ہمایوں ہما صاحب کا ایک میسیج موصول ہوا ہے‘ اس کا ذکر بعد میں کروں گا‘ پہلے یہ لطیفہ سن لیجئے کہ کچھ عرصہ پہلے ڈاکٹر ہما کے نام سے مردان سے ایک میسیج ملا جس کا ذکر کرتے ہوئے میں نے انہیں خاتون قرار دے ڈالا کیونکہ نام خاصا نسائی سا تھا جیسا کہ عموماً خواتین کے ہوتے ہیں۔ مثلاً ثناء‘ حرا‘ ردا‘ نشاء وغیرہ۔ لیکن بعد میں ایک میسیج میں مجھے بتایا گیا کہ آپ نہ صرف مرد ہیں بلکہ ریٹائرڈ پروفیسر ہیں‘ تاہم اگر وہ پورا نام لکھتے تو یہ غلط فہمی پیدا نہ ہوتی‘ البتہ ایسی گڑبڑ مردانہ ناموں کے حوالے سے بھی ہو جاتی‘ مثلاً رضا جو کہ مؤنث ہے‘ یہ ہمیشہ مردوں ہی کا نام ہوتا ہے‘ عورتوں کا نہیں۔
بہرحال‘ صاحب موصوف سے معذرت۔ اب کے وہ میرے ایک کالم کے حوالے سے جس میں‘ میں نے رخشندہ نوید کا یہ شعر نقل کیا تھا ؎
میں پکڑتے پکڑتے ڈوب گئی
مجھ سے کچھ گر پڑا تھا پانی میں
لکھتے ہیں کہ پہلے مصرع میں جو ''ذم‘‘ کا پہلو ہے اس پر آپ نے توجہ نہیں دی۔ بظاہر تو اس میں ''ذم‘‘ والی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ کسی چیز کو جو پانی میں گررہی ہو‘ اسے پکڑتے پکڑتے ڈوب جانے میں ''ذم‘‘ کا پہلو نکالنا کوئی بہت دور کی کوڑی ہو سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم عورت کو وہ مقام اور مرتبہ دینے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں جو ہم خود کو دیتے ہیں یا ہم نے اپنے لیے مخصوص کر رکھا ہے‘ اور عورت کے ضمن میں چونکہ ہماری اپنی نیت صاف نہیں ہوتی اس لیے اس کی ہر حرکت میں سے ہم ''ذم‘‘ کا کوئی نہ کوئی پہلو آسانی سے نکال لیتے ہیں۔ بہرحال میں ہما صاحب کو بالکل ہی غلط قرار نہیں دے رہا کہ انہوں نے ایسا محسوس کیا ہے تبھی اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
دوسرا میسیج تو نہ تھا بلکہ فون کال تھی۔ برادرم خالد مسعود خان ملتان سے کہہ رہے تھے کہ شعیب بن عزیز کے ایک شعر میں ''سردیوں کی شاموں میں‘‘ کی بجائے ''گرمیوں کی شامیں‘‘ لکھ دیا گیا ہے ۔ دوسرے شعر کی تصحیح جو انہوں نے کی ہے وہ اس طرح نقل کیا گیا تھا؎
دوستی کا دعویٰ کیا‘ عشق سے نہیں مطلب
ہم ترے فقیروں میں‘ ہم ترے غلاموں میں
موصوف کے مطابق اس شعر کا پہلا مصرع اس طرح سے ہے ع
عاشقی کا دعویٰ کیا دوستی سے کیا مطلب
یہی درست ہو سکتا ہے کیونکہ جیسا مجھے یاد تھا‘ میں نے لکھ دیا جس پر میں شاعر سے معذرت خواہ ہوں؛ تاہم اس میں لفظ ''عاشقی‘‘ اور ''کا‘‘ کے کاف آپس میں ٹکراتے ہیں اور ہلکا سا عیبِ شاعر کا گمان گزرتا ہے؛ چنانچہ میں اگر لکھتا تو اس کی ترتیب بدل دیتا یعنی ع
دوستی کا دعویٰ کیا‘ عاشقی سے کیا مطلب
اس سے مصرع زیادہ رواں بھی ہو جاتا اور ''دوستی‘‘ کے بعد ''عاشقی‘‘ آنے سے اس میں زور بھی پیدا ہو جاتا۔ بہرحال میں اس پر اصرار نہیں کروں گا اور اپنے دوست خالد مسعود خان کا بھی توجہ دلانے کے لیے بے حد شکرگزار ہوں۔
تاہم‘ غلطیوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ اوپر عنوان کے طور پر جو مصرع درج کیا گیا ہے‘ وہ مرزا غالبؔ کا ہے اور میری دانست میں خود اس میں بھی غلطی موجود ہے۔ غالبؔ نے لفظ غلطی کو فارسی میں جمع یعنی غلطیہائے بنا کر اسے مفرس کردیا ہے جبکہ فارسی لغت میں غلطی کا لفظ ہی کہیں موجود نہیں ہے اور ''غلطی‘‘ کی جگہ بھی ''غلط‘‘ ہی استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طورپر یہ قطعہ دیکھیے:
گاہ باشد کہ پیر دانشمند
برنیا ید دوست تدبیرے
گاہ باشد کہ کودک ناداں
از غلط برہدف زند تیرے
ہاں اگر میں یہ مصرع لکھتا تو اس طرح لکھتاع
یہ غلط ہائے مضامین مت پوچھ
اور یہ خدانخواستہ غالب کی اصلاح نہیں ہے بلکہ ایک غلطی کی نشاندہی مقصود تھی کیونکہ غالب بھی ہماری طرح ایک بندہ بشر ہی تھے‘ غلطی تو وہ بھی کر سکتے تھے‘ جبکہ میری یہ مجبوری بلکہ بہت بری عادت ہے کہ جس شعر میں بھی کوئی بڑی یا چھوٹی گڑبڑ نظر آئے‘ میں سوچتا ہوں کہ اگر میں یہ شعر لکھتا تو کس طرح سے کہتا؛ چنانچہ یہ لوہارا تر کھانا میری کمزوری بن چکا ہے جس سے صرفِ نظر کرنا چاہیے جبکہ بعض حضرات اس پر جزبز بھی ہوتے ہیں‘ بیشک میں دوست ہی کیوں نہ ہوں۔ بہرحال‘ ان دونوں حضرات کا ایک بار پھر شکریہ‘ اس امید کے ساتھ کہ وہ آئندہ بھی میری کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے۔
یاد آیا کہ نقل کردہ شعر کے دوسرے مصرع میں بھی ایک تبدیلی تھی جس کا برادرم نے نوٹس نہیں لیا۔ اصل مصرع اس طرح تھا ع
میں ترے فقیروں میں‘ میں ترے غلاموں میں
یہ تحریف میں نے جان بوجھ کر کی تھی‘ کیونکہ ''میں‘‘ کی بجائے ''ہم‘‘ مجھے بہتر لگا اور شاید شاعر کو بھی بہتر ہی لگے جبکہ دوستی اور دعویٰ ایک ساتھ آنے سے شعر میں ایک صوتی حسن بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ ویسے تو شعر کا وزن اگر پورا ہو تو ایک آدھ لفظ کے آگے یا پیچھے ہونے سے کوئی بڑا فرق نہیں پڑتا؛ تاہم بالعموم یہ دیکھا جاتا ہے کہ یار لوگ اپنے مضامین اور کالموں میں شعر کو ایسے بھی درج کرتے ہیں جو باقاعدہ خارج از وزن ہوتا ہے۔
حتیٰ کہ بعض مہربان اپنے کالم کا عنوان اگر کسی مصرع سے بناتے ہیں تو وہ بھی وزن میں نہیں ہوتا‘ مدیران جرائد کو اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ محفل میں گفتگو یا تقریر میں پڑھے گئے اشعار بھی بعض اوقات بے وزن ہوتے ہیں‘ حتیٰ کہ ہمارے دوست ضیاء محی الدین ‘فیض احمد فیض کے سپیشلسٹ کہے جاتے ہیں‘ ان گنہگار کانوں نے انہیں بھی فیضؔ کا شعر بے وزن پڑھتے سُنا ہے۔ انتہائی معذرت!
تقطیع کے لحاظ سے شعر صحیح وزن میں پڑھنا ہر کسی کے بس میں ہوتا بھی نہیں‘ لیکن یار لوگ اپنی تحریر کو اشعار سے سجاتے وقت انہیں بے وزن نقل کرکے سارا مزہ ہی کرکرا کر بیٹھتے ہیں اور یہ نہایت ضروری ہے کہ ہر اُردو اخبار میں کسی ایسے صاحب کی تعیناتی کا بھی اہتمام کیا جائے جو اوزان سے باقاعدہ واقف ہو تا کہ تحریر پڑھتے وقت بدمزگی کا امکان کم سے کم رہ جائے‘ اگرچہ جملہ قاری بھی وزن سے واقف نہیں ہوتے؛ تاہم انہیں غلط وزن پر مشتمل اشعار پڑھا پڑھا کر ایک نہایت غلط قسم کی تربیت بہم پہنچائی جاتی ہے‘ جبکہ شاعری جیسی نفیس و نازک چیز کے ساتھ ایسا سلوک کسی صورت بھی قابلِ معافی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
آج کا مقطع
اِس ذائقے کی تاب تو لاتا کوئی‘ ظفر
کہنے کو اِک جہان کے منہ میں زبان ہے