تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-10-2015

کب تک؟

فوجی قیادت کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سول حکمران بے حس ہیں۔ کب تک یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہے گا‘ کب تک؟۔
ہر روز ایک نئی افواہ پھیلتی ہے۔ ہر روز ایک نیا شوشہ۔ حکومت اپنی مدت پوری نہ کر پائے گی۔ تبدیلی آنے والی ہے۔ معلوم نہیں ان افواہوں میں کتنی صداقت ہے۔ اب تک صرف یہ ہوا کہ دہشت گردی اور خارجہ پالیسی پرپالیسیوں کی تشکیل میں عسکری قیادت کا عمل دخل بڑھ گیا ہے۔ ایک بات البتہ واضح ہے کہ بے چینی بہت ہے۔ دہشت گردی اگرچہ کم ہوگئی مگر باقی ہے۔ کرپشن نے لوٹ مار کی شکل اختیار کرلی ہے۔ انصاف فراہم کرنے کی ریاست کی صلاحیت اور بھی کم ہو گئی۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا ہے کہ سرے سے اس کا وجود ہی نہیں۔ کوئی فرد ستم کا شکار ہو تو وہ وزیراعلیٰ شہبازشریف سے اپیل کرتا ہے۔ کوئی طبقہ زیادتی کی تاب نہ لا سکے تو ہڑتالوں اور ہنگاموں کا سہارا لیتا ہے۔ مسائل حل کرنے کا کوئی نظام گویا موجود ہی نہیں۔ پٹوار وہی سفاک ہے‘ پولیس وہی بے مہر اور افسر شاہی بھی۔ ایوب خان کے عہد تک جسے آئینی تحفظ حاصل تھا۔ اب مگر وہ حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہے۔ نیب اور ایف آئی اے جیسے ادارے لاچار نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں جو سرگرمی دیکھنے میں آئی‘ اس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشارۂ ابرو کا نتیجہ ہے۔ نندی پور ہو‘ ایل این جی کی قیمت کا مسئلہ یا ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا مشکوک اور متنازع منصوبہ‘ حکومت کو ہرگز کوئی پروا نہیں۔ ترقیاتی منصوبے وہ اپنی مرضی سے بناتے ہیں‘ خاص طور پر میٹرو ایسے میگا پروجیکٹس۔ اداروں کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے وزراء کرام کے انتخابی مہم میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی مگر ٹی وی کیمروں کے سامنے وہ دندناتے پھر رہے ہیں۔ شاعر نے کہا تھا: توڑ دی بندوں نے آقائوں کے خیموں کی طناب، مگر یہاں تو خود آقا بھی قانون کے باغی ہیں۔
کوئی مانے یا نہ مانے‘ واقعہ یہ ہے کہ 1973ء میں طے کردہ آئینی بندوبست ناکام ہو چکا ہے۔ پارلیمانی نظام اس ملک کو سازگار نہیں۔
ملک کو شاید ایک نئے آئینی بندوبست کی ضرورت ہے۔ شاید صدارتی نظام‘ چھوٹے صوبے اور براہ راست منتخب کئے جانے والے گورنر۔ اگر واقعی ملک کو یہ تبدیلی درکار ہے تو وہ شائستہ آئینی اور جمہوری انداز میں بروئے کار آنی چاہیے۔ فوجی مداخلت سے ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ عسکری قوت کے بل پر قائم کردہ نظام بظاہر کتنا ہی مضبوط اور مستحکم نظر آئے بالآخر شکست و ریخت کاشکار ہوتا ہے۔ ملک نے تین بار نسبتاً زیادہ تیزی سے اقتصادی ترقی کے مراحل طے کیے۔ جنرل محمد ایوب خان‘ جنرل محمد ضیاء الحق اور آخری بار جنرل پرویزمشرف کے ادوار میں۔ مشکل مگر یہ ہے کہ فوجی اقتدار میں جو کچھ تعمیر ہوتا ہے‘ آخرکار احتجاج کی نذر ہو جاتا ہے۔ 
ادھر سیاسی پارٹیوں کا حال یہ ہے کہ روزمرہ امور نمٹانے میں بھی وہ ناکام ہیں۔ ملک کی تقدیر بدلنے کا وہ دعویٰ کرتے ہیں مگر عدالت‘ تھانے‘ سکول اور ہسپتال کو بہتر بنانے کی ایک ذرا سی کوشش بھی نہیں کرتے۔ میٹرو بس حاضر ہے‘ اورنج ٹرین اور دانش سکول‘ مگر تباہ حال سول اداروں کو بہتر بنانے کی کوشش نہ کی جائے گی۔ حکمران دھڑلے سے کاروبار کرتے اور دھاندلی سے حاصل ہونے والی دولت بیرونِ ملک منتقل کرتے رہیں گے۔ کیا کسی اور ملک میں یہ تماشا ممکن ہے کہ جو پارلیمانی کمیٹی پیپلزپارٹی کے دور میں ہونے والی مالی بے قاعدگیوں کا جائزہ لے رہی ہے‘ اس کے سربراہ اسی پارٹی کے لیڈر خورشید شاہ ہیں۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ اسلام آباد کے لیے جعلی سکینر منگوانے والے رحمن ملک سے پوچھنے والا بھی کوئی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے ان کے قریبی مراسم ہیں‘ جو مفاہمت کے نئے چیمپئن ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اپنے آقائوں کی سرپرستی میں کھربوں کی کرپشن کرنے والے ڈاکٹر عاصم سے بھی بالآخر رینجرز نے پوچھ گچھ کا آغاز کیا ہے۔ جہاں تک شریف حکومت کا تعلق ہے‘ اگر اس کا بس چلتا تو وہ آزاد گھوم رہے ہوتے۔ رہے زرداری صاحب تو ان پر ہاتھ ڈالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ زرداری صاحب تو رہے ایک طرف کوئی شرجیل میمن کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ سارا ملک ان کے کارناموں سے واقف ہے‘ اگر نہیں تو جناب زرداری اور نوازشریف نہیں۔
ڈاکٹر عاصم کا پیپلزپارٹی سے کوئی تعلق نہیں۔ زرداری صاحب کے وہ دوست تھے؛ چنانچہ سینیٹر بنا دیئے گئے۔ یہی بنیادی مسئلہ ہے۔ جمہوریت کا سب سے اہم ادارہ پارلیمنٹ نہیں بلکہ مہذب اور شائستہ سیاسی پارٹیاں ہیں۔ تعصب سے پاک‘ روادار اور ریاضت کیش‘ نچلی سطح تک جن میں انتخابات ہوں‘ جو اپنے کارکنوں کو تربیت دیں۔ پیشہ ورانہ ماہرین کی مدد سے اقتصادی‘ زرعی‘ انتظامی اور سیاسی امور پر قابل عمل منصوبے مرتب کریں۔ بلوچستان کا مسئلہ کیا ہے اور کس طرح حل ہو سکتا ہے؟ کراچی میں دہشت گردی سے کس طرح نمٹا جا سکتا ہے؟ افسر شاہی کو جدید تقاضوں سے کیونکر ہم آہنگ کیا جائے؟ پولیس اور سول انٹیلی جنس کو کس طرح بہتر بنایا جائے؟ ٹیکس وصولی کو بیس فیصد کی سطح تک لے جانے کے لیے ایف بی آر کی تشکیل نو سمیت کون کون سے اقدامات کئے جائیں۔ فی الجملہ سول ادارے کس طرح مضبوط ہوں کہ ملک کے سیاسی اور معاشی استحکام کی ضمانت دیں۔ پولیس اور سول سروس قانون کے دائرے میں جب آزاد ہوگی۔ جب 5000ارب روپے سالانہ ٹیکس وصول کیا جا رہا ہو گا۔ عدالت جب انصاف مہیا کر رہی ہوگی‘ تبھی یہ اہداف حاصل ہوں گے۔ معاشی طور پر آزاد ایک ملک ہی آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دے سکتا ہے۔
1947ء میں جب نیا ملک وجود میں آیا تو بنیادی طور پر یہ حکمران طبقات اور مفلس اکثریت پر مشتمل تھا۔ خال خال درمیانے طبقے کا کوئی آدمی۔ کچھ سرکاری افسر‘ کچھ چھوٹے کاروباری۔ آج یہ ایک مختلف معاشرہ ہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود دو کروڑ افراد پر مشتمل درمیانہ طبقہ وجود میں آ چکا ۔ کراچی شہر کی آبادی دو کروڑ اور لاہور کی اب ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ زمانہ بدل گیا اور حالات کے تقاضے بھی۔ حکمران طبقہ مگر حکمرانی
کا وہی انداز برقرار رکھنے پر مصر ہے بلکہ اس سے بھی بدتر۔ قائد اعظم کی تو خیر بات ہی دوسری ہے۔ وہ امانت و دیانت کا پیکر تھے۔ ایسے لوگ استثنیٰ کے طور پر پیدا ہوتے ہیں ۔ صاحب علم‘ ریاضت کیش اور متوکل‘ ایک عظیم سیاسی مدبر۔ کیا لیاقت علی خان‘ خواجہ ناظم الدین ‘ حسین شہید سہروردی ‘ چودھری محمد علی‘ آئی آئی چندریگر ‘ فیروز خان نون ‘ ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل محمد ضیاء الحق یہ تصور بھی کر سکتے تھے کہ اقتدار میں براجمان رہتے ہوئے اپنے ذاتی کاروبار کو فروغ دیں۔ اپنی اولادوں کو اس کاروبار میں شریک کریں اور لوٹ مار سے حاصل ہونے والی آمدن سمندر پار بھیجتے رہیں؟ 
ملک کو ایک نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔ آئین کی بالادستی اور قانون کی بالاتری کے ساتھ۔بنیادی تبدیلیوں کی۔ غضب خدا کا مدارس رجسٹریشن کرانے سے انکار کرتے ہیں اور این جی اوز دنیا بھر سے عطیات بٹورتی ہیں۔ میڈیا من مانی کاارتکاب کرتا ہے اور کرپشن سے حاصل کی جانے والی دولت دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں اپنے مسلح ونگ تشکیل دیتی ہیں‘پھر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنا دفاع کرتی ہیں کہ دوسرے بھی تو اس کے مرتکب ہیں۔
جی نہیں‘ یہ سلسلہ بہت دن چل نہیں سکتا۔ سیاسی جماعتیں عہد نو کے تقاضوں کا اگر ادراک نہ کریں گی تو تبدیلی کی لہر کہیں اور سے اٹھے گی۔ سول سوسائٹی سے نہیں تو فوجی بیرکوں سے؛ اگرچہ دوسرا قرینہ تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اب تک ہر فوجی انقلاب مثبت تبدیلیاں برپا کرنے میں ناکام رہا۔
فوجی قیادت کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور سول حکمران بے حس ہیں۔ کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا‘ کب تک؟۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved