انور بیگ آخر بول پڑے ہیں۔ جب وہ بینظیر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کے چیئرمین تھے، انہوں نے بارہ خطوط وزارت خزانہ کو لکھے کہ خدا را عالمی اداروں سے قرضہ لینا بند کریں، ہمیں بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ انور بیگ کی اس پریشانی کی وجہ ایک مغربی سفارت کار سے ملاقات تھی جس نے خبردار کیا تھا کہ وہ اپنے ملک کے حکمرانوں کو سمجھائیں، اندھا دھند بیرونی قرضے نہ لیں، ایک دن انہیں اس کی بھاری قمیت ادا کرنی پڑجائے گی۔ انور بیگ کے خیال میں وہ بھاری قمیت یہ ہوگی کہ جب پاکستان کا قرضہ اسی ارب ڈالر کے قریب پہنچے گا، جو اب ساٹھ ارب ڈالر ہے، تو پاکستان کے لیے اسے ادا کرنا ممکن نہیں رہے گا، اس لیے کہ اب بھی پاکستان قرض لے کر قرضہ ادا کر رہا ہے۔ اُس وقت یا تو یہ نیوکلیئر ملک اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دے دے گا یا پھر دنیا کی شرائط مان کر اسی ارب ڈالرمعاف کرائے گا۔ انہیں اندیشہ ہے کہ دنیا ایک ہی شرط پر قرضہ معاف کرے گی کہ پاکستان اپنا نیوکلیر پروگرام ختم کردے۔
انور بیگ کے پاس پاکستان کو قرضوں کے جال سے چھڑانے کے لیے ایک ہی منصوبہ تھا جسے سابق صدر آصف زرداری کے پاس لے کر گئے تھے کہ بھٹوکی طرز پر چھ لاکھ پاکستانی مین پاورکو باہر بھیجا جائے، وہ ہر ماہ ایک ارب ڈالر ملک کو بھیج سکیں گے اور اس صورت میں آئی ایم ایف سے قرضوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن رخسانہ بنگش نے الٹا انور بیگ کو صدر زرداری کا یہ پیغام دیا کہ وہ ان کے سامنے رنگیں ٹائیاں پہن کر نہ آیا کریں۔ خود دارانور بیگ پھر زرداری کے دربار میں نہیںگئے۔ آصف زرداری اپنی پارٹی کے لیڈروںکو اس کے منہ پرکیا کیا لقب دیتے تھے، وہ سن کر سب کے کان سن ہوجاتے لیکن سیاست کی اپنی مجبوریاں تھیں، سب سر جھکائے خاموشی سے سنتے رہتے۔ سب جانتے تھے، برگد کے اسی پیڑکے نیچے بیٹھنے سے ہی نروان ملے گا۔
انور بیگ سے نواز لیگ نے رابط کیا، عمران خان سے بھی ملاقات ہوئی۔ شاید انور بیگ شہباز شریف کے نعرے سن کر امید لگا بیٹھے تھے کہ وہ سب ٹھیک کر دیں گے، جنہوں نے ملک لوٹا ہے انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا، شریف برادران واقعی ملک کو چلانے کے لیے سنجیدہ ہیں۔ چنانچہ مسلم لیگ نون میں آ گئے اور مین پاورایکسپورٹ کا وہی منصوبہ شریف برادران کو پیش کیا۔ انہیں یہ بھی بتایا کہ وہ کیسے پاکستانیوںکو قطر میں کھپا سکتے ہیں، جہاں فٹبال ورلڈ کپ کے لیے تیاریاں جاری ہیں ۔ حسب عادت شہباز شریف شروع میں بڑے جذباتی ہوئے مگر پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ نواز شریف نے مین پاور سے متعلق کام لینے کی بجائے انور بیگ کو بینظیر بھٹو پروگرام کا سربراہ بنا دیا۔ پھر بھی وہ خط لکھتے رہے۔ ایک دن بادشاہ سلامت ناراض ہوگئے اورانور بیگ بدوکی طرح خیمے سے باہر جبکہ اونٹ اندرگھس گیا۔
اب انور بیگ بول پڑے ہیں۔ کہتے ہیں مہنگے قرضوں سے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کو خطرہ ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ قرضہ لے کر زر مبادلہ کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے۔ قوم کو مبارکباد دی جا رہی ہے کہ بیس ارب ڈالراکٹھے ہوگئے ہیں۔ جنرل مشرف سے لے کر شوکت عزیز اور زرداری سے لے کر اب نواز شریف‘ اسحاق ڈار اور ان کے کے وفادار سیکرٹری فنانس ڈاکٹر وقار مسعود فرما چکے ہیںکہ ایک سال بعد جب آئی ایم ایف سے پچھلے سال لیا گیا ساڑھے چھ ارب ڈالرکا قرضہ خرچ ہوجائے گا تو پھر وہ ایک نیا قرضہ لیںگے۔
اب پتا چلا، اسحاق ڈار نے یورو بانڈزپر تاریخ کے مہنگے ترین منافعے کی پیشکش کر کے ملک پر مزید قرضہ کیوں چڑھا دیا ہے۔ بھارتی پرائیویٹ کمپنی نے 750 ملین ڈالر 2.5 فیصد پرجبکہ ڈار صاحب نے 500 ملین ڈالر 8.25 فیصد پر لیا۔ سب کی چیخیں نکل گئیں، یہ کیا کھیل کھیلا گیا! کون کون بیرون ملک رکھا کالا دھن سفیدکرکے منافع بھی کما رہا ہے؟
شریف خاندان کے ایک اہم فرد نے ٹوئٹر پر نواز شریف اور اسحاق ڈار کو مبارکباد دی کہ اس وقت پاکستانی تاریخ میں پہلی بار بیس ارب ڈالرکا زر مبادلہ ہو چکا ہے۔اس سادگی پر کیا کہا جائے! مہنگا ترین قرضہ لے کر بڑھکیں مارنا کہاںکا رواج ہے! دنیا بھر میں فارن ریزرو بڑھانے کے تین طریقے ہوتے ہیں۔۔۔۔ایکسپورٹ، بیرون ملک پاکستانیوںکی ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری۔ اگر یہ سب نہ ہو رہا ہو تو آپ بیرونی قرضہ لیتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس وقت پہلی تین باتیں نہیں ہورہیں، صرف بیرونی قرضہ لیا جا رہا ہے جس پر ہم نے نعرے مارے کہ فارن ریزرو بڑھ گئے۔ اگر مہنگے ترین بیرونی قرضے لے کر آپ ریزرو بڑھائیں گے تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
جب تنقید بڑھی تو اسحاق ڈار فرمانے لگے اگر انہوں نے تاریخ میں مہنگے ترین یورو بانڈز نیویارک میں ایک دکان لگا کر بیچے ہیں تو اس میں ان کا قصور نہیں۔ انہوں نے تین لوگوں یا وجوہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ پہلے تو یہ وزیر اعظم نواز شریف کا حکم تھا کہ اب پاکستان کی معیشت بہت بہتر ہوگئی ہے، لہٰذا عالمی سطح پر اس کا امتحان لیا جائے۔ نواز شریف کو یقین تھا، پوری دنیا بھاگ کر یہ بانڈخریدے گی کیونکہ انہیں یہ بھی یقین تھا کہ انہوں نے پاکستانی کی معیشت درست کر دی ہے۔ تاہم پتا چلا کوئی بھی پاکستانی بانڈز خریدنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ عالمی مارکیٹ کے مایوس کن ردعمل پرڈار صاحب فرماتے ہیں کہ دراصل چینی کرنسی کی قیمت کم ہونے سے عالمی مارکیٹ خراب ہوگئی جس کے باعث ان کے بانڈ نہیں بکے اور جو بکے وہ مہنگے ترین ریٹ پر۔ مارچ 2014 ء میں پاکستان کو چھ ارب ڈالرکی پیشکشں ہوئی تھی جبکہ اب صرف ایک ارب ڈالر سے بھی کم کی پیشکشں ہوئی حالانکہ ریٹ بہت زیادہ تھا۔
اگرچہ حفیظ پاشاکبھی اسحاق ڈار کی پالیسوں کے سخت ناقد تھے لیکن جب سے ان کی بیگم پنجاب کی وزیرخزانہ مقرر ہوئیں وہ خاموش تھے؛ تاہم اب وہ بھی بول پڑے ہیںکہ یہ قرضہ نہ صرف مہنگا ہے بلکہ غلط وقت پر لیا گیا ہے۔ شاہدکاردار حیران ہیں کہ اسحاق ڈار نے یہ کیا حرکت کی ہے۔ ڈاکٹر اشفاق حسن خان فرماتے ہیں، اس سے زیادہ غلط وقت پر اس قدر غلط قرضہ اورکوئی نہیں ہوسکتا، اس سے پاکستان ڈوبتاجائے گا۔ وہ تو یہاں تک کہہ گئے کہ اسحاق ڈار اور ان کی ٹیم نے وزیر اعظم کو معیشت کی غلط تصویر پیش کی۔
چند روز پہلے آئی ایم ایف نے کہا تھا کہ پاکستانی معیشت ترقی کر رہی ہے، سب کچھ ٹھیک ہے۔ واقعتاً اگر سب کچھ ٹھیک ہے تو پھر عالمی سرمایہ داروں نے پاکستانی بانڈز خریدنے میں دلچسپی کیوں نہیں دکھائی جبکہ بانڈزتاریخ کے مہنگے منافعے پر پیش کیے جارہے ہیں؟ کیا آئی ایم ایف پاکستان کو اندھیری گلی کی جانب لے جا رہی ہے جس کا خدشہ انور بیگ نے ظاہرکیا ہے کہ اس ملک کو قرضوں میں اس طرح جکڑ دو کہ کل کو اپنی مرضی پر یہ سب قرضے سیٹل ہوں۔ ہمارے بیوروکریٹس محض عہدوں کے لیے ملک کو اتنے خطرناک راستے پر کیوں ڈال رہے ہیں؟کیا اس لیے کہ ان سب کے بچے بیرون ملک رہتے ہیں اور وہیں کاروبار کرتے ہیں؟ ہم ساٹھ سے اسی ارب ڈالرکے قرضے کیسے واپس کریں گے جبکہ ہماری برآمدات 24 ارب ڈالر سے نہیں بڑھ پا رہیں۔ درآمدی بل 44 ارب ڈالر ہے۔گیپ بڑھتا جارہا ہے۔ ہر سال پاکستان کو پانچ ارب ڈالرکا قرضہ درکار ہے۔ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ گر رہی ہے،کسی کو پروا نہیں ۔ عالمی ادارے کہتے ہیں آپ برآمدات بڑھائیں یا مین پاور کے ذریعے اپنے ریزرو بہتر کریں، ہم آپ کو قرضہ دیں گے۔
یہ بات طے ہے کہ اسحاق ڈار اور ان کے قابل سیکرٹری ڈاکٹر وقار مسعود پاکستان کو بدترین حالت میں لے آئے ہیں۔ انور بیگ کا ضمیر زیادہ برداشت نہیں کرسکا۔ انہوں نے اپنے چاروں بچوںکو بیرون ملک پڑھنے کے لیے ضرور بھیجا، لیکن کسی کو سبز پاسپورٹ تبدیل نہیںکرنے دیا ۔سب کو واپس بلایا، سب یہیں رہتے ہیں۔انور بیگ نے اپنا سیاسی کیریر دائو پر لگا کر خبردارکیا ہے کہ پاکستان بربادی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ انور بیگ سیاستدان نہ بن سکے، وہ دوسرے سیاستدانوں کی طرح ذاتی مفاد پر ملکی مفاد قربان کرنے کے دائو نہ سیکھ سکے، دوسروں کی طرح زرداری سے جھڑکیاں کھا کر ہنسنا نہ سیکھ سکے، نواز شریف کی خوشامدکرنا نہ سیکھ سکے۔ لگتا ہے اب ایک اور پارٹی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ نواز شریف اور اسحاق ڈارکب برداشت کریں گے کہ کوئی ٹی وی پر بیٹھ کر کہے کہ ان لوگوںنے مل کر پاکستان کو تاریخ کے بدترین اور مہنگے تریں قرضوں کی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ شاید فراز نے انور بیگ کے بارے میں ہی کہا تھا:
یہ کیا کہ سب سے بیان دل کی حالتیں کرنی
فراز تجھ کو نہ آئیں محبتیں کرنی۔۔۔۔!