تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     08-10-2015

ان پر خدا رحم کرے

سوال یہ ہے کہ ہماری منتخب حکومت کیا کر رہی ہے ؟نندی پور ، ایل این جی ، حلقہ 122اور ذاتی کاروبار۔رہا ملک او رعوام تو وہ لمبی تان کر سوئی پڑی ہے ۔ ان لوگوں پہ خدا رحم کرے ۔ 
سندھ میں کیا بالآخر گورنر راج ہی نافذ ہو گا؟ کیا 2400کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد پر بالآخر دیوار ہی تعمیر کرنا پڑے گی ، بارودی سرنگیں بچھانا ہوں گی ؟ کیا ساہیوال میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ایک اور ہولناک سکینڈل بنے گا؟ 
ہر روز ایک بری خبر ہے اور معاملات کو سلجھانے والا کوئی نہیں ۔ ساہیوال پہ تازہ ترین اطلاع یہ ہے کہ میاں محمد منشا حصہ دار ہیں ۔ اس خبر کی تصدیق کس سے کی جائے ؟ سال بھر کی چیخ و پکار کے باوجود یہ حکومت ایل این جی کی قیمت بتانے پر آمادہ نہیں ۔ 
یہ جنرل محمد ضیاء الحق کا عہد تھا اور اے جی این قاضی منصوبہ بندی کمیشن کے سربراہ۔ گیس سے بجلی پیدا کرنے کا ایک منصوبہ تشکیل دیا گیا۔ بحث ہو چکی تو انہوں نے سوال کیا : کون سی جگہ مختص ہوئی ہے ؟جیسے ہی ساہیوال کا نام آیا ، تڑپ کر انہوں نے کہا : ملک کی بہترین زرعی زمین ، جی نہیں ، اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ قدرتی گیس کے ذخائر وافر تھے ۔ اب انحصار کوئلے پر ہوگا اور ایک آدھ نہیں ، بہت سے سنگین سوالات ہیں ۔ کہاجاتاہے کہ 2013ء میں نون لیگ کی حکومت تشکیل پانے سے قبل ہی مبینہ حصہ دار نے اپنا ہوم ورک مکمل کر لیا تھا کہ کوئلے سے چلنے والے منصوبے لگائے جائیں ۔ بے شک کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی نسبتاً سستی پڑتی ہے ۔ استفسار یہ ہے کہ اس کے لیے ساہیوال کا انتخاب ہی کیوں ہوا ، جہاں لائیو سٹاک کے اعلیٰ درجے کے دو سرکاری منصوبے
لپیٹ دیے گئے ؟ رحیم یار خان یا بہاولپور میں بیکار پڑی سرکاری زمین کو کیوں ترجیح نہ دی گئی ۔ بے شک دنیا بھر میں سب سے زیادہ بجلی کوئلے ہی سے پیدا ہوتی ہے لیکن درآمدی کوئلے پر چلنے والے کارخانے ساحلِ سمندر پر لگائے جاتے ہیں ۔ اس بجلی کی ماحولیاتی قیمت بہت زیادہ ہے ۔ اتنی زیادہ کہ ہر دو دن کے اندر چین میں تین ایسے کارخانے بند کر دیے جاتے ہیں۔ الجھن پیدا کرنے والا ایک اور پہلو یہ ہے کہ نندی پور کی طرح ساہیوال منصوبے کے لیے چین ہی سے مشینری کی خریداری ہوگی ۔ نئی یا پرانی ، یہ بھی معلوم نہیں ۔ بتایاگیاہے کہ ہر چار گھنٹے بعد کوئلے سے بھری ایک مال گاڑی کی ضرورت ہوگی۔ کیا پاکستان ریلوے یہ بوجھ اٹھا سکتی ہے؟ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دو رمیں بجلی کے جو منصوبے شروع کیے گئے ، ملک آج تک ان کی قیمت چکا رہا ہے اور بہت بھاری قیمت۔ کیا شریف خاندان بھی ہمیں ایسا ہی ایک تحفہ عطا کرنے والا ہے ؟ 
دبئی کے علاوہ ، جہاں گزشتہ چار سا ل کے دوران پاکستانیوں نے 419ارب روپے کی سرمایہ کاری فرمائی، برطانیہ کے علاوہ اب جنوبی افریقہ میں بھی جائیدادیں خریدی جا رہی ہیں ۔ دبئی میں سب سے بڑھ کر یہ کارِ خیر پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے انجام دیا، جو اب سندھ کا دوسرا دارالحکومت ہے ۔ دوسروںکے علاوہ شرجیل میمن بھی دو ماہ سے وہاں براجمان ہیں ۔ جن سرکاری افسروں سے بات کرنا ہو ، انہیں وہاں طلب کیا جاتاہے۔ کراچی شہر میں بے شمار کہانیاں اس شخص کے بارے میں سنی جا سکتی ہیں ۔ 
منگل کے اخبارات میں سندھ پولیس کی طرف سے رینجرز کے بارے میں جو اشتہارات چھپے ، ان کے حوالے سے عالی جناب کا نام لیا جارہا ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ لائنزایریا میں ایک پل کا زرِ تلافی ادا کرنے میں بہت گھپلا ہوا۔ شرجیل میمن کے علاوہ مبینہ طور پر ان کے فرنٹ مین جعفر خواجہ اور سندھ کے موجودہ وزیرِ داخلہ سہیل سیال کا تذکرہ ہے ۔ رینجرز کے ہاتھ ڈالنے کا اندیشہ پیدا ہوا تو جواباً دبائو ڈالنے کا فیصلہ ہوا۔ اس بیچارے ڈی ایس پی کی کیا مجال کہ متعلقہ وزارتوں سے اجازت لیے بغیر اخباری اشتہار جاری کرتا۔ ظاہر ہے کہ نثار کھوڑو کی وزارتِ اطلاعات بھی ملوّث ہے ۔اسی بنا پر گمان یہ کیا جاتا ہے کہ فیصلہ بہت اوپر کی سطح پر کیا گیا۔ 
کراچی میں اغوا برائے تاوان کا خاتمہ ہو چکا اور بھتہ خوری برائے نام رہ گئی ۔ قوم رینجرز کی پشت پر کھڑی ہے۔ ضربِ عضب اور بلوچستان کے علاوہ یہ کراچی ہے ، مدتوں کے بعد جہاں عسکری قیادت کے عزمِ بے پناہ سے امید کی کرنیں جگمگا اٹھی ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت اور زرداری صاحب کیا یہ چاہتے ہیں کہ ایم کیو ایم اور دوسری پارٹیاں ہی رینجرز کا ہدف رہیں ؟ جمہوریت کے نام پر برسرِ اقتدار رہنمائوں کو لوٹ مار کا لائسنس دے دیاجائے ؟ جس طرح ایم کیو ایم کی آرزو یہ ہے کہ اور تو سبھی کا احتساب ہو مگر اس کے ساتھ لاڈلے بچوں کا سا برتائو کیا جائے، جس طرح کہ ماضی میں ہوتا رہا۔ آدمی حیرت زدہ رہ جاتاہے ۔ کیا ان لوگوں کی عقل غارت ہو چکی ؟ یہ مکافاتِ عمل کی دنیا ہے ۔ بالآخر وہ کاٹنا ہوتاہے ، جو کسی نے بویا ہو۔ کیا وہ سب کے سب اجتماعی خودکشی کی طرف رواں ہیں ؟ جمہوریت؟ سلطانیِٔ جمہور بجا مگر اس کے نام پر لوٹ مار یا قتل و غارت کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے ؟ہمیشہ کی طرح اب بھی ایم کیو ایم وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ پیپلز پارٹی کیا اس لیے آسودہ ہے کہ کوئی متبادل قیادت دیہی سندھ میں ابھر نہیں رہی؟ تابہ کے ؟ ادھر لیاقت جتوئی، ارباب غلام رحیم اور غوث بخش مہر بھاگ دوڑ میں مصروف ہیں ۔ ادھر قوم پرست جلال محمود شاہ ، ذوالفقار مرزا، قادر مگسی اور ایاز لطیف پلیجو نئی صف بندی میں لگے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی قیاد ت میں ایک متحدہ محاذ تشکیل پا رہا ہے۔ تحریکِ انصاف اور نون لیگ سرگرم نہ ہوں گی تو دیہی سندھ کی نجات کے لیے کوئی اور اٹھ کھڑ اہوگا۔ پھر ایک قیامت برپا ہوگی کہ پیپلز پارٹی کے طویل اقتدار نے زخموں کی فصلیں بوئی ہیں ۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ گورنر راج نافذ کرکے چھ ماہ کی مہلت پیدا کر دی جائے ۔ اس اثنا میں ایک متحدہ محاذ بنا دیا جائے تو پیپلز پارٹی تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دی جائے گی ۔ 
صدر اشرف غنی کا بدلتا ہوا طرزِ عمل حیران کن ہے ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ حامد کرزئی کا سا لہجہ اختیار کرتے جا رہے ہیں...ژولیدہ فکری ، فرسٹریشن ۔کون احمق اس الزام کوتسلیم کرے گا کہ قندوز کے واقعات میں پاکستانی فوج ملوّث ہے ۔ اس احمقانہ پروپیگنڈے کو دنیا بہرحال مسترد کر دے گی ۔ امریکی ایک بار پھر اسی حماقت کے مرتکب ہیں ، 1989ء میں افغانستان سے روس کی واپسی پر جس کا انہوں نے ارتکاب کیا تھا ۔ فتح تو دور کی بات ہے ، ایک سو بلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود ، افغانستان میں سیاسی استحکام پید اکیے بغیر وہ واپس جار ہے ہیں ۔ افغان فوج کو پوری طرح وہ منظم نہ کر سکے ۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ امریکی افواج کی بھرپور موجودگی میں طالبان کا اگر وہ قلع قمع نہ کر سکے تو اب کیا کریں گے ؟ پاکستانی طالبان کے برعکس ، جو محض جنونیوں کا ایک ٹولہ ہے، افغان طالبان ایک معلوم حقیقت ہیں ۔ امریکہ ان سے بات کرتا ہے اور چین بھی ۔ افغان حکومت ان سے مذاکرات میں مصروف ہے ، بلکہ منت سماجت پہ آمادہ ۔ سامنے کی حقیقت یہ بھی ہے کہ خواہ آخر کار بات ہی کرنا ہو، طالبان اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے عسکری اقدامات کیوں نہ کریں ؟ پاکستان کی فوجی قیادت کا ردّعمل محتاط، شائستہ اور معقول ہے کہ افغان حکومت صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ 
سوال یہ ہے کہ ہماری منتخب حکومت کیا کر رہی ہے ؟نندی پور ، ایل این جی ، حلقہ 122اور ذاتی کاروبار۔رہا ملک او رعوام تو وہ لمبی تان کر سوئی پڑی ہے ۔ ان لوگوں پہ خدا رحم کرے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved