تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     07-10-2015

خسارہ

اب اس سے بڑا خسارہ کیا ہوگا !اقبال کے فرزند کا زمانہ گزر گیا۔ ہم اقبال سے زمانی طور پر اور دُور ہوگئے۔ معنوی لحاظ سے ہم پہلے ہی دُور تھے ۔ مگر یہ تو تھا کہ فرزند اقبال ہم میں موجود تھے۔ ہمارا فکری سہارا تھے۔ ہمارا نفسیاتی سہارا تھے ۔ پورے عہد کی عزت تھے، ہم کہتے تھے ہم نے اقبال کا زمانہ نہیں دیکھا مگر ان کے فرزند کے زمانے میں زندہ ہیں۔پہلے اُن افراد کی تلاش ہوا کرتی تھی جنہوں نے اقبال کو دیکھا ور سنا ۔ اب لوگ حسرت سے انہیں ڈھونڈیں گے جنہوں نے اقبال کو دیکھا اورسنا۔
ڈاکٹر جاوید اقبال اُن لوگوں میں سے تھے جنہیں زمین کا نمک کہا گیا ہے۔ مقدار میں کم ، اہمیت میں دوچند ۔ روٹی میں نمک نہیں تو قورمے اور کباب سب بیکار ہیں! مگر افسوس ! صدا افسوس ! نمک کسی کو نظر نہیں آتا ۔ اہل لاہور کو یاد ہوگا جب ذوالفقار علی بھٹو کے مقابلے میں فرزند اقبال انتخابات ہارے تھے ۔ آج ذوالفقار علی بھٹو کی میراث میں ڈاکٹر عاصم جیسوں کے اسمائے گرامی ہیں جن کے لیے وضاحتیں اس قسم کی جاری ہورہی ہیں کہ فلاں ادارے سے روزانہ دوارب نہیں صرف دو کروڑ روپے وصول کرتے تھے۔ اے اہل لاہور! غور کرو ! آج تمہارے لیے عزت کا نشان کون ہے ؟تمہارے لیے فخر کا باعث کون ہے ؟ ساری دنیا کے اہل علم ، بڑی بڑی یونیورسٹیاں، نامی گرامی مستشرق ، سب جاوید اقبال کے جانے کا ماتم کررہے ہیں! بھارت کے طول و عرض میں غلغلہ برپا ہوا ۔ اے اہل لاہور ! کیا یہ سچ نہیں کہ ع
کوئی رومی‘ کوئی غالب‘ کوئی اقبال پیدا کر
کہ شہروں کی بڑائی ان کے میناروں سے ہوتی ہے ۔کتنا عظیم الشان فیصلہ کیا تھا ڈاکٹر جاوید اقبال نے جب ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی تھی اورنہیں کہا تھا۔ یہ ''نہیں‘‘ اُسی شخص کا فرزند کرسکتا تھا جو گھر کا نان نفقہ پورا ہوجانے پر مزید مقدمے لینے سے انکار کردیتا تھا اور جو عمر بھر ڈرائنگ روم کے صوفوں کو نئی شکل نہ دلواسکا۔ جاوید اقبال درویش تھے ۔ان کے والد نے کہا تھا ؎
قوموں کی تقدیر وہ مرد درویش 
جس نے نہ ڈھونڈی سلطان کی درگہ 
وہ چاہتے تو سالہا سال وزارتوں سفارتوں پر فائز رہ سکتے تھے۔ ایک اشارے پر انہیں پلاٹ، پلازے، فیکٹریاں اور کاروبار کے لائسنس مل سکتے تھے ۔ اس بہتی گنگا میں وہ بھی ہاتھ دھوسکتے تھے، مگر وہ کیچڑ سے الگ رہے۔ اُن کی مثال یوں تھی کہ جب لغو کے پاس سے گزر ہو تو متانت سے گزر جائو۔
وہ اقبال کے شارح تھے اور سوانح نگار بھی ! معرکہ آراکتابیں تصنیف کیں، لیکچر دیے ، فکر اقبال کو آگے بڑھایا، اسے اپنے زمانے کے حالات کے مطابق مثبت طور پر ڈھالا ۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس ملک میں ملائیت اور مذہب کی من مانی ، مفادات پر مبنی تشریح کے آگے بہت بڑا بند تھے ۔ بند کی قدر اُس وقت ہوتی ہے جب وہ نہ رہے اورریلے آکر بہالے جائیں!انہیں کئی لحاظ سے مولانا روم کے بڑے فرزند بہائوالدین محمد سے جو ''سلطان ولد ‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں، مماثلت اور مناسبت ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر جاوید اقبال کو اپنے والد کی صحبت اور فیض اس طرح نہ مل سکا جس طرح سلطان ولد نے سالہا سال اپنے عظیم والد کی خدمت میں متواتر حاضررہ کر حاصل کیا تھا مگر افکار اقبال کی ترویج و تشریح میں ڈاکٹر جاوید اقبال کا وہی حصہ ہے جو سلطان ولد نے سلسلہ مولویہ کو منظم کرکے کمایا ! اُس زمانے میں حلب اور د مشق علوم و فنون کا مرکز تھے۔ مولانا نے سلطان ولد کو وہاں بھیجا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنے عہد کے حلب اور دمشق (کیمبرج ، لنکن ان ) سے استفادہ کیا ۔ سلطان ولد بھی اپنے والد کے سوانح نگار اور ان کے اشعار وافکار کے مستند مفسّر تھے۔ ان کی کتابیں بھی مولاناکے بارے میں قابل اعتماد ذرائع کا درجہ رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر جاوید اقبال کی رحلت ہمیں ایک اور انتباہ بھی کرتی ہے ۔ اقبال کو سمجھنے کا ایک اور ذریعہ ہم سے چھن گیا ۔ چھت پر پہنچانے والی ایک اور سیڑھی ہٹالی گئی۔ اقبال کی شعری تصانیف میں سوا تین اردو میں ہیں اور پونے چھ فارسی میں ہیں ۔ اقبال کو عالمی شہرت ان کی فارسی تصانیف ہی نے عطاکی۔ آج ہمارے عوام توخیر عوام ہیں، اہل دانش بھی اس زبان سے نابلد ہیں اور ہر آنے والا دن ہمیں اپنی میراث سے دور تر کررہا ہے ۔ کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ سلاطین دہلی کا عہد 1206ء میں شروع ہوا ۔ عام طور پر اردوادب کی تاریخ کا آغازولی دکنی سے کیا جاتا ہے جو 1668ء میں پیدا ہوئے، مگر میر کی ولادت1723ء میں ہوئی ۔ تو کیا یہ چار پانچ سو سال کا زمانہ ادب و انشا سے، تاریخ و علوم سے خالی تھا؟ آج مغل عہد کے شعرا کو ایران ، تاجکستان اور ازبکستان میں پڑھا اور پڑھایا جارہا ہے مگر پاکستان میں جو مسلم انڈیا کی وراثت کا دعویٰ کرتا ہے ، یہ سارا زمانہ تاریخ اور تاریخ ادب کے سفید ، کورے کاغذوں پر مشتمل ہے جن پر کوئی لفظ ہے نہ تصویر!
اقبال کے نام پر کئی ادارے قائم ہیں جن کی عملی حیثیت خانقاہوں اور ان میں بیٹھے نذرانے وصول کرنے والے مجاوروں سے زیادہ نہیں۔ ان میں سے کچھ مجاوران کرام نے تو اقبال کی کم اوراپنی تشہیر زیادہ کی ۔ کچھ نے اہل تصوف ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا۔ خاندان کے خاندان اقبال کے نام پر پرورش پاگئے مگر کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ نئی نسل کو حکمت عملی سے اور سمجھا بجھاکر اتنی فارسی پڑھ لینے پر آمادہ کردیتے کہ اقبال کو براہ راست سمجھا جاسکتا ! ترکوں کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ ان کا رسم الخط لاطینی کردیا گیا۔ وسط ایشیائی ادب کے ساتھ یہ المیہ ہوا کہ ان کا رسم الخط روسی کردیاگیا۔ مگر ہمارے المیے کا کیا کہنا! رسم الخط نہیں ، پوری زبان ہی اٹھالی گئی! آج ہم اپنے ہی وطن میں اپنے ہی مشاہیر کو پڑھنے سے قاصر ہیں!نظیری ، فیضی ، عرفی ، ابوالفضل اور بیدل کو تو چھوڑیے ، ہر سال یوم اقبال منانے کے باوجود ہم کلام اقبال کے غالب حصے سے نابلد ہیں ! مکمل نابلد ! آسٹریلیا میں سفید فام آقائوں نے اصل مقامی آبادی کے بچے اٹھانے شروع کیے ۔ یہ سلسلہ 1905ء سے 1970ء تک جاری رہا ۔ اس زمانے کو چوری شدہ نسلیں (Stolen-Generations) کہا جاتا ہے ۔آسٹریلیاکی حکومت نے اب مقامی آبادی سے معافی مانگی ہے۔ ہم سے تو کئی سو سالوںپر محیط ادبی اور علمی نسلیں چرالی گئیں۔کیا اردو سے پہلے اس سرزمین پر رہنے والے اور حکومت کرنے والے مسلمان ناخواندہ تھے؟ کیا اُس وقت ادب، شاعری اور علوم و فنون یہاں نہیں تھے ؟ہم سے ان چوری شدہ نسلوں کی معافی کون مانگے گا؟مجرم بھی ہم ہیں اور مظلوم بھی ہم ! آج تک سیاپا پڑا ہوا ہے کہ میکالے نے ہماری زبان چھینی تھی۔ اللہ کے بندو ! میکالے کو مرے ہوئے بھی ایک سو چھپن سال ہوچکے ہیں ۔ اُس نے دنیا کو دو منطقوں میں تقسیم کیا تھا۔ ''مہذب‘‘ قومیں اور '' وحشی ‘‘قومیں۔ اس کی یہ تقسیم عملی طور پر آج بھی جاری ہے ۔ اُس کی ذریت آج بھی ہماری زبان ، ہماری میراث ، ہماری شناخت چھینے ہوئے ہے ! اڑسٹھ سالوں میں فارسی تو خیر کیا واگزار ہوتی ، اردو کے لالے پڑے ہوئے ہیں !یہی طور اطوار رہے تو چند سالوں میں بانگ درا میں شامل بچوں کی نظمیں پڑھ سکنے والا بھی کوئی نہیں رہے گا!
دہقان و کشت و جوئی وخیابان فروختند
قومی فروختندو چہ ارزان فروختند 
جن قوموں سے ان کی زبان چھین لی جائے، وہ صفحہ ہستی پر کہاں رہ سکتی ہیں! کچھ عرصہ باقی رہ بھی جائیں تو جسمانی طور پر ! پھر جسمانی طور پر بھی ختم ہوجاتی ہیں!
ڈاکٹر جاوید اقبال کی نماز جنازہ فقیر ابن فقیر پروفیسر ڈاکٹر معین نظامی نے پڑھائی ۔ گمان غالب یہ ہے کہ مرحوم نے اس ضمن میں وصیت کی ہوگی ۔ معین نظامی یہ بھاری پتھر نہیں اٹھانا چاہتے تھے مگر اصرارپر نماز پڑھائی !زندگی کا یہ آخری دروازہ جس طرح بند ہوا ، اُس سے اس حقیقت کی تصدیق ہوتی ہے کہ ڈاکٹر جاوید اقبال فقیر تھے ۔ علم و ادب اور فلسفہ و تصوف میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ظاہر سے انہیں سروکار نہ تھا ! ان سے زیادہ کسے معلوم تھا کہ آدمی دیدہے اور باقی پوست ہے !
ڈاکٹر جاوید اقبال کی رحلت ہمارے لیے خسارہ ہے، علمی، فکری اورتہذیبی خسارہ ! آیئے ! معین نظامی کے الفاظ میں نوحہ خوانی کریں:
مرے اجداد کے گرتے ہوئے حجرے کے محراب خمیدہ میں
کسی صندل کے صندوق تبرک میں
ہرن کی کھال پر لکھا ہوا شجرہ بھی رکھا ہے
کہ جس پر لاجوردی دائروں میں
زعفرانی روشنائی سے 
مرے سارے اقارب کے مقدس نام لکھے ہیں 
مگر اک دائرہ ایسا بھی ہے
جس میں سے لگتا ہے کہ کچھ کُھرچاگیا ہے
میں انہی کُھرچے ہوئے لفظوں کا وارث ہوں!
آہ ! ڈاکٹر جاوید اقبال کے جانے سے ہمارے شجرے کا ایک اور دائرہ کھرچ دیاگیا!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved