وزیروں اور حکومتی ترجمانوں کی ایک ہی تکرار ہے کہ ہم اقتصادی راہداری بنا رہے ہیں‘ جس سے ملک میں زرمبادلہ بھی آئے گا اور سرمایہ کاری بھی ہو گی۔ ضمنی انتخابات کی حالیہ مہم میں وزرائے کرام ایک اور دعویٰ لے کر عوام کے سامنے جا رہے ہیں کہ ہم نے ضرب عضب کا آپریشن شروع کیااور دہشت گردوں کی کمر توڑ کے ان کی سرگرمیاں ختم کیں۔ جس حکومت کا ایک صوبائی وزیرداخلہ چند روز پہلے دہشت گردی کا نشانہ بنا‘ اسے یہ دعوے زیب نہیں دیتے۔ لیکن کیا کیا جائے؟ ہمارے حکمرانوں کے پاس عوام کو بتانے کے لئے کچھ ہے ہی نہیں۔ ان کی بے چارگی دیکھئے کہ جو دعویٰ بھی وہ کرتے ہیں‘ عوام کو ان کا کچا چٹھہ اچھی طرح معلوم ہے۔ ضرب عضب کی کہانی زیادہ پرانی نہیں۔ جب فوج نے اچانک یہ آپریشن شروع کیا‘ اس وقت حکومت‘ دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھی۔ وہ حکومتی نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی بجائے ''مذاق رات‘‘ کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی تنظیم کا کوئی عہدیدار ‘مذاکرات کے لئے نہیں بھیجا۔ ادھر ادھر سے اپنے حامیوں کو پکڑ کے‘ اپنا نمائندہ قرار دیا اور پاکستانی ہی پاکستانیوں کے ساتھ مذاکرات میں لگے رہے۔ یہ تھا وہ مذاق‘ جو حکومت اپنے اور عوام کے ساتھ کر رہی تھی۔ خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ فوج نے آگے بڑھ کے‘ دہشت گردوں کے مراکز پر حملہ کر دیا‘ ورنہ حکومت تو عوام کو دہشت گردوں کے سامنے عملی طور پر بے یارومددگار چھوڑ بیٹھی تھی۔ حکمران اپنے تحفظ کے انتظامات کرنے میں لگے تھے اور ساتھ ہی پردے پردے میں ان سے اپنے جان و مال کا تحفظ مانگ رہے تھے۔ کچھ بعید نہیں کہ وہ خود بھی درپردہ‘ ان کی مدد کرتے رہے ہوں۔
یہی صورتحال کراچی آپریشن کی ہے۔ حکومت کو اس کابھی حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا۔ سندھ سے تعلق رکھنے والی تمام سیاسی جماعتیں بلا امتیاز کراچی کے امن و امان کے بارے میں فکرمند تھیں اور عوام کی بے چینی میں روزبروز اضافہ ہو رہا تھا۔ حالات مزید اسی طرح چلتے‘ تو کراچی خانہ جنگی کے دہانے پر کھڑا تھا۔ تمام سیاسی جماعتوں نے مجبور ہو کر‘ حکومت سے رینجرز کے ذریعے آپریشن کرنے کی استدعا کی۔ رینجرز نے آگے بڑھتے ہوئے ہر طرح کے سماج دشمن عناصر اور دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی شروع کی۔ جو سب سے بڑا کام رینجرز نے کیا‘ وہ عوام کا اعتماد حاصل کرنا تھا۔ ایم کیو ایم ایک اشارہ کرتی کہ شہر میں پہیہ جام ہڑتال ہو گی‘ تو عوام کے خوف کا یہ عالم تھا کہ وہ اگلے دن کا انتظار کئے بغیر ‘ رات ڈھلنے سے پہلے ہی ہڑتال کر کے بیٹھ جاتے۔ کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ ایم کیو ایم کے احکامات کی خلاف ورزی کرتا۔ ایک وقت ایسا آ گیا کہ ایم کیو ایم نے ہڑتال کی کال دی اور رینجرز نے عوام سے کہا کہ وہ معمول کے مطابق اپنا کاروبار اور کام کاج جاری رکھیں‘ دکانداروں کو ہر طرح کا تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ رینجرز اپنی کارکردگی سے عوام کا اعتماد حاصل کر چکی تھی۔ یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ کراچی کے شہریوں نے ایم کیو ایم کی کال کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ اپنا کاروبار بھی کیا۔ شہر میں ٹریفک بھی چلی۔ لوگ اپنے دفتروں اور کام کاج کی جگہوں پر بھی گئے۔ ٹریفک معمول کے مطابق جاری رہی۔ کچھ شرپسندوں نے لاٹھیوں اور پتھروں کے استعمال سے دکانداروں کو ہراساں کر کے‘ کاروبار بند کرانے کی کوشش کی۔ مگر ایسا نہ ہو سکا۔ عوام نے بلا خوف و خطر کاروبار کیا۔ دکانداروں کو ڈرانے والے شرپسند ‘بھاگ کھڑے ہوئے اور اہل کراچی نے برسوں بعدایم کیو ایم کی طرف سے ہڑتال کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آزادی کا لطف اٹھایا۔ جب یہ تماشا ہو گیا‘ تو ایم کیو ایم کے لیڈر شام کو یہ کہتے پائے گئے کہ ہم نے تو ہڑتال کی اپیل ہی نہیں کی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن‘ ایم کیو ایم کے ہیڈکوارٹر پر رینجرز نے چھاپہ مار کے جرائم پیشہ لوگوں کو گرفتار کیا مگر ایم کیو ایم کو ہڑتال کی اپیل کا حوصلہ نہ ہوا۔شہر کا خوف ختم ہونے پر حالات معمول پر آنے لگے اور تمام تحقیقاتی رپورٹوں کے مطابق کراچی میں 70فیصد بہتری آ چکی ہے اور اب آہستہ آہستہ بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کے واقعات میں کمی آتی جا رہی ہے۔ رینجرز نے حکومت کی کرپشن پر ہاتھ ڈالا‘ تو اس کے سارے بڑے بڑے وزیر دم دبا کے بیرون ملک فرار ہو گئے اور اب واپسی کا نام نہیں لے رہے۔ پیر پگاڑا نے تو یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ آصف زرداری اب واپس نہیں آئیں گے۔ ابھی کرپٹ حکمرانوں کے خلاف فوجی آپریشن کا مرحلہ شروع نہیں ہوا۔ فوج کے چیف آف سٹاف نے امن و امان کی بحالی کے لئے جو اقدامات کئے ہیں‘ انہی کی بنا پر امن کو ترسے ہوئے عوام‘ امید بھری نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگے ہیں اور ہر طرف یہ افواہیں پھیلنے لگی ہیں کہ فوج اقتدار پر قبضہ کرے گی۔ انہی دنوں میں نے واضح طور سے ایک کالم میں لکھا کہ فوج اقتدار پر قبضے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی۔ عوام کو غلط امیدیں نہیں لگانا چاہئیں۔ فوج یہ چاہتی ہے کہ کرپشن کو ختم کرنے کی ذمہ داری منتخب حکومت ہی پوری کرے۔ جس دن میرا یہ کالم شائع ہوا‘ آئی ایس پی آر کے سربراہ جنرل عاصم سلیم باجوہ اپنے چیف کے ساتھ جرمنی میں تھے۔ مجھے ان کی طرف سے اسی دن پیغام آیا کہ آپ نے بالکل صحیح تجزیہ کیا ہے۔ فوج ملکی سلامتی کے لئے یہ ذمہ داریاں ضرور پوری کر رہی ہے۔ لیکن نہ تو اس کی نظر اقتدار پہ ہے اور نہ ہی جنرل راحیل شریف پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے آگے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس پیغام کے بعد مجھے تو یقین ہو گیا ہے کہ جنرل راحیل اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے تجاوز کر کے‘ کوئی اور قدم اٹھانے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ اس پیغام کے بعد میں اہل سیاست سے گزارش کروں گا کہ و ہ حقیقی جمہوریت کی طرف واپس آ کر‘ عوام کو ایک صاف ستھرا نظام دیں۔ جمہوری حکومتوں کی کرپشن نے ملک کی مالی حالت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ لوٹ مار آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ قطر گیس کی درآمد اور تقسیم کاری شروع ہونے کے بعد بھی ‘عوام کو ابھی تک پتہ نہیں کہ ان کے سر پر12سال کے لئے کتنی مہنگی گیس کا پتھر رکھ دیا گیا ہے؟ نندی پور پاور پلانٹ میں 60ارب روپیہ کھایا جا چکا ہے اور اب اسے کوئی ہاتھ لگانے کو تیار نہیں۔ حکومت اس بلا کو اپنے سر سے اتارنا چاہتی ہے اور کوئی دوسری کمپنی اسے ہاتھ لگانے کو تیار نہیں۔ سٹیل ملز ‘وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان فٹ بال بنی ہوئی ہے۔ کرپشن نے ہمارے ملک کے سب سے قیمتی اثاثے کی کیا حالت کر دی ہے؟ میں نے محض چند مثالیں دی ہیں۔ دردمندانہ استدعا ہے کہ جن سیاستدانوں کے ضمیر ابھی زندہ ہیں ‘ وہ سب مل کر پاکستانی معاشرے اور حکومتی اداروں سے کرپشن ختم کرنے کا آئینی اور قانونی منصوبہ بنائیں۔ سب سے پہلے احتسابی اداروں کو مضبوط اور موثر کریں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ عدلیہ ایک عرصے کے بعد آزاد انہ طور سے آئینی ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے۔ وکلا برادری پہلے سے زیادہ بیدار اور منظم ہو چکی ہے۔ جب سیاستدان کرپشن کے خلاف مہم چلائیں گے‘ تو انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہو گی کہ عوام تیزی کے ساتھ ان کی حمایت میں کھڑے ہو جائیں گے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں‘ کرپشن کرنے والوں کی نشاندہی کیا کریں گے۔ احتسابی ادارے رائج الوقت قوانین کے ذریعے انہیں گرفت میں لے کر انجام کو پہنچائیں گے۔ بیشک معاشرہ دیکھتے ہی دیکھتے مثالی نہیں بن جایا کرتا۔ لیکن پاکستانی عوام جتنی سزا بھگت چکے ہیں‘ آج انہیں اگر معاشرے کو سدھارنے کا موقع ملا‘ تو مجھے یقین ہے کہ وہ جذبہ جہاد کے ساتھ معاشرے کو بدلنے میں سرگرم کردار ادا کریں گے۔ میں نے عوام کو اصلاحی جذبے کے تحت میدان عمل میں اترتے دیکھا ہے۔ 1947ء اور 1965ء میں یہی پاکستانی عوام تھے‘ جنہوں نے معاشرے کو بدلنے کے لئے انقلابی کردار ادا کیا۔ آخر میں موجودہ حکومت کے وزیراور ترجمانوں سے کہوں گا کہ خدا کے لئے وہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بن کر‘سلک روڈ کا سہرااپنے سر پہ زبردستی مت باندھیں۔ یہ چین کا اقتصادی منصوبہ ہے‘ جو بیجنگ میں بیٹھ کر بنایا گیا۔ نہ ہم سے کسی نے پوچھا۔ نہ مشاورت کی۔ منصوبہ تیار کرنے کے بعد‘ انہوں نے ہم سے پاکستان کے اندر سڑک بنانے کی اجازت حاصل کی اور اپنے اس منصوبے کو‘ اپنے ہی وسائل سے پایہ تکمیل تک پہنچا
رہے ہیں۔ اس کے فوائد پاکستان اور اہل پاکستان کو ہوں گے۔ نہ تو انہوں نے کسی حکومت کی مدد کی ہے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کو فائدہ پہنچانا ان کا مقصود ہے۔وہ اپنی کارکردگی دکھا کر‘ عوام سے حمایت ضرور مانگیں۔ لیکن ابھی تک جو کچھ انہوں نے کیا ہے اگر اسی طرح کرتے رہے‘ تو آنے والے انتخابات میں انہیں وہی کچھ ملے گا‘ جس کے وہ مستحق ہیں۔ رہ گیا دھاندلی سے الیکشن جیتنے کا خیال‘ تو عمران خان ان کے پیچھے پڑ چکا ہے۔ خدانخواستہ کرپٹ حکمران بے حوصلہ ہو کر‘ عمران کو راستے سے ہٹانے پر تل گئے‘ تو عمران پھربھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ بندے مر جاتے ہیں لیکن جس خیال کا بیج وہ بو جاتے ہیں‘ وہ نہیں مرتا۔ اچھا خیال زندہ رہتا ہے اور کامیاب بھی ہوتا ہے۔