتا ہوا ستارہ ہو۔‘‘
اقبال اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں:
''اس آیت کے ابتدائی حصے سے تو بے شک یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ذات الٰہیہ کو انفرادیت سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ لیکن جب ہم اس استعارے کا تاآخر مطالعہ کرتے ہیں تو یہ امر واضح طور پر سامنے آ جاتا ہے کہ اس کا مقصد اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس لئے جوں جوں استعارہ آگے بڑھتا ہے‘ اس خیال کی نفی ہو جاتی ہے کہ ذات الٰہیہ کا قیاس کسی لاصورت کونی عنصر پر کیا جائے‘ کیونکہ اول تو اس استعارے نے نور کو شعلے سے مرتکز کر دیا اور پھر اس کی انفرادیت پر مزید زور اس طرح دیا کہ یہ شعلہ ایک شیشے کی قندیل میں ہے اور قندیل ستارے کی مانند‘ جس سے ظاہر ہے ایک مخصوص اور متعین وجود۔‘‘ (تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ ترجمہ نذیر نیازی۔ص97)
پس اقبال کے نزدیک اللہ ایک ایسی یکتا ''شخصیت‘‘ ہے جو شدت احساس تخلیقی کی ممکنات میں گہرائی کے اعتبار سے لامحدود ہے۔ البتہ اسے جسم کے بغیر ایک مخصوص اور متعین وجود سمجھا جا سکتا ہے‘ اس سے گلہ شکوہ کیا جا سکتا ہے‘ اس سے جھگڑا جا سکتا ہے‘ اس سے محبت کی جا سکتی ہے‘ اس سے گڑگڑا کر مانگا جا سکتا ہے‘ وہ سب سنتا ہے‘ دیکھتا ہے‘ اپنے ہاتھوں سے دیتا ہے۔ (شاید اسی بنا پر بعض صوفیہ اللہ تعالیٰ کی تجسیم کے بھی قائل تھے اور ابن عربی نے تو ''فصوص الحکم‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی شخصیت کی مونث جہت یا نسوانی پہلو کو بھی منکشف کیا جسے کئی خواتین صوفیہ نے اپنایا اگرچہ علماء نے بدعت قرار دے کر اس نظریہ کو مسترد کر دیا)۔
خدا کی فطرت کیا ہے؟ حدیث قدسی کے مطابق اللہ کا فرمان ہے: ''میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ جانا جائوں۔ میں نے کائنات و حیات تخلیق کی تاکہ پہچانا جائوں۔‘‘ اسی حدیث قدسی کی بنیاد پر اقبال خدا کو ''خودی مطلق‘‘ قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ ان کے ہاں خودی سے مراد انکشاف ذات ہے‘ اس لئے خدا کی فطرت اپنی تخلیقی فعلیت کی لامتناہی ممکنات کو مسلسل منکشف کرتے چلے جانا ہے۔
انکشاف ذات کی خاطر خدا کی تخلیق کا طریق کار کیا ہے؟ اس کی وضاحت قرآن مجید میں ''خلق‘‘ اور ''امر‘‘ کی صورتوں میں کر دی گئی ہے۔ ''خلق‘‘ سے مراد کسی شے کو وجود میں لانا ہے اور ''امر‘‘ سے مراد اسے کوئی مخصوص حکم دینا ہے۔ مثلاً کسی سیارے کو وجود میں لانے کا عمل ''عالم خلق‘‘ کے زمرے میں آئے گا اور اس کا اپنے مدار پر کسی مخصوص تنظیم کے تحت گردش کرنا‘ حرکت کرنا‘ تحلیل ہو جانا‘ دوبارہ کسی نئی شکل میں وجود میں آنا یا عدم وجود میں چلے جانے کا عمل ''عالم امر‘‘ کے زمرے میں آئے گا۔
''عقل وجدانی‘‘ منکشف کرتی ہے کہ خدا کی ذات‘ صفات اور الفاظ کے علاوہ سب کچھ ''حادث‘‘ ہے۔ عین ممکن ہے کہ سب سے پہلے خدا نے اپنے احکام کی بجاآوری کی خاطر نور کے عنصر سے فرشتے تخلیق کئے ہوں۔ اس کے بعد نار(آگ) سے جن بنائے گئے ہوں۔ چونکہ ابلیس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ نار سے وجود میں لایا گیا اور خدا کے احکام کی تعمیل کرنے میں فرشتوں سے پیچھے نہ تھا۔ کائنات یا کائناتوں کی تخلیق سے پیشتر خلا وجود میں لایا گیا ہو گا اور یوں وہ مرحلہ آ گیا جب ''کن فیکون‘‘ (جسے آج کے سائنس دان ''بگ بینگ‘‘ کہتے ہیں) کے حکم کے تحت کائنات یا کائناتیں وجود میں لائی گئیں۔ قرآن مجید کی روشنی میں خدا کے تخلیقی عمل کی مدت کا اندازہ کیاجا سکتا ہے۔ مثلاً ارشادہوتاہے کہ ہم نے سب اشیاء کو ایک تقدیر کے مطابق تخلیق کیا۔ یا ہمارا حکم ایک ہے‘ آنکھ جھپکنے (کلمح البصر) کی طرح تیز۔ یا یہ کہ اس نے پیدا کیا آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں (ستہّ ایام) میں۔ گویا یہ عمل آج کی فلسفیانہ اصطلاحوں کے مطابق دو مختلف نوع کے ''زماں‘‘ (وقت) میں ہوا۔ یعنی ''دوران خالص‘‘ اور ''زمان مسلسل‘‘۔
ایک سائنسی مفروضے کے مطابق ''بگ بینگ‘‘ کا حادثہ اب سے تقریباً دس ہزار ملیون برس پیشتر وقوع پذیر ہوا۔ اس مفروضے کے مطابق یا تو کئی کائناتیں وجود میں آئیں (قرآن مجید میں اوپر نیچے سات آسمانوں کا ذکر ہے) یا ایک ہی کائنات کے کئی حصے ہو گئے اور ہر حصہ اپنی مخصوص تقدیر یا تنظیم کے تحت متحرک ہوا۔ اسی مفروضے کی بنا پر ہمارے نظام شمسی کی عمر پانچ ہزار ملیون سال بیان کی جاتی ہے اور ارض پر حیات کی مختلف قسموں کے وجود میں آنے یا ارتقائی مراحل سے گزرنے کے عمل کو تین ہزار ملیون برس لگے۔
کاسمولوجسٹوں کا قول ہے کہ چونکہ کائنات ایک منظم کائنات ہے اس لئے اس کا انتظام کرنے والی یقینا کوئی عقلمند ہستی ہے۔ اسی طرح ان کی سوچ ہے کہ جب تک وہ عقلمند ہستی مداخلت نہ کرتی ارض جیسے مادی سیاروں میں کسی قسم کی حیات کا وجود میں آنا ممکن نہ تھا۔ کائنات کی ساخت کے متعلق اسلامی فلسفہ میں اشاعرہ کا تصور جدید فلسفہ کی زبان میں ''جوہری‘‘ یا ''اٹامک‘‘ ہے۔ ان کے بقول مادی کائنات ایسے ذرات سے بنی ہے جنہیں وہ ''جزولایتجزیٰ‘‘ (ایسا جزو جس کا آگے تجزیہ ممکن نہیں) کا نام دیتے ہیں۔ کیونکہ ہر ذرہ یا جوہر کسی انجانی قوت کے سبب متحرک ہے اس لئے کائنات بے حس و حرکت یا ناقابل تغیر و تبدل نہیں‘ بلکہ اس میں مزید اضافے کے ذریعہ وسعت کی گنجائش ہے۔ ہر لحظہ نئے نئے جواہر عدم سے وجود میں لائے جاتے ہیں اور کائنات میںاضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اس جوہری عمل کی ذہنی یا مشاہداتی تصویر قائم کرنا مشکل ہے۔ البتہ اس تصویر کی تائید کے لئے اقبال قرآنی سورۃ الحجر: آیت 21پیش کرتے ہیں جس میں اللہ کاارشادہے:
''یہاں ایک ہی شے نہیں‘ بلکہ ہمارے یہاں خزانے بھرے پڑے ہیں اور ہم ان کو نازل نہیں کرتے‘ بلکہ ایک مقررہ حد تک۔‘‘
عجیب بات تو یہ ہے کہ جدید طبیعیات بھی مشاہدے کے ذریعے کچھ اسی قسم کے نتائج پر پہنچی ہے۔ گویا عالم طبیعی میں ہر مقدار کے اصل ''ایٹم‘‘ کا تصور بھی بطور کسی قسم کی حرکت یا عمل ہی کیا جا سکتا ہے اور اس عمل کی ذہنی تصویر کھینچنا ممکن نہیں۔
آدم کی تخلیق کے بارے میں مولانا رومی تو کرہ ارض پر ارتقائے حیات کے اصول کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں غیب سے جب کسی عقلمند ہستی نے ارض پر حیات کا ''بیج‘‘ پھینکا تو حیات ارتقاء کے مختلف مراحل (نباتاتی‘ حیوانی وغیرہ)سے گزرتی انسان تک پہنچی اور ارتقاء یہیں ختم نہیں ہو گی بلکہ فکری یا تخلیقی ارتقاء کے ذریعے بہتر سے بہترین مخلوق کی صورت اختیار کرتی چلی جائے گی۔ مولانا فرماتے ہیں کہ جب ہم کسی باغ میں سبزہ‘ پودے‘ پھول دیکھ کر یا درختوں کی گھنی چھائوں میں بیٹھ کر فرحت محسوس کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ دور کے رشتہ داروں اور عزیزوں سے مل کر ہمیں خوشی کا احساس ہو رہا ہے۔ یہی کیفیت معصوم پرندوں یا بے زبان جانوروں سے محبت کرنے پر طاری ہوتی ہے۔ کیونکہ یہ سب ہمارے اجداد میں سے ہیں۔‘‘(جاری)