پاکستان، بھارت، افغانستان اور پورے مشرقِ وسطیٰ میں یہ تبدیلیوں کا موسم ہے ، مثبت اور منفی تبدیلیاں ۔ ہفتے کے روز برطانیہ میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے داعش کو القاعدہ سے بھی بڑا خطرہ قرار دیا۔ یہی وہ وقت تھا، جب روسی طیارے شام میں دولتِ اسلامیہ کے ساتھ ساتھ بشار الاسدکے سیاسی مخالفین پر بھی بمباری کر رہے تھے۔ شام کے سفاک صدر بشار الاسد کے خلاف سعودی عرب، ترکی اور عرب ریاستوں کے مقابل روس نے شام، عراق اور ایران کے ساتھ مل کر ایک اتحاد تشکیل دیا ہے ۔ یوں پہلے سے پیچیدہ صورتِ حال گمبھیر تر ہوتی چلی جا رہی ہے ۔ ادھر دوسری طرف روسی فضائیہ کی طرف سے ترک سرحدوں کی خلاف ورزی پر کشیدگی ہے ۔
جنرل راحیل شریف کا کہنا ہے کہ درست طریقے سے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات آگے نہ بڑھے تو بہت سے جنگجو دھڑے داعش میں شامل ہو سکتے ہیں ۔ افغانستان بڑی تبدیلیوں کی زد میں ہے ۔ امریکی سربراہی میں عالمی طاقتوں کی تیرہ سالہ جنگ کا انجام یہ ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے ساتھ ہی قندوز سمیت اہم شہرطالبان کی جھولی میں گر رہے ہیں ۔ افغان حکومت اور افواج کی کمزور پوزیشن واضح ہو گئی ہے ۔ہر بڑے حملے اور کارروائی کا الزام پاکستان پر دھرنے والی افغان قیادت کے لیے یہ انتہائی پریشان کن صورتِ حال ہے ۔ عبداللہ عبد اللہ آنے والے برسوں میں غیر ملکی افواج کی ملک میں موجود رہنے کی
درخواست پیش کر رہے ہیں ۔ یہ صورتِ حال عالمی طاقتوں ، بالخصوص امریکہ کے لیے سبکی کا باعث ہے ۔ مذاکرا ت کا امکان کم ہے ۔ ہو ں بھی تو اب طالبان مضبوط پوزیشن میں ہیں او رسول حکومت کو انہیں بہت کچھ دینا ہوگا۔ صورتِ حال کا کوئی قلیل مدتی عسکری حل نہیں ؛البتہ افغانستان کا مفاد اسی میں ہے کہ اس کی فوج مضبوط بنیادوں پر استوار ہو ۔ ملک میں حقیقی جمہوری حکومت سمیت ادارے تشکیل دیے جائیں ؛اگرچہ معاشرے کی قبائلی ساخت کو مدّنظر رکھنا ہوگا۔طالبان سمیت، عسکری محاذ آرائی کرنے والوں کو مرکزی دھارے میں لایا جائے یا بتدریج طاقت کے استعمال سے انہیں ختم کر دیا جائے۔ اس کے لیے کم از کم ڈیڑھ دو عشرے درکار ہیں ۔گزرے برسوں میں پاکستانی فوجی قیادت امریکیوں کو بتاتی رہی کہ پیسے کے بل پر فوج تشکیل دینا او ربات ہے ، سخت تربیت کے ساتھ اسے ایک مضبوط قومی سپاہ کے سانچے میں ڈھالنا ایک اور چیز۔ بہرحال ، معاملے کا عسکری حل نکالا جائے یا سیاسی ، دونوں صورتوں میں افغانستان میں چین اور پاکستان کا کردار بہت بڑھ گیا ہے ۔
کشیدگی برقرار رکھنے کی بھارتی پالیسی کم عقلی کا مظہر ہے ۔ بالخصوص 9/11کے بعد بدلے ہوئے پسِ منظر میں ، جب پاکستان کشمیری جہادی تنظیموں کی پشت پناہی مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے کشمیریوں کومحض سیاسی مددفراہم کر رہا ہے ۔ جنرل مشرف، آصف علی زرداری اور شریف حکومت کے ابتدائی دو برسوں میں ہر ممکنہ حد تک لچک دکھائی جاچکی ۔اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مستقل بنیادوں پر کشیدگی ختم کرنے کی بجائے الزام تراشی اور دہشت گردوں کی مدد کرتے ہوئے بھارت خود اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہا ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ فیصلہ سازی میں وزیرِ اعظم نریندر مودی بھارت کے دیر پا مفاد کی بجائے بی جے پی کا قلیل مدتی انتخابی مفاد مدّنظر رکھتے ہیں ۔ پہلے کشمیر کے ریاستی انتخابات اور اب بہار کا الیکشن ان کی توجہ کا مرکز ہے ۔
بدلتی ہوئی صورتِ حال میں شریف حکومت کے پاس بہت کم وقت باقی ہے ۔ امریکہ ، بھارت ، افغانستان اور دہشت گردی کے معاملات فوجی قیادت کے ہاتھ میں ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کا طرزِ عمل یہ تھا کہ لوٹ مار کے ساتھ جتنا عرصہ حکومت کی جا سکے ، غنیمت ہے ۔ نون لیگ کا طرزِ عمل یہ ہے کہ خود کو پاکیزہ، دیانت دار، اہل اور انتہائی ریاضت کیش قرار دیتے ہوئے مستقل طور پر ملک پر حکومت کی جائے اور اقتدار اگلی نسلوں تک منتقل ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف جہاں اس کی ناکردہ کاری کے طفیل خارجہ اور داخلہ پالیسی اس کے ہاتھ سے نکل چکی ، وہیں دوسری طرف میڈیا بڑی بے قاعدگیوں، کرپشن اور اقربا پروری کی ہر کوشش واضح کر دیتاہے ۔ ابھی کل تک نون لیگ کے اخبار نویس میرے جیسے گائودیوں کو بتایا کرتے کہ شریف خاندان جدی پشتی رئیس ہے ۔ اتفاق فائونڈری کی کامیابیوں کی داستان قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی اپنی نوعیت کی منفرد مثال ہے ۔ اب اسد عمر نے بجا طور پر یہ سوال اٹھایا ہے کہ تین پشتوں سے سٹیل کا کا میاب کاروبار کرنے والے شریف خاندان کی حکومت میں قومی سٹیل مل بند کیوں پڑی ہے ؟ نوبت نندی پور کے تھرڈ پارٹی آڈٹ تک کیوں پہنچی ؟ سو میگاواٹ کا قائدِ اعظم سولر پارک گھٹتے گھٹتے لگ بھگ پندرہ میگا واٹ تک کیوں جا پہنچا؟ پی آئی اے ناکامیوں کے اگلے پچھلے ریکارڈ توڑنے کی جانب کیوں گامزن ہے ؟ ساہیوال کی زرخیز زمین پر کول پاور پلانٹ کس زرخیز ذہن کی پیداوا رہے ، پاکستان ریلوے اپنی تمام بچی کھچی توانائیاں جسے کوئلہ پہنچانے میں صرف کرتا رہے گا؟اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ سستی روٹی جیسے منصوبے کہاں گئے ؟ کیا اپنے تئیں خادمِ اعلیٰ غریب کا پیٹ مکمل طور پر بھر چکے ؟ شریف خاندان کی نجکاری پالیسی کا محور یہ ہے کہ ریلوے ، پی آئی اے اور سٹیل مل جیسے ادارے چلانا بنیادی طور پر حکومت کا کام نہیں ہوتا بلکہ نجی شعبے کا ۔ یہاں سب سے بڑا تضاد یہ ہے کہ ایسے ہی نئے ادارے ، میٹرو بس اور میٹر و ٹرین تشکیل دیے جا رہے ہیں ۔ اپنے پانچ سالہ دورِ اقتدار میں جو پیپلز پارٹی سٹیل مل کو خسارے سے نکالنے میں ناکام رہی، یہ ادارہ اسی کے سپرد کرنے کی بات ہو رہی ہے ۔
یہ وہ حالات ہیں ، جن میں اپنی تمام تر داخلی کمزوریوں کے باوجود نون لیگ کے قلعے لاہور میں تحریکِ انصاف اپنی عظیم الشان انتخابی مہم چلا رہی ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں ، جن میں تین دہائیوں تک پنجاب پر حکومت کرنے والا شریف خاندان کپتان سے خوفزدہ ہے ۔ کہنے والے نے درست کہا، پی ٹی آئی کا مقابلہ ایاز صادق سے نہیں ، پنجاب اور مرکز کی حکومتوںسے ، تمام صوبائی اور مرکزی اداروں کے ساتھ ہے ۔ عمومی طور پر ضمنی الیکشن میں بارسوخ اور کاروباری طبقہ مرکز اور صوبے میں قائم حکومت ہی کا ساتھ دیتا ہے ۔ اس کے باوجود این اے 122میں نون لیگ کو جان کے لالے پڑے ہیں ۔ صورتِ حال اب مضحکہ خیز حد تک دلچسپ ہے ۔