عمران خان کا جواب دلچسپ تھا: ''میرے مخالفین کو بس بہانہ چاہیے‘ ریحام خان کی مجھ سے شکر رنجی کی خبر غلط ثابت ہو گئی تو شاہ محمود قریشی کی ناراضگی کا شوشہ چھوڑ دیا‘ پہلی افواہ درست تھی نہ دوسری کا کوئی سر پیر ہے‘ شاہ اوکاڑہ میں تحریک انصاف کی مہم چلا رہے ہیں اور 9اکتوبر کو لاہور میں ہونے والے جلسے میں شرکت کریں گے‘‘۔
سیاسی حلقوں میں ہونے والی قیاس آرائیوں پر بعض دوستوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ شاید مخدوم شاہ محمود قریشی کے حوالے سے میرے پاس کوئی خبر ہو۔ میں نے شاہ محمود قریشی سے فون پر رابطہ کیا تو جواب ندارد‘ اوکاڑہ میں انتخابی مہم میں مصروفیت کے باعث فون سننے کی فرصت نہ سہی۔ مگر کوئی سیاسی لیڈر اچانک فون بند کر دے یا فون کال کا جواب نہ دے تو تجسّس بڑھ جاتا ہے۔ میڈیا بھلا اس بات کی پروا کب کرتا ہے کہ کوئی ضرورت سے زیادہ مصروف ہے یا کسی ذاتی صدمے کی بنا پر جواب دینے سے قاصر۔
میں نے عمران خان سے براہ راست بات کرنا مناسب سمجھا اور انہوں نے ان قیاس آرائیوں کی تردید کے بعد خوشگوار انداز میں یہ جملہ کہا۔ عمران خان چاہتے تو احمد فراز کی مدد لے سکتے تھے ؎
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
پھر شاہ محمود قریشی سے بھی رابطہ ہو گیا جو ان افواہوں پر افسردہ تھے‘ وہ اوکاڑہ کے جلسے میں بولے اور ان کا موقف براہ راست میڈیا پر نشر ہو چکا‘ اعادہ مناسب نہیں تاہم مسلم لیگ سے رابطوں کو انہوں نے لغو قرار دیا۔
اندرونی دھڑے بندی ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ ہے اور تحریک انصاف اس سے مستثنیٰ نہیں۔ کسی سیاسی جماعت میں اگر اُصولوں اور نظریات کی بنیاد پرکشمکش ہو تو چنداں معیوب نہیں۔ پیپلز پارٹی جب تک قومی سطح کی عوامی جماعت رہی اس میں اندرونی کشمکش کا سلسلہ جاری رہا۔ بھٹو صاحب کے دور میں ایک طرف بابائے سوشلزم شیخ رشید احمد‘ خورشید حسن میر تھے تو دوسری طرف مولانا کوثر نیازی غلام مصطفی کھر اور ان کے ہمنوا۔ جب نظریات کی جگہ مفادات نے جڑ پکڑی تو پھر کارکن چھٹتے چلے گئے اور مفادات پرست باہم شیرو شکر ؎
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز
مخدوم یوسف رضا گیلانی‘ رحمن ملک‘ ڈاکٹر عاصم حسین اور راجہ پرویز اشرف کو بھلا ایک دوسرے سے کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔
بھلے زمانوں میں سیاسی جماعتوں کو نظریات ہی متحد رکھتے تھے اور نظریات کے اختلاف کی بنا پر ہی ان میں دراڑیں پڑتی تھیں۔ اب سیاست اور ریاست دونوں پر مفادات حاوی ہیں اور اپنے معمولی مفادات کی خاطر ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجائی جا رہی ہے۔ سیاست اور جرم میں تفریق باقی نہیں رہی اور لوٹ مار کو سیاستدانوں کا پیدائشی وجمہوری حق سمجھا جانے لگا ہے۔ رضا ربانی سینٹ کے چیئرمین ہیں اور پیپلز پارٹی میں دیانتداری کی شہرت رکھنے والے سنجیدہ و جہاندیدہ پارلیمنٹرین‘ مگر آصف علی زرداری کے دست راست ڈاکٹر عاصم حسین بدترین کرپشن اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کے الزام میںپکڑے گئے تو خورشید شاہ کے ساتھ وہ بھی سینہ کوبی کرنے والوں میں شامل تھے آئین میں اکیسویں ترمیم کا بل پارلیمینٹ میں پیش ہوا تو رضا ربانی کی آنکھیں چھلک پڑیں اور احتساب پر وہ جذباتی ہو گئے مگر جب کراچی اور اسلام آباد میں لوٹ مار کا بازار گرم تھا‘ ایک ایک چہیتا روزانہ دس دس بیس بیس کروڑ روپے کی دیہاڑی لگا رہا تھا دیانتداررضا ربانی خاموش تھے ع
کوئی جانے منہ میں زباں نہیں‘ نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں
سیاستدان تو خیر جو ہیں سو ہیں‘ اب سرکاری محکمے بھی ان کی دیکھا دیکھی یا ان کی شہ پر ریاست اور اپنے منصبی تقاضوںکو پس پشت ڈال کر مفادات کے کھیل میں شریک ہو گئے ہیں۔ کراچی میں پولیس کی طرف سے رینجرز اہلکاروں پر اغوا کا الزام اور ان کی گرفتاری کے لیے عوام سے تعاون کی اپیل اس کا ثبوت ہے۔ دنیا بھرمیں سکیورٹی اداروں کو مختلف النوع دبائو کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ عموماً مد مقابل سکیورٹی ادارے اور دشمن ایجنسیاں انہیں بدنام کرنے کے لیے گھٹیا ہتھکنڈے استعمال کرتی ہیں ۔ الزام تراشی بھی ہوتی ہے اور سازشوں کے جال بھی بچھائے جاتے ہیں مگر کراچی میں دہشت گردوں‘ ٹارگٹ کلرز‘ بھتہ خوروں اور را کے ایجنٹوں سے نبرد آزما رینجرز کے اہلکاروں کے خلاف اشتہارات کی اشاعت ایسا کارنامہ ہے جو کسی دوسرے ملک کی پولیس نے کبھی سرانجام نہیں دیا ہو گا‘ کسی بنانا ری پبلک میں بھی نہیں۔
رینجرز کا قصور کیا ہے؟ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے دوران اسے بعض سیاستدانوں یا سیاستدانوں کا بہروپ بھرنے والے جرائم پیشہ افراد کے بارے میں علم ہوا کہ وہ دہشت گردی میں مددگار اور سہولت کار ہیں؛ چنانچہ دستیاب معلومات کی بنا پر انہیں گرفتار کرنا پڑا۔ گرفتاری کے بعد جب انہیں پولیس کی تحویل میں دیا گیا تو حسب روایت تفتیش میں ایسے سقم چھوڑ دیئے گئے جس کا فائدہ ملزمان نے اٹھایا اور وہ ضمانتیں کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ مضبوط شہادتوں کے بعد گرفتار ہونے والے افراد کی ضمانتیں آسانی سے کیسے ہو گئیں؟ یہ کوئی سربستہ راز نہیں۔ رینجرز کے سربراہ نے اس پر اپنے تحفظات ظاہر کئے تو پولیس اور اپنے گماشتوں کی گرفتاری سے پریشان حکمرانوں نے مل کر جوابی حکمت عملی تیار کی جس میں سے ایک مبینہ طور پر رینجرز اہلکاروں کو اغوا کار اور اشتہاری قرار دینا بھی ہے۔آصف زداری اور مارک سیگل کے بیان کو بھی اس اشتہاری مہم سے جوڑا جا رہا ہے۔ ربّانی نے یہی کہا کہ کوئی مقدس گائے نہیں۔
فی الحال احتساب کا عمل چند شخصیات تک محدود ہے اور سیاسی مصلحتوں یا دوسری وجوہات کی بنا پر اسے دوسرے صوبوں اور گروہوں تک وسیع نہیں کیا جا رہا‘ شاید ضمنی اور بلدیاتی انتخابات بھی رکاوٹ ہیں مگر جب دائرہ پھیلا تو فوج اور رینجرز کو کئی اور مقامات پر بھی شاید اسی طرح کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑے۔ آصف علی زرداری‘ فاروق ستار‘ خورشید شاہ اور رضا ربانی کے ہمنوائوں میں اضافہ ہو جائے ؎
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب مرے رازداں اور بھی ہیں
آئین‘قانون‘ عوامی فلاح و بہبود یاکسی اور معاملے پر سیاستدان آپس میں متفق ہوں نہ ہوں‘ اپنے اپنے لٹیرے کو بچانے اور موجودہ عوام دشمن ‘ حرام خور اور ننگ انسانیت سیاسی‘ سماجی‘ معاشی ڈھانچے کو برقرار رکھنے کے لیے متحد ہیں‘سیسہ پلائی ہوئی دیوار۔ ہر ایک کے ''عاصم حسین‘‘ کو رینجرز‘ نیب اور فوج سے خطرہ ہے‘ اس لیے عمران خان جب کہتے ہیں کہ کل کلاں کو بظاہر ایک دوسرے کی مخالف کئی سیاسی جماعتیں اکٹھی ہو کر احتساب کی مخالفت کریں گی تو غلط نہیں کہتے۔
کراچی پولیس اتنی بھولی ہے نہ ڈی ایس پی سطح کا ایک افسر اتنا غیر ذمہ دار اور احمق ہو سکتاکہ وہ رینجرز اہلکاروں کی گرفتاری کے لیے عوام سے مدد طلب کرے۔ اخبارات میں سرکاری اشتہار چھپوانے کا ایک طے شدہ طریقہ کار ہے جس کے تحت ہر اشتہار کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اشاعت کی منظوری دی جاتی ہے۔ اگر یہ اشتہار کسی مجاز اتھارٹی کی منظوری اور طے شدہ طریقہ کار کی پابندی کے بغیر شائع ہوا‘ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی تو پھر یہ انارکی ہے یا مختلف سرکاری اداروں اور محکموں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کی سازش۔ کیا ان حرکتوں سے رینجرز کے حوصلے پست ہو سکتے ہیںاور اسے واپسی کی راہ دکھلائی جا سکتی ہے؟ کیا مفاد پرست گروہ جو سیاست کا لبادہ اوڑھ کر اقتدار پر اپنا حق جتلاتے ہیں احتساب کے عمل کو رول بیک کر نے کے لیے اوچھی حرکتوں پر اُتر آئے ہیں اور رشوت و سفارش کی بنیاد پر بھرتی سرکاری اہلکار اپنے آقائوں کے احکام کی بجا آوری پر تیار؟ یہ اہم سوال ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اوپر سے نیچے تک اپنی تطہیر پر مجبور کیا جائے اور وہ جمہوری اصولوں کے مطابق شفاف انداز میں انتخابی عمل سے گزر کر صحیح معنوں میں سیاسی جماعت کے درجہ پر فائز ہوں۔جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہیں‘ لمیٹڈ کمپنیاں اور کسی فرد‘ خاندان کی تابع مہمل تنظیمیں سیاسی جماعت نہیں پریشر گروپ ہیں‘ ورنہ مفاد پرستوں کا گٹھ جوڑ جمہوریت کو بھی لے ڈوبے گا۔ نظریات کے بجائے مفادات کا اشتراک گروہ بندی میں تو مددگار ثابت ہوتا ہے‘ ہجوم بھی اکٹھا کر لیتا ہے مگر جمہوری نظام اور عوام کو ساز گار نہیں۔ تحریک انصاف کو بھی اب دوسروں اور اپنوں کے تجربات سے سبق سیکھ کر مضبوط‘ متحد ‘ مستحکم سیاسی جماعت میں ڈھلنا پڑیگا اور شخصیات کے بجائے نظریہ‘ مقصد اور کارکن کو اپنی طاقت و توانائی کی بنیاد بنانا ہو گا تاکہ کسی کے آنے جانے سے فرق پڑے نہ افواہ سازوں کو ہر روز بے پرکی اڑانے کا موقع ملے۔