لازم ہے کہ فضل حسین کو نمونۂ عبرت بنا دیا جائے ۔ حکومتی رٹ اگر اس طرح کے لوگوں پر نافذ نہ ہوگی تو کیا پرویز اشرف ، یوسف رضا گیلانی ، رحمن ملک اور آصف علی زرداری ایسے لوگ اس کا شکار ہوں گے ؟ سلطانیٔ جمہور زندہ باد، خادمِ پنجاب پائندہ باد ! کیا کہنے ، آپ کے کیا کہنے!
اگرچہ پنجاب حکومت بھی صحت کے میدان میں بعض کوتاہیوں کی سزاوار ہے مگر چکوال کے ایک گائوں سے تعلق رکھنے والا فضل حسین بہت ہی سنگین جرم کا مرتکب ہوا ۔ ا س کی جسارت نے حکومتِ پنجاب کو ہلا کر رکھ دیا ہے ؛چنانچہ دھوکہ دہی، جعل سازی اور حکومت کے خلاف نفرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ اس کے خلاف درج ہو چکا ۔ مجرم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی لیکن پولیس کاگھیرا تنگ ہے ۔
دو ہفتے قبل ڈھوڈا گائوں سے تعلق رکھنے والے فضل حسین کی اٹھائیس سالہ بیٹی عطیہ نورین کی حالت بگڑ گئی ۔ وہ اسے چکوال کے ایک ہسپتال لے گیا۔پھر مایوس ہو کر وہ جہلم کے سی ایم ایچ ہسپتال گیا ۔ 28ستمبر کو عطیہ نورین کا انتقال ہو گیا۔
اگلے دن ایک ٹی وی رپورٹر نے فضل حسین سے رابطہ کیا ۔ پوچھا کہ کیا اس کی صاحبزادی ڈینگی میں مبتلا تھی ؟ فضل حسین پاک فوج کاایک سبکدوش سپاہی ہے اور معمولی پڑھا لکھا۔ اس نے کہا : وہ نہیں جانتا کہ ہوا کیا۔ وہ تو بس یہ جانتا ہے کہ اس نے اپنی جواں سال دختر کو کھودیا ہے ۔ اخبار نویس نے ڈینگی کی علامات بتانا شروع کیں تو فضل حسین نے کہا: لگتاہے کہ عطیہ کا انتقال اسی بیماری سے ہوا۔ پھر جلدی سے اس نے فون بند کر دیا۔ وہ ماتم گساروں میں گھرا تھا ۔ مرض اور اس کے اسباب پر تحقیق کا ہوش اسے کہاں تھا۔اگلے ہی دن ضلعی انتظامیہ نے سرکاری افسروں کا ایک وفد فضل حسین کے گھر بھیجا۔ لاہور سے وزارتِ صحت کے اعلیٰ حکام نے جس کاحکم دیا تھا۔ ہسپتال سے جاری ہونے والا، وفات کا سرٹیفیکیٹ پڑھا گیا تو معلوم ہوا کہ موت کی وجہ دل کا مرض تھا، ڈینگی نہیں ۔
اس ہولناک انکشاف کے بعد چکوال کے ڈپٹی ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر اکرام الحق نے ایک درخواست دائر کی کہ فضل حسین نے میڈیاکوغلط معلومات فراہم کر کے ضلع چکوال میں بے چینی پیدا کر دی ہے ؛چنانچہ دفعہ 420اور 500کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ایک پولیس افسر فضل حسین کے گھر پہنچا اور جرم سے اسے مطلع کیا۔ ''میں انگریزی نہیں جانتا‘‘فضل حسین نے بتایا۔ میں نے سرٹیفیکیٹ پڑھا اور نہ اخبار نویس نے ۔ فقط فون پر اس سے بات ہوئی تھی۔ چکوال میں محکمہ صحت والوں کا کہنا ہے کہ وہ مقدمہ درج کرنے کے حق میں نہیں تھے مگر لاہور سے اعلیٰ افسروں کو اس پر اصرار تھا ۔ ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا: فضل حسین بھی اگرچہ قصور وار ہے مگر کارروائی اخبار نویس کے خلاف ہونی چاہیے تھی ۔ اس نے تصدیق کے بغیر جھوٹی خبر پھیلائی اور ملک بھرمیں ہیجان پیدا کیا۔
اس مقدمے کا کیا ہوگا، یہ تو معلوم نہیں ۔ کیا اخبار نویس بھی قانون کی زد میں آئے گا یا نہیں ؟ انگریزی اخبار میں خبر کی اشاعت کے بعد وزیرِ اعلیٰ شہباز شریف ممکن ہے فضل حسین کو معاف کرنے کا فیصلہ کریں اور شاید اس اخبار نویس کو بھی ۔ ان کی خد مت میں گزارش البتہ یہ ہے کہ جب ڈینگی کوجڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا تہیہ انہوں نے کر لیا ہے تو ظاہر ہے کہ محکمہ صحت کو بہتر بنانے پر بھی توجہ مرکوز فرمائیں گے ۔یہ کچھ اعداد و شمار ہیں ، جن سے جھلکتاہے کہ اس میدان میں چھوٹی موٹی کچھ کوتاہیاں حکومتِ پنجاب سے بھی سرزد ہوئی ہیں ۔ کیا وہ ان پر توجہ دینے کی زحمت کریں گے ؟
سالِ گزشتہ کے بجٹ میں دیے گئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے کی طبی ضروریات کے لیے 31.60ارب روپے مختص ہوئے تھے ۔ ان میں سے فقط 14ارب صرف ہوئے ، باقی دوسرے منصوبوں میں منتقل کر دیے گئے ۔ غالباً لاہور کی جیل روڈ کو سگنل فری بنانے اور اس طرح کے د وسرے زیادہ ضروری کاموں کے لیے ۔ گزشتہ چار سال کے دوران کل 65ارب روپے ہسپتالوں کے لیے رکھے گئے مگر اکتیس ارب ہی خرچ کیے جا سکے ۔ باقی 34ارب کا کیا ہوا؟ وزیرِ اعلیٰ جانتے ہیں یا ڈینگی کے خلاف مہم چلانے والے افسرانِ بالا ، جو اس معاملے میں اس قدر حساس واقع ہوئے ہیں کہ فضل حسین کی حماقت پر طوفان اٹھادیا۔
اگر یہ چونتیس ارب ان ایک درجن سے زیادہ منصوبوں پر صرف ہو سکتے ، جن میں سے کچھ ایک عشرے سے زیرِ تعمیر ہیں ؟ مثال کے طور پر وزیرِ آباد کا کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ ، چوہدری پرویز الٰہی نے 2006ء میں جس کی تعمیر کا آغاز کیا تھا ۔ جس کی تکمیل نہ ہونے سے گوجرانوالہ ، گجرات ، سیالکوٹ او رجہلم کے اضلاع میں ہر سال تین ہزار سے زیادہ مریض زندگیاں ہار جاتے ہیں ۔ جناح ہسپتال لاہور اور فیصل آباد کے برن یونٹ ، جوجل مرنے والے سینکڑوں بد قسمت لوگوں کے اندمال کا ذریعہ بن سکتے ۔ نو برس پہلے ان دونوں پر کام شروع ہوا تھا۔ سات برس پہلے لاہور کے مشہور سروسز ہسپتال کے ہنگامی وارڈ میں توسیع کا فیصلہ ہوا تھا مگر اب تک وہ ناتمام ہے ۔ مینارِ پاکستان کے مقابل ، بادشاہی مسجد کے عقب میں ڈینٹل ہسپتال بر صغیر میں دانتوں کے قدیم ترین شفا خانے کا اعزاز رکھتاہے ۔ اب اس کی حالت یہ ہے کہ مریضوں کے لیے مخصوص کرسیاں بھی پوری تعداد میں مہیا نہیں ، جنہیں Auto Chairکہا جاتاہے ۔ اکثر ناکارہ ہو چکیں۔ میو ہسپتال کا سرجیکل وارڈ برسوں سے وزیرِ اعلیٰ کی نگاہِ کرم کا منتظر ہے ۔ لاہور کا پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ، جہاں مریض فرش پہ پڑے رہتے ہیں یا کرسیوں پر لاچار دکھائی دیتے ہیں ۔ سو سال پراناگنگا رام ہسپتال ، بچوں کا مول چند وارڈ ، جس کی حالتِ زار ناقابلِ بیان ہے ۔ فیصل آباد کاجنرل ہسپتال جوتقریباً بند پڑا ہے کہ استعداد کا صرف دس فیصد ہی بروئے کار لاسکا۔
وزیرِ اعلیٰ اگر فرصت پائیں تومیو ہسپتال کے مقابل لیڈی ولنگٹن کا دورہ کرنے کی زحمت کریں ، جہاں ایک ایک بستر پر زچگی کی منتظر تین تین عورتیں بے سدھ پڑی رہتی ہیں ۔ زندگی اور موت تو اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔ کیسی دعائیں ان کے دل سے نکلتی ہوں گی کہ کم ازکم ہسپتال میں داخلہ حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ گنگارام ہسپتال کی حالت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔
سیکرٹری صحت اور وزیرِ اعلیٰ کے علم میں ہوگا کہ کم سن بچوں کو ٹی بی سے بچانے کے لیے BCGنام کی ایک ویکسین سرکاری شفاخانوں کو ہرسال فراہم کی جاتی ہے ۔ ممکن ہے یہ بات ان کے علم میں نہ ہو کہ امسال تین ماہ تک اکثر ہسپتالوں میں یہ دوا موجود ہی نہ تھی ۔ڈاکٹروں کی دو ہزار آسامیاں خالی پڑی ہیں ۔صرف شیخ زید ہسپتال میں نوے۔
سرکاری تعلیمی اداروں کا حال بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ طالبِ علموں کو مفت کے کمپیوٹر فراہم کرنے کے لیے امسال دو کی بجائے چار ارب روپے خرچ ہوں گے ۔ اکیسویں صدی میں کمپیوٹر کے بغیر تعلیم کا کیا تصور ۔ نادار طلبہ کے لیے سرکاری وظائف بھی دو گنا ہو چکے ۔ دانش سکولوں پر تو ظاہر ہے کہ وزیرِ اعلیٰ اور بھی مہربان ہیں۔ فقط یہ ہے کہ سالِ گزشتہ کے دوران پنجاب میں شرحِ خواندگی مزید ایک فیصد کم ہوئی ۔ سکولوں کی تعدادمیں یہ کمی صرف پانچ فیصد ہے ۔ زیادہ نہیں ، فقط دو ہزار سکول پنجاب میں ایسے ہیں ، جو پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں ۔ بہت سے غسل خانوں اور ضروری فرنیچر سے بھی ۔
فضل حسین کو اس کے کیے کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ اگر وہ انگریزی نہیں جانتا تو اپنی نورِ نظر کی موت کا سرٹیفیکیٹ اسے کسی سے پڑھوا کر سننا چاہیے تھا۔
لازم ہے کہ فضل حسین کو نمونۂ عبرت بنا دیا جائے ۔ حکومتی رٹ اگر اس طرح کے لوگوں پر نافذ نہ ہوگی تو کیا پرویز اشرف ، یوسف رضا گیلانی ، رحمن ملک اور آصف علی زرداری ایسے لوگ اس کا شکار ہوں گے ؟ سلطانیٔ جمہور زندہ باد، خادمِ پنجاب پائندہ باد ! کیا کہنے ، آپ کے کیا کہنے!